بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے طاہر علی (فرضی نام) بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں واقع بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز میں ایم بی بی ایس کے سال آخر میں زیر تعلیم ہیں۔
طاہر اور 80 کے قریب دیگر کشمیری طلبہ جب رواں برس 17 مارچ کو چھٹیوں کے بعد پاکستان میں اپنی یونیورسٹیوں اور کالجوں کو واپس لوٹنے کے لیے واہگہ اٹاری سرحد پر پہنچے تو انہیں وہاں کئی گھنٹوں تک انتظار کروایا گیا۔
بھارتی امیگریشن حکام نے انہیں پہلے یہ بتایا کہ آپ لوگوں کی فہرست ہمارے پاس نہیں پہنچی ہے اور پھر کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد یہ کہہ کر واپس جانے کو کہا کہ آپ کو بھارتی وزارت داخلہ کی منظوری کے بعد ہی پاکستان جانے دیا جائے گا۔
تب سے یہ طلبہ، جن کی مجموعی تعداد تین سو کے قریب ہے، پاکستان میں اپنی یونیورسٹیوں اور کالجوں کو واپس لوٹنے کے لیے ہر دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں لیکن انہیں کہیں سے کوئی مدد نہیں مل رہی ہے۔
ان پریشان حال طلبہ کو یہ معلوم نہیں ہو پا رہا ہے کہ انہیں کیوں کر واپس جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ ان طلبہ کا ایک تعلیمی سال ضائع ہو چکا ہے کیوں کہ ان میں سے اکثر امتحانات میں شریک نہیں ہو پائے ہیں اور جن کے امتحانات باقی ہیں انہیں بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ وہ وقت پر پہنچ کر امتحانات میں شرکت کر سکیں گے۔
کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ کا دعویٰ ہے کہ جو کشمیری طلبہ یہاں سے پڑھائی کے لیے ’پاکستان جاتے ہیں وہ وہاں سے دہشت گرد‘ بن کر واپس آتے ہیں لیکن طلبہ نے اس بیان کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
23 سالہ طاہر علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ کو اپنی پڑھائی سے فرصت نہیں ملتی پھر وہ کیسے کسی غیر قانونی سرگرمی میں شریک ہو سکتے ہیں؟
’میں ایم بی بی ایس سال آخر کا طالب علم ہوں۔ ایم بی بی ایس کی پڑھائی آسان نہیں۔ ہم رات دن ایک کرتے ہیں۔ یہ کوئی مذاق نہیں بلکہ ہمارے مستقبل کا سوال ہے۔ میرے 25 ستمبر سے امتحانات شروع ہو رہے ہیں۔ اگر میں امتحانات میں شریک نہیں ہو پایا تو میرا ایک سال ضائع ہو جائے گا۔ مجھ سمیت تمام طلبہ پریشان حال ہیں۔ ڈپریشن کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہمیں بالکل سمجھ نہیں آتا کہ ہم کریں تو کیا کریں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’طلبہ کی ایک بڑی تعداد وہ ہے جو امتحانات میں شریک نہیں ہو سکی۔ ہمیں اس بات کی بھی فکر ہے کہ اگر ہمیں جانے دیا گیا تو کیا کالج والے ہمیں کم حاضری کے بہ موجب امتحانات میں بیٹھنے کی اجازت دیں گے۔‘
تمام راستے بند
طاہر علی نے بتایا کہ بھارتی حکومت نے کشمیری طلبہ کے لیے پاکستان جانے کے تمام زمینی و فضائی راستے بند کر دیے ہیں۔
’میں رواں سال جنوری میں چھٹی لے کر گھر آیا تھا اور مارچ میں مجھے واپس جانا تھا۔ 17 مارچ کو ہمیں واہگہ اٹاری بارڈر کے ذریعے پاکستان جانا تھا۔ ہم وہاں پہنچے تو سو سے زیادہ بھارتی شہریوں کو پاکستان جانے کی اجازت ملی اور وہ گاڑیوں میں بیٹھ کر چلے بھی گئے۔ ہم درجنوں کشمیری طلبہ کو انتظار کرنے کے لیے کہا گیا۔‘
ان کے بقول: ’وہاں موجود امیگریشن والوں نے ہمیں پہلے یہ بتایا کہ آپ کی لسٹ ہمارے پاس نہیں پہنچی ہے اور پھر بتایا کہ آپ پہلے وزارت داخلہ سے منظوری حاصل کریں۔ جب کچھ طلبہ نے ہوائی جہازوں کے ذریعے براستہ دبئی پاکستان جانے کی کوشش کی تو انہیں وہاں سے بھی جانے نہیں دیا گیا۔ اگست کی 17 اور 18 تاریخ کو جن کشمیری طلبہ نے فضائی راستے سے پاکستان جانے کی کوشش کی انہیں امیگریشن والوں نے دبئی جانے والے جہاز میں بیٹھنے نہیں دیا۔‘
