گوا کا پرفضا مقام تھا، ہدایت کار کے بالاچندر فلم ’ایک دوجے کے لیے‘ کے گیت ’سولہ برس کی بالی عمر کو سلام‘ کی عکس بندی میں مصروف تھے۔ کم و بیش یہ مکمل ہوچکا تھا بس آخری کا حصہ باقی تھا۔
دور تک پھیلے ہوئے سمندر کے جھاگ اڑاتے کنارے پر ہیروئن رتی اگنی ہوتری چہل قدمی کرتے ہوئے عکس بندی کے لیے استعمال ہونے والے بڑے سے ٹیپ ریکارڈر پر لتا منگیشکر کی آواز میں گائے ہوئے گیت کے بول پر لب ہلا رہی تھیں۔
یہ ان کی پہلی ہندی زبان کی فلم تھی، جس میں اِن کے ہیرو کمل ہاسن بھی اسی تخلیق کے ذریعے بالی وڈ فلم میں انٹری دینے جا رہے تھے۔
ہدایت کار کے بالا چندر نے رتی اگنی ہوتری کو کچھ سمجھایا اور اپنے اسسٹنٹ کو اشارہ کیا کہ وہ گیت کے بول کو پھر سے ٹیپ ریکارڈر پر لگائے۔
رتی اگنی ہوتری گلے میں ڈالے ہوئے دوپٹے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتی ہوئی آگے بڑھیں، چاروں طرف لتا منگیشکر کی آواز گونجی لیکن کے بالا چندر نے اچانک ’کٹ، کٹ‘ کی زوردار آواز لگائی۔
ہر سو خاموشی چھا گئی۔ سب ہکا بکا تھے کہ اس قدر خوبصورت منظر عکس بند ہو رہا ہے، آخر ہوا کیا جو کے بالاچندر نے عکس بندی رکوا دی۔
سب کے چہرے پر سوال لٹک رہا تھا کہ آخر معاملہ کیا ہے؟ اِدھر بالا چندر نے اسسٹنٹ کو بلایا اور مدراسی لب و لہجے میں بولے کہ ’جس نے فلم کے یہ گیت لکھے ہیں، ان سے ملنا چاہتا ہوں۔‘
اسسٹنٹ نے حیرت سے بالا چندر کو دیکھا، جو یہ کہہ کر سنیماٹوگرافر کے پاس سے ہٹ گئے تھے اور دور جا کر ڈائریکٹر والی کرسی پر براجمان ہو چکے تھے۔ جس کا صاف مطلب تھا کہ فی الحال مزید عکس بندی نہیں ہو گی۔
بالا چندر کی فرمائش بڑی عجیب تھی لیکن ان کی پروڈکشن ٹیم جانتی تھی کہ اگر انہوں نے یہ مطالبہ کیا ہے تو ان کے ذہن میں کچھ نہ کچھ کھچڑی پک رہی ہو گی۔
درحقیقت ’ایک دوجے کے لیے‘ بالا چندر کی 1978میں آئی تیلگو زبان کی فلم ’مارو چرترا‘ کا ری میک تھی، جس میں ہیرو بھی کمل ہاسن تھے۔
اس تیلگو زبان کی فلم نے پورے جنوبی بھارت میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ اس کو دیکھتے ہوئے صرف ایک ہی ہندی زبان کی فلم کی ڈائریکشن دینے والے بالا چندر کو آئیڈیا آیا کہ کیوں نہ اس سپر ہٹ فلم کو بالی وڈ کے لیے دوبارہ بنایا جائے۔
کہانی وہی پیار و محبت کی تھی۔ اوریجنل فلم میں تیلگو اور تامل زبان سمجھنے والے جوڑے کی داستان تھی، جسے جب بالا چندر نے بالی وڈ کے لیے دوبارہ لکھا تو یہاں ہیرو کمل ہاسن کو تامل جبکہ ہیروئن کو نارتھ انڈین دکھایا گیا، جو ایک دوسرے کی زبان نہ سمجھتے ہوئے بھی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو طبقاتی جنگ اور زبان کا فرق راہ کی دیوار بن جاتا ہے۔
پروڈکشن اسسٹنٹ آندھی طوفان کی طرح قریبی ہوٹل گیا، جہاں سے اس نے بمبئی کے لیے ٹرنک کال نغمہ نگار آنند بخشی کو ملائی، جنہوں نے ’ایک دوجے کے لیے‘ کے نغمے لکھے تھے جبکہ موسیقی کی ذمے داری لکشمی کانت پیار ے لال کے کندھوں پر تھی۔
لکشمی پیارے نے ابتدا میں صاف کہہ دیا تھا کہ وہ کمل ہاسن کے لیے ایس پی بالا سبرامنیم کی آواز استعمال نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھلا ’مدراسی کیا جانیں ہندی دھنوں کو۔‘
اس مرحلے پر بالا چندر اڑ گئے۔ انہوں نے موسیقار جوڑی کو کہا کہ ایس پی بالا سبرامنیم جنوبی بھارت کے کشور کمار ہیں اور کمل ہاسن پر استعمال ہو گی تو صرف ان کی ہی آواز۔
بادل نخواستہ لکشمی کانت پیارے لال نے ریکارڈنگ شروع کی لیکن بہت جلد انہیں اس بات کا احساس ہو گیا کہ ایس پی بالا سبرامنیم کے بارے میں ان کے خیالات غلط تھے کیونکہ ایس پی بالا نے موسیقار جوڑی کی ہر دھن کے ساتھ بھرپور انصاف کیا۔
پروڈکشن اسسٹنٹ کو بتایا گیا کہ آنندبخشی تو بمبئی میں ہیں ہی نہیں بلکہ حیدر آباد میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
