اسلام آباد ہائی کورٹ نے منگل کو سندھ کے علاقے گھوٹکی سے مبینہ طور پر اغوا اور جبری مذہب تبدیل کرائی جانے والی دو ہندو بہنوں کے کیس کی مزید تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔
پانچ ارکان پر مشتمل کمیشن میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری اور عالم دین مفتی تقی عثمانی بھی شامل ہیں۔
کورٹ نے تحریری حکم نامے میں کہا کہ وفاقی اور سندھ حکومتیں کمیشن کے ساتھ مکمل تعاون کریں اور لڑکیوں کی عمر کے تعین کے لئے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا بورڈ میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے سینئر ڈاکٹروں کو شامل کیا جائے اور بورڈ لڑکیوں کا نفسیاتی لحاظ سے بھی جائزہ لے گا۔
آج سماعت کے دوران ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا: یہ بہت بڑا اور اہم مسئلہ ہے، عدالت جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کرے گی۔
ابتدائی میڈیکل رپورٹ
دونوں ہندو لڑکیوں کے زبردستی مذہب تبدیلی کے کیس میں عمر کی حد جانچنے کے لیے پمز کی رپورٹ نے آسیہ عرف روینہ اور نادیہ عرف رینا کو بالغ قرار دے دیا ہے۔
ریڈیالوجی ڈپارٹمنٹ کی ڈاکٹر ثانیہ ساول کے مطابق ہڈیوں کے ٹیسٹ سے عمر کا تعین کیا جاتا ہے اور ہڈیوں کے ایکسرے کے مطابق آسیہ کی عمر19 سال جبکہ نادیہ کