یہ پاکستان بننے سے پہلے کا واقعہ ہے جب مسلمان متحدہ ہندوستان میں اقلیت میں تھے۔ مسلم لیگ نے 1927 میں کلکتہ میں ہونے والے اجلاس میں قرارداد پیش کی کہ مسلمان بچیوں کو جبراً تبدیلی مذہب پر مجبور کیا جاتا ہے۔
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ 18سال سے کم عمر کی کوئی لڑکی اپنا مذہب تبدیل نہیں کرسکتی۔ اس وقت بھی یہ مسئلہ تھا کہ بعض علاقوں میں جہاں مسلمان کمزور حالت میں تھے وہاں کم عمر مسلمان لڑکیوں کو شادی کے ذریعے تبدیلی مذہب پر مجبور کر دیا جاتا تھا۔
پاکستان بننے کے بعد مسلمان اکثریت میں ہیں۔ ہندو، سکھ اور عیسائی اقلیت بن چکے ہیں، جو مطالبہ 1927 میں مسلمان کر رہے تھے، وہی مطالبہ آج غیر مسلم کر رہے ہیں۔
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہیں جہاں اقلیتوں کو مذہبی آزادیاں حاصل نہیں ہیں۔ امریکہ ہر سال اس حوالے سے ایک رپورٹ جاری کرتا ہے۔ اس کی گذشتہ سال کی رپورٹ میں پاکستان کو ان نو ممالک میں شامل کیا گیا ہے جہاں مذہبی آزادیوں کے حوالے سے خدشات ظاہر کیے گئے ہیں۔
پاکستان میں اقلیتوں کا موقف ہے کہ اقلیتی برادری کے بچوں اور بالخصوص بچیوں کو شادیوں کے ذریعے جبری مسلمان بنایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے تحقیق کرنے والے ایک ادارے سینٹر فار سوشل جسٹس کے اعداد و شمار کے مطابق 2013 سے 2020 تک ایسے 162 کیسز سامنے آئے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ یعنی 51.85 فیصد کا تعلق پنجاب سے اور 43.83 فیصد کا تعلق سندھ سے، 1.23 فیصد کا تعلق وفاق جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے ایک ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔ بہاولپور پہلے، لاہور دوسرے، کراچی تیسرے، فیصل آباد چوتھے، حیدر آباد پانچویں، تھرپارکر چھٹے، گھوٹکی ساتویں، قصور آٹھویں، بدین نویں، عمر کوٹ دسویں اور سیالکوٹ 11ویں نمبر پر ہے۔
اقلیتوں میں جس مذہب کی سب سے زیادہ لڑکیاں اور خواتین اسلام قبول کر رہی ہیں ان میں ہندو ازم 53.3 فیصد کے ساتھ پہلے، مسیحی 44.44 فیصد کے ساتھ دوسرے، سکھ 0.62 کے ساتھ تیسرے اور کیلاشی 0.62 کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔
اگر ہم اس ڈیٹا کو عمروں کے تناسب سے دیکھیں تو اسلام قبول کرنے والوں میں 46.30 فیصد کی عمریں 18 سال سے کم ہیں۔ 16.67 کی 18 سال سے زیادہ ہیں اور 37.04 فیصد کی عمریں ظاہر نہیں کی گئیں۔ اسی طرح اگر ہم گذشتہ سات سالوں میں دیکھیں کہ کس سال یہ واقعات زیادہ رونما ہوئے تو ان میں 2019 میں سب سے زیادہ یعنی 49 کیس رپورٹ ہوئے جبکہ سب سے کم کیس2013 میں صرف تین رپورٹ ہوئے۔ اسی طرح آبادی میں تناسب کو اگر دیکھا جائے تو ہندو لڑکیاں مسیحی لڑکیوں کے مقابلے پر دس فیصد زیادہ اسلام قبول کر رہی ہیں۔
امریکہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی جانب سے پاکستان پر مسلسل دباؤ ہے کہ وہ اقلیتوں کی جبری تبدیلی مذہب کو روکنے کے خلاف قانون سازی کرے۔
وزیراعظم کی ہدایت پر پارلیمنٹ کی ایک مشترکہ کمیٹی بنی، جس نے ایک بل تیار کرکے وزارتِ انسانی حقوق کو بھیجا جس میں تجویز کیا گیا کہ تبدیلی مذہب کی عمر کی حد 18 سال سے زیادہ ہونی چاہیے اور اس سے پہلے کوئی شخص اپنا مذہب تبدیل نہیں کرسکتا۔ 18 سال سے زیادہ عمر والا جو فرد اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہے وہ متعلقہ ایڈیشنل سیشن جج کے پاس جا کر درخواست دے جو سات دن کے اندر متعلقہ فرد کا انٹرویو کرے اور جج اس بات کو یقینی بنائے کہ تبدیلی مذہب کسی دباؤ یا غلط بیانی کی بنیاد پر نہیں ہو رہی۔
اس کے بعد ایڈیشنل سیشن جج متعلقہ فرد کو کسی مذہبی سکالر سے روشناس کروائے گا اور درخواست گزار کو 90 دن کا وقت دے گا، جس میں اسے تبدیلی مذہب کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا جائے گا۔ اگر انٹرویو کے دوران یہ ثابت ہوگیا کہ متعلقہ فرد کو تبدیلی مذہب کے لیے کسی جبر کا سامنا ہے تو جبر کرنے والے کو پانچ سے دس سال سزا ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس مجوزہ قانون پر وزارت مذہبی امور نے اعتراضات اٹھائے اور اس کا جائزہ لینے کے لیے کہ یہ خلافِ شریعت ہے یا نہیں اسے اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیج دیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بل کو خلاف شریعت قرار دیتے ہوئے واپس وزارت قانون کو بھجوا دیا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں اور اس حوالے سے بعض لابیاں ملک کو بدنام کر رہی ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ایسے بہت سے افراد، جن میں لڑکیاں بھی شامل ہیں، انہیں بلا کر انٹرویو کیے جس میں بالکل مختلف حقائق سامنے آئے ہیں۔ جن لڑکیوں نے اسلام قبول کیا انہوں نے کہا کہ ان پر کوئی جبر نہیں تھا بلکہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔ ہندو کمیونٹی کی لڑکیوں اور لڑکوں نے کہا کہ ہمیں اس دور میں بھی صبح ناشتے میں گائے کا پیشاب پینے پر مجبور کیا جاتا ہے جبکہ ہم چائے پینا چاہتے ہیں۔ اسی طرح ہندو لڑکوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیویاں سجی سنوری ہوں نہ کہ انہوں نے اپنے جسم پر گائے کا گوبر مل رکھا ہو۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ اسلام قبول کرنے کو عمر کی حد سے مشروط کرنا بھی قطعی غیر اسلامی عمل ہے۔ اس حوالے سے اسلام میں کوئی قید نہیں ہے، اس لیے مجوزہ قانون غیر شرعی ہے۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور پاکستان ہندو کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر رامیش کمار وانکوانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’جیسے پاکستان بننے سے پہلے مسلمانوں کے مطالبے پر 1937 کا مسلم پرسنل لا آیا تھا، اسی طرح یہ بھی اقلیتوں کا پرسنل لا ہے جس پر وزارتِ مذہبی امور یا اسلامی نظریاتی کونسل کا اعتراض غیر آئینی اور اقلیتوں کو آئین میں دی گئی آزادیوں سے متصادم ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وزیراعظم کی ہدایت پر 21 رکنی جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی جس میں وفاقی وزیر مذہبی امور سمیت سینیٹ اور قومی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو نمائندگی دی گئی۔ جب کمیٹی نے یہ بل پاس کر دیا اور اسے قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے بھیجنے کا وقت آیا تو وزارت مذہبی امور فعال ہوگئی اور اس بل کو خلاف شریعت قرار دے کر اس میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر 18 سال کی عمر سے پہلے شناختی کارڈ نہیں بن سکتا، بینک اکاؤنٹ نہیں کھل سکتا اور ووٹ نہیں ڈالا جا سکتا تو تبدیلی مذہب جیسا بڑا فیصلہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘
انسانی حقوق کی معروف کارکن طاہرہ عبداللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’عموماً دیکھا گیا ہے کہ جمہوری حکومتیں جس میں فوجی آمر بھی شامل ہیں، جب انہیں کسی چیز کے پیچھے چھپنا ہوتا ہے تو وہ اسلامی نظریاتی کونسل کا ہی سہارا لیتی ہیں حالانکہ یہ بل پارلیمان کی صوبدید ہے نہ کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی، یہ غلط رجحان ہے۔ اس بل پر پارلیمان اور میڈیا کے اندر بحث مباحثہ ہونا چاہیے تاکہ اس پر اتفاق رائے پیدا ہوسکے۔‘
ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ مولانا یٰسین ظفر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اسلام میں کوئی جبر نہیں ہے۔ جو لوگ مرضی سے اسلام قبول کرنا چاہیں انہیں اس کی اجازت ہونی چاہیے لیکن یہ مجوزہ قانون اس حق پر قدغن لگا دیتا ہے، اس لیے یہ غیر اسلامی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’تاریخ میں تبدیلی مذہب کے حوالے سے اگر کسی نے جبر کیا تو سقوطِ اندلس کے موقعے پر عیسائیوں نے کیا اور جن لوگوں نے اسلام چھوڑ کر مسیحیت قبول نہیں کی ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ اسلام میں اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ فتح مکہ کے موقع پر بھی نبی کریم نے کسی کو یہ نہیں کہا کہ تم سب اسلام قبول کرلو بلکہ غیر مسلم وہاں آزادی کے ساتھ رہتے رہے۔ حجۃ الوداع کے موقعے پر جب مکہ کو حرم قرار دے دیا گیا تو غیر مسلوں کو کہا گیا کہ اب یہاں صرف مسلمان رہ سکتے ہیں، تم ہجرت کر جاؤ اس وقت بھی یہ نہیں کہا گیا کہ تم مسلمان بن جاؤ۔‘
قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ مساوی سلوک کا مسئلہ سامنے آ گیا تھا۔ اگرچہ قائداعظم نے اپنی 11 اگست کی تقریر میں واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ عقیدہ آپ کا ذاتی مسئلہ ہے، جس کا ریاست کے امور کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں۔ ریاست کے نزدیک سب برابر کے شہری ہیں۔
مگر پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل نے جب استعفیٰ دیا تو اس کی بےشمار وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہندوؤں بالخصوص شیڈول کاسٹ کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا تھا۔
انہوں نے اپنے استعفے میں لکھا کہ ’مغربی پنجاب میں تقریباً ایک لاکھ شیڈول کاسٹ ہندو رہ گئے تھے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ان میں سے بڑی تعداد مذہب بدل کر مسلمان ہو گئی ہے۔ پاکستان میں ہندؤں کی حالت زار کی اس جامع تصویر کشی کے بعد یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ پاکستان کے ہندو تمام تر عزائم اور مقاصد کے اعتبار سے اپنے ہی گھروں میں بے ریاست ٹھہرا دیے گئے ہیں۔ بہت غور و غوض اور لمبی جدوجہد کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستان ہندوؤں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے اور ان کا مستقبل تبدیلی مذہب یا دیوالیہ پن کے گہرے سایوں سے زیادہ تاریک ہے۔