پھر وہاں کا نمبر لیا گیا اور آنند بخشی سے رابطہ ہوا تو ان کو حکم دیا گیا کہ فوری طور پر گوا تشریف لے آئیں، بالا چندر یاد کر رہے ہیں۔
آنند بخشی نے حیدرآباد سے گوا کی پرواز پکڑی اور چند گھنٹوں بعد وہ بالا چندر کے مقابل بیٹھے تھے۔
بالا چندر نے اسسٹنٹ کو اشارہ کیا کہ وہ گانا لایا جائے، جس کی عکس بندی کی جا رہی تھی۔ ہدایت کار نے اب اس کی ایک لائن پڑھنا شروع کی:
’ملتے رہے یہاں ہم، یہ ہے یہاں لکھا، اس لکھاوٹ کی زیر و زبر کو سلام۔‘
چند لمحے کی خاموشی کے بعد بالا چندر نے سوالیہ انداز میں دریافت کیا، ’بخشی صاحب یہ ’زیر و زبر‘ کیا ہوتا ہے؟‘
راول پنڈی میں پیدا ہونے والے آنند بخشی اردو زبان سے بخوبی واقف تھے اور کئی نامی گرامی اردو شعرا کرام کے ساتھ سنگت لگاتے رہتے تھے۔
وہ سمجھ گئے کہ صرف ’زیر و زبر‘ لکھنے کی وجہ سے بالا چندر شش و پنج کا شکار ہو گئے ہیں۔ جبھی معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ انتہائی سادہ انداز میں سمجھاتے ہوئے بولے، ’بالا جی، یہ ’زیر او زبر‘ دراصل لفظ کے اوپر اور نیچے لگتے ہیں تو وہ مکمل روپ دھارتے ہیں اور جیسا کہ آپ کے فلم کا ٹائٹل ہے ’ایک دوجے کے لیے۔‘ یعنی ہیرو اور ہیروئن ایک دوسرے کے ساتھ ہی مکمل ہیں تو اسی کو ذہن میں رکھ کر میں نے یہاں یہ لفظ استعمال کیے ہیں۔‘
ہدایت کار بالا چندر کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑی۔ یہی الفاظ تھے جنہوں نے انہیں ایسا الجھایا تھا کہ انہوں نے گیت کی عکس بندی روک دی تھی مگر نغمہ نگار آنند بخشی نے کمال مہارت سے ان کی اس الجھن کی سلجھن کرائی۔ بالا چندر نے اب پھر اسسٹنٹ کو بلا کر گیت کی عکس بندی مکمل کرنے کا حکم دیا۔
’ایک دوجے کے لیے‘ جب پانچ جون، 1981 کو سنیما گھروں میں سجی تو اس میوزیکل رومنٹک فلم نے کمائی کے سبھی ریکارڈز کو توڑ ڈالا۔
فلم کا ہر گیت پذیرائی کی سند حاصل کر گیا۔ فلم کی کامیابی کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ ’کرانتی‘ اور ’لو سٹوری‘ کے بعد یہ تیسری بڑی فلم تھی، جس نے باکس آفس پر کھڑکی توڑ کاروبار کر کے خود کو بلاک بلاسٹر فلموں میں شمار کرایا۔
اگلے سال جب فلم فیئر ایوارڈز کا میلہ سجا تو ’ایک دوجے کے لیے‘ نے سب سے زیادہ 13 شعبوں میں نامزدگی حاصل کیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان میں سے بہترین ایڈیٹنگ کے علاوہ بہترین نغمے ’تیرے میرے بیچ میں‘ پر آنند بخشی کو ایوارڈ ملا جبکہ بہترین سکرین پلے پر کے بالا چندر ایوارڈ لے اڑے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس گیت ’سولہ برس کی بالی عمر‘ پر بالا چندر اٹکے تھے اس کے لیے بھی آنند بخشی کی نامزدگی ہوئی۔
اس حقیقت سے انکار نہیں فلم کے بیشتر گانوں میں آنند بخشی نے بہترین صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ خاص طور پر وہ گیت جس میں متعدد فلموں کے ناموں کو یکجا کر کے خوبصورت جگت بندی کی گئی تھی۔
اسی فلم پر ایس پی بالا سبرامنیم کو بھارت کا قومی ایوارڈ بھی ملا، جنہوں نے لتا منگیشکر کے ساتھ فلم کے کئی گیتوں میں ڈوب کر نغمہ سرائی کی تھی۔
یہ کہا جائے تو غلط بھی نہ ہوگا کہ کمل ہاسن، رتی اگنی ہوتری اور ایس پی بالا سبرامنیم کا ’ایک دوجے کے لیے‘ کے بعد سے جنوبی بھارت سے ممبئی میں تیار ہونے والی فلموں کا نیا سفر شروع ہوا، جس میں کامیابی ہی کامیابی نے ان کے قدم چومے لیکن حیران کن طور پر ’زیر و زبر‘ جیسی باریکیوں پر نگاہ رکھنے والے کے بالا چندر نے بعد میں دو اور ہندی زبان کی فلمیں بنائیں لیکن وہ ’ایک دوجے کے لیے‘ کے مقام کو چھو ہی نہ پائیں۔
جبھی دل برداشتہ ہو کر انہوں نے تمام تر توجہ جنوبی بھارت کی فلموں پر مرکوز کر دی۔