ہدایت کار ببر سبھاش نے جب سمیتا پاٹیل کے پیر میں پلاسٹر دیکھا تو اُنہیں لگا کہ یہ اُن کی فلم ’قسم پیدا کرنے والے کی‘ کی ریلیز پر بڑا سا پلاسٹر لگ چکا ہے کیونکہ فلم کی تمام تر عکس بندی ہوچکی تھی اور اب بس صرف کلائمکس باقی تھا، جس میں سمیتا کا ہونا بہت ضروری تھا۔
تاہم ببر کو ایسا محسوس ہوا کہ جس فلم کو وہ جلد از جلد بنا کر سنیما گھروں میں نمائش کے لیے سجانے والے ہیں، وہ اُن کا ادھورا خواب ہی بن کر رہ جائے گی۔
ببر سبھاش المعروف بی سبھاش وہی ہدایت کار ہیں جنہوں نے متھن چکرورتی کی صلاحیتوں سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھایا۔
متھن 1976 میں پہلی ہی بنگالی زبان کی فلم ’میری گایا‘ میں بہترین اداکاری دکھا کر بھارت کا قومی ایوارڈ حاصل کر گئے تھے لیکن اُن کی بدقسمتی تو اسی کے بعد شروع ہوئی۔
چھوٹی موٹی فلموں میں آنے کے بعد نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ ایوارڈ بیچ کر دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کی جدوجہد میں تھے۔
ایسے میں ایک فلم کے سیٹ پر اُن کی ملاقات بی سبھاش سے ہوئی، جنہوں نے متھن سے وعدہ کیا کہ وہ ایک روز ایسی فلم ضرور تخلیق کریں گے، جو اُن کی تقدیر بدل کر رکھ دے گی۔
اور ایسا ہوا 1982 میں جب متھن ’ڈسکو ڈانسر‘ کے روپ میں پیش ہوئے تو فلم نے کھڑکی توڑ کاروبار کیا۔
ان پر فلمائے موسیقار بپی لہری کے سبھی گانے شہرت اور مقبولیت کی سرحدوں کو پار کرگئے۔
ایسے میں فلمی جرائد نے ان کو بھارتی فلموں کا نیا ’ڈسکو ڈانسر‘ قرار دیا، جن کے نام پر فلمیں فروخت ہونے لگیں۔
بی سبھاش نے ’ڈسکو ڈانسر‘ کے بعد متھن کو لے کر 1984 میں ’قسم پیدا کرنے والے کی‘ بنانا شروع کی تو اس میں ماضی کے برعکس بڑی سٹار کاسٹ رکھی۔
متھن کے علاوہ سمیتا پاٹیل، سلمیٰ آغا اور امریش پوری نمایاں ستارے تھے۔ فلم میں متھن دہرے کردار میں تھے، جس میں ایک کردار فلم کے آغاز میں ہی ختم ہوجاتا ہے۔
سمیتا پہلے حصے میں ہیروئن اور بعد میں ان کی ماں کا کردار ادا کررہی تھیں۔
بی سبھاش نے فلم کا کلائمکس خاصا طویل رکھا تھا، جس کے لیے مرکزی ستاروں نے تاریخیں وقف کردی تھیں لیکن یہ خبر اُن پر بجلی بن کر گری کہ عکس بندی سے چند دن پہلے سمیتا کی ٹانگ میں فریکچر ایسا آیا کہ پلاسٹر چڑھانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔
بی سبھاش انتہائی مایوسی کے عالم میں سمیتا کی عیادت کرنے گئے تھے، جن کا پلاسٹر دیکھ کر جیسے اُن کا دل اور زیادہ بیٹھ گیا۔
اِدھر سمیتا بھی جانتی تھیں کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں کیونکہ کلائمکس میں اُن کی موجودگی ہی فلم کی کہانی کا خاصہ تھی، اُنہیں نکال کر عکس بندی ممکن نہیں ہوسکتی تھی۔
تاہم اس کے باوجود انہوں نے دریافت کیا کہ اگر شوٹنگ منسوخ ہوتی ہے تو کتنا نقصان ہوگا؟
بی سبھاش نے درد بھرے لہجے میں کہا کہ ’پھر ان اداکاروں کی عکس بندی کی تاریخیں اگلے چھ ماہ بعد ہی ملیں گی۔‘ یعنی انہوں نے دبے لفظوں میں بتا دیا کہ فلم چھ سے آٹھ ماہ کے لیے لٹک جائے گی۔
سمیتا نے کچھ سوچا اور پھر پرامید لہجے میں گویا ہوئیں ’گھبرائیں مت۔ آپ نے جوشیڈول رکھا ہے، وہی رہے گا، میں پہنچ جاؤں گی۔‘