طاہر علی کہتے ہیں کہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ بھارتی حکومت نہیں چاہتی کہ کشمیر سے مزید طلبہ پڑھائی کے لیے پاکستان جائیں۔
پاکستان میں داخلہ لینے سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا: ’جب میں نے پاکستانی میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تب بڑی آسانی سے داخلہ مل جاتا تھا اور بہت کم رقم بطور فیس ادا کرنی پڑتی تھی۔‘
کشمیری طلبہ کی تنظیم ’جموں و کشمیر سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن‘ کے صدر ناصر کہویہامی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں زیر تعلیم اکثر کشمیری طلبہ متوسط گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
’یہ کہا جاتا ہے کہ یہ طلبہ وہاں سکالر شپ یا حریت کانفرنس کے رہنمائوں کی سفارش پر گئے ہیں مگر اصل سوال یہ ہے کہ یہ طلبہ وہاں پڑھائی کے لیے کیوں جاتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ فیس ہے۔ بھارت کے نجی میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس ڈگری کی فیس 60 سے 80 لاکھ روپے ہے اس کے برعکس پاکستان میں زیادہ سے زیادہ فیس محض 20 لاکھ روپے ادا کرنی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے طلبہ میڈیکل یا انجینیئرنگ کی پڑھائی کے لیے پاکستان جاتے ہیں۔‘
احتجاج کرنے سے بھی ڈر
ناصر کہویہامی نے بتایا کہ بغیر کسی قابل قبول وجہ کے پاکستان جانے سے روکے جانے والے کشمیری طلبہ احتجاج کرنے سے بھی ڈرتے ہیں۔
ان کے مطابق: ’یہ طلبہ کس قدر پریشان ہیں یہ بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر ہمیں فون یا ٹیکسٹ مسیج بھیجتے ہیں۔ ہم ان کی مدد نہیں کر پا رہے ہیں۔ کوئی حکومتی عہدیدار ایسا نہیں ہے جس تک ہم نے پہنچنے کی کوشش نہ کی ہو۔ ہم نے ان طلبہ کی واپسی یقینی بنانے کے لیے تقریباً تمام قانونی طریقے استعمال کیے لیکن ابھی تک کامیابی نہیں ملی۔ ہم نے ان کے لیے وزیر داخلہ امت شاہ کو خط لکھا۔ وزارت داخلہ کے بعض عہدیداروں سے لے کر کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے ملاقات کی۔ ہم نے وزارت داخلہ کے عہدیداروں سے کہا کہ اگر یہ طلبہ کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہیں تو آپ ثبوت پیش کریں۔ ہم نے ان سے یہ بھی کہا کہ اگر بھارتی حکومت چاہتی ہے کہ طلبہ پاکستان میں نہ پڑھیں تو وہ اس حوالے سے ایک سرکاری حکم نامہ جاری کریں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ ان طلبہ کی این او سی کلیئرنس باقی ہے لیکن یہ قابل قبول جواب نہیں ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر کے دفتر نے کہا تھا کہ ہم معاملے کو دیکھیں گے لیکن تین ماہ گزرنے کے بعد بھی وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ ہم نے ان طلبہ کے لیے جموں و کشمیر کی سبھی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں لیکن کسی نے معاملے کو حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ شاید وہ اس لیے خاموش ہیں کیوں کہ جس ملک میں یہ طلبہ پڑھتے ہیں وہ پاکستان ہے۔‘
ناصر کہویہامی کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کو ان طلبہ، جن میں سے اکثر اپنے کورسز کے تیسرے، چوتھے یا پانچویں سال میں ہیں، کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ان طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ اگر پاکستان میں کوئی طالب علم غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہوا ہے تو سبھی طلبہ کو سزا دینے کی بجائے اس طالب علم کی شناخت ظاہر کی جانی چاہیے۔ یا اگر بھارتی حکومت کی پالیسی بدل گئی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ کوئی بھی کشمیری طالب علم پاکستان میں تعلیم حاصل نہ کرے تو باضابطہ طور پر ایک پالیسی سامنے لائی جائے۔ وہاں زیر تعلیم طلبہ کو ڈگری کے اواخر میں روکنا نا انصافی ہے۔‘
ناصر کہویہامی کہتے ہیں کہ اگر دو ممالک کے درمیان تنازع ہے تو اس کا اثر تعلیم اور طلبہ پر نہیں پڑنا چاہیے۔
ان کے بقول: ’بدقمستی سے بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعے کے متاثرین کشمیری طلبہ بن جاتے ہیں۔ 14 فروری 2019 کو پلوامہ کا واقعہ پیش آیا۔ بھارت نے اس کا الزام پاکستان پر لگایا۔ بھارت میں کشمیری طلبہ پر حملے شروع ہوئے جس کے بعد طلبہ کی بڑی تعداد کو کشمیر واپس لوٹنا پڑا تھا۔‘
نہ ختم ہونے والے مسائل
مبشر محی الدین حکیم نامی کشمیری نوجوان نے راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی سے 2019 میں ایم بی بی ایس کی ڈگری مکمل کی۔
انہوں نے گذشتہ برس نیشنل بورڈ آف ایگزیمینشنز ان انڈیا کی طرف سے لیے جانے والے میڈیکل کونسل آف انڈیا سکریننگ ٹیسٹ میں کامیابی حاصل کی جس کی بنیاد پر وہ بھارت میں اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دے سکتے ہیں، لیکن انہیں امتحان میں کامیابی کی سند اب تک اس وجہ سے نہیں دی جا رہی ہے کیونکہ انہوں نے پاکستان میں پڑھائی کی ہے۔
مبشر حکیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں نے 2019 میں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور پھر انٹرنشپ بھی پاکستان میں ہی کی۔ میں نے پچھلے سال دسمبر میں ایم سی آئی ایس ٹی کا امتحان پاس کیا مگر مجھے اس کی سند نہیں دی جا رہی ہے۔ مجھ سے کہا جا رہا ہے کہ سکیورٹی کلیئرنس ملنے کے بعد ہی آپ کو سند فراہم کی جائے گی۔ میں اکیلا ایسا کشمیری ڈاکٹر نہیں ہوں بلکہ ہماری تعداد 25 کے آس پاس ہے۔ اگر سکیورٹی کلیئرنس کے لیے ہماری ویریفیکیشن کرانی مقصود ہے تو یہ کام فوراً مکمل کیا جانا چاہیے تاکہ ہم اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دے سکیں۔‘
مبشر نے کہا: ’میں پچھلے سال جون میں انٹرنشپ کر کے واپس کشمیر لوٹ آیا اور تب سے گھر میں ہی بیٹھا ہوں۔ ہم تو لائسنس کے بغیر اپنی پیشہ ورانہ خدمات بھی انجام نہیں دے سکتے ہیں۔‘
بندوق لے کر واپس آ جاتے ہیں؟
کشمیری طلبہ کو پاکستان میں اپنی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھائی جاری رکھنے سے کیوں روکا جا رہا ہے اس بارے میں بھارتی وزارت داخلہ و خارجہ مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
تاہم کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے گذشتہ ماہ ضلع راجوری میں نامہ نگاروں سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ ’جو کشمیری نوجوان پڑھائی کے لیے پاکستان جاتے ہیں وہ وہاں سے بندوق لے کر واپس آ جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا: ’یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ پاکستان جانے سے کیوں روکا جا رہا ہے۔ سختی کی وجہ یہی ہے کہ یہاں سے نوجوان پڑھائی کے لیے جاتے ہیں لیکن وہاں سے بندوق اٹھا کر واپس آتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان میں قلم پر بندوق کو ترجیح دی جاتی ہے۔‘
پولیس سربراہ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ’2017 اور 2018 میں سٹیڈی یا ٹورسٹ ویزا پر پاکستان جانے والے 57 کشمیری نوجوان عسکریت پسند بنے جن میں سے اب تک 17 کو مارا جا چکا ہے۔‘
ان کے مطابق: ’2017 اور 2018 میں بہت سارے نوجوان سٹیڈی یا ٹورسٹ ویزا پر پاکستان چلے گئے۔ ہمارے پاس 57 ایسے نوجوانوں کے کیسز آئے جو پاکستان چلے جانے کے بعد کسی نہ کسی دہشت گرد کارروائی میں ملوث رہے۔ وہ پاسپورٹ پر گئے لیکن جب واپس آئے تو غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کر کے اس پار آئے۔ ان میں سے اب تک 17 عسکریت پسندوں کو مارا جا چکا ہے۔ 13 ایسے ہیں جن کی ہم نے شناخت کر لی ہے اور وہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں سرگرم ہیں۔ 17 لوگ ایسے ہیں جو گئے ہوئے ہیں لیکن ابھی تک واپس نہیں لوٹے ہیں۔‘