بی سبھاش کو لگا کہ وہ جیسے اُن سے مذاق کر رہی ہوں کیونکہ پلاسٹر کو دیکھ کر لگ نہیں رہا تھا کہ جو وہ کہہ رہی ہیں، وہ ممکن بھی ہو پائے گا کہ نہیں۔
بہرحال عکس بندی کی تاریخ آئی تو بی سبھاش بے چینی سے ان کا انتظار کر رہے تھے اور جب وہ سیٹ پر پہنچیں تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کی ٹانگ پر پلاسٹر نہیں تھا۔
پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ انہوں نے کلائمکس کے لیے اپنا پلاسٹر کٹوا دیا۔ مناظر کی عکس بندی کے بعد بی سبھاش نے اظہار تشکر بھرے لہجے میں سمیتا کو مخاطب کر کے کہا کہ ’میرے نقصان کا سن کر آپ نے اپنا پلاسٹر کاٹ کر عکس بندی میں حصہ لیا، آپ کا یہ احسان میں کیسے ادا کروں گا؟‘
اس پر وہ مسکرائیں اور بولیں کہ ’ایک طریقہ ہے آپ کے پاس۔‘ بی سبھاش کو لگا کہ وہ اب اپنا معاوضہ بڑھانے کا مطالبہ کریں گی۔
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد سمیتا نے بولنا شروع کیا کہ انہیں سبھی ہدایت کار، سنجیدہ، المیہ اور دکھوں سے بھرے کرداروں میں پیش کررہے ہیں اور ان کرداروں سے وہ تنگ آچکی ہیں، اگر بی سبھاش کچھ کرسکتے ہیں تو جب بھی اگلی فلم بنائیں تو اُن کے لیے کمرشل فلموں میں گلیمر سے بھرپور کوئی کردارضرور رکھیں۔
بی سبھاش کو یہ فرمائش تو بہت آسان لگی، جبھی انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اُن کی اس خواہش کو ضرور پورا کریں گے۔
کم و بیش تین سال بعد ایک بار پھر بی سبھاش نے متھن کو لے کر ’ڈانس ڈانس‘ بنانے کا آغاز کیا تو اُنہیں سمیتا کی یاد ستائی۔
اسی لیے انہوں نے اس فلم میں سمیتا کو متھن کی بہن کے کردار کے لیے منتخب کرلیا لیکن بڑی حیران کن بات یہ ہے کہ بی سبھاش، فلم کی عکس بندی کے دوران ان سے کیا ہوا وعدہ بھول ہی چکے تھے۔
گلیمرس کردار کے نام پر سمیتا پاٹیل کو صرف دو گیتوں میں پیش کرنے کے بعد انہوں نے اپنی دانست میں سمجھ لیا کہ بھڑکیلے اور ویسٹرن لباس پہنا کر، چہرے پرلالی سرخی لگا کر اور ہاتھوں میں مائیک تھما کر دو گانے عکس بند کرانے کے بعد انہوں نے اپنا فرض پورا کردیا۔
دیکھا جائے تو ڈانس ڈانس میں سمیتا نے وہی سب کیا جو اِس سے پہلے وہ بیشتر فلموں میں کرتی آرہی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بی سبھاش نے ان سے زیادہ توجہ صرف اور صرف ہیروئن منداکنی پر مرکوز رکھی، جنہیں ہر اینگل سے گلیمر سے بھرپور انداز میں پیش کیا گیا اور ایسی ہی آرزو سمیتا کی تھی، جسے یکسر فراموش کردیا گیا۔
یہاں تک کہ کلائمکس سے آدھا گھنٹے پہلے انہیں موت کی نیند بھی سلا دیا گیا۔ وہ نوٹ تو سب کر رہی تھیں لیکن پیشہ ورانہ اخلاقی اقدار کے باعث خاموش رہیں۔
بدقسمتی سے فلم کی نمائش سے پانچ ماہ پہلے 13 دسمبر، 1986 کو وہ چل بسیں۔
انھیں اس بات کا ملال تھا کہ بی سبھاش نے، جن کی فلم کو نقصان سے بچانے کے لیے انہوں نے اپنا پلاسٹر کٹوادیا تھا، صرف اپنے فائدے اور کمرشل اہمیت کو سمجھتے ہوئے ان کو گلیمرس کردار کے نام پر دو گانوں پر ہی ٹرخا دیا۔
یہ اس جانب بھی اشارہ تھا کہ فلمی دنیا انتہائی بے وفا ہے، جہاں ہر کسی کو صرف اور صرف اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے، کسی کے جذبات اور احساسات بے معنی ہوتے ہیں۔