تاہم طلبہ اور طلبہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے اس طرح کے دعوے بغیر کسی ثبوت کے کیے جاتے ہیں اور اگر کسی نے خطا کی ہے تو اس کی سزا سب کو نہیں دی جا سکتی۔
ایک اور دعویٰ
کشمیر پولیس نے حال ہی میں ایک علیحدگی پسند رہنما سمیت چار کشمیریوں کو گرفتار کیا جن پر الزام لگایا گیا کہ وہ پاکستان کے میڈیکل کالجوں کی ایم بی بی ایس نشستیں کشمیری طلبہ کو فروخت کرتے ہیں۔
اس حوالے سے جاری ہونے والے ایک بیان میں پولیس نے دعویٰ کیا کہ ’خواہش مند طالب علموں کے والدین سے وصول کیے جانے والے پیسے ٹیرر فنڈنگ اور علیحدگی پسند سرگرمیاں چلانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔‘
میرواعظ مولوی عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس (ع) کا کہنا ہے کہ پولیس کا یہ دعویٰ بے بنیاد اور گمراہ کن پروپیگنڈا ہے۔
حریت کانفرنس کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ اس کی تصدیق خود ان (پاکستان میں زیر تعلیم) طلبہ اور ان کے والدین سے کی جا سکتی ہے جن کی حریت کانفرنس نے سفارش کی ہے جبکہ ان میں سے بیشتر طلبہ مالی لحاظ سے کمزور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
’حریت چیئرمین، جو کشمیر کے میرواعظ (سب سے بڑے مذہبی رہنما) بھی ہیں، سعودی عرب ،ملائیشیا ، ترکی، بنگلہ دیش اور دیگر کئی ممالک میں حصول علم کے لیے جانے والے طلبہ کی فلاح و بہبود کی خاطر ان کی خواہش پر سفارشی خطوط بھی جاری کرتے رہے ہیں جو ان سے اس حوالے سے رابطہ کرتے ہیں۔‘
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے تعلیمی ادارے بلیک لسٹڈ
گذشتہ برس اگست میں میڈیکل کونسل آف انڈیا (جس کا اب نام تبدیل کر کے نیشنل میڈیکل کمیشن رکھا گیا ہے) نے اعلان کیا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں قائم میڈیکل کالجوں سے حاصل کی جانے والی اسناد کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور ایسی اسناد رکھنے والے افراد کو بھارت میں میڈیکل پریکٹس کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ایک سرکاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں ’قائم میڈیکل کالج بھی ایم سی آئی ایکٹ 1956 کے تحت تسلیم شدہ ہونے چاہیے۔‘
نوٹیفکیشن کے مطابق چوں کہ ان خطوں میں کوئی بھی کالج آئی ایم سی کے تحت تسلیم شدہ نہیں ہے لہٰذا ان کے ’طبی کالجوں سے سند یافتہ لوگ بھارت میں میڈیکل پریکٹس کرنے کا جواز نہیں رکھتے ہیں۔‘
جون 2020 میں آل انڈیا کونسل برائے تکنیکی ایجوکیشن کی طرف سے جاری ایک پبلک نوٹیفکیشن میں کشمیری طلبہ سے کہا گیا تھا کہ وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے تعلیمی اداروں بشمول یونیورسٹیوں، میڈیکل کالجوں اور تکنیکی تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے سے گریز کریں کیونکہ یہ تعلیمی ادارے نہ ہی بھارتی حکومت نے قائم کیے ہیں اور نہ انہیں متعلقہ اتھارٹیز تسلیم کرتی ہیں۔
قبل ازیں مئی 2019 میں ایک اور بھارتی ادارے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے ایک ایڈوائزری جاری کر کے طلبہ سے کہا تھا کہ وہ پاکستان زیر انتظام کشمیر کے تعلیمی اداروں میں داخلہ نہ لیں کیونکہ بھارتی حکومت ان کو تسلیم نہیں کرتی ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کشمیری طلبہ کے لیے خصوصی کوٹہ ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر سال بڑی تعداد میں کشمیری طلبہ پاکستان کے تعلیمی اداروں بالخصوص میڈیکل کالجوں میں داخلہ لیتے ہیں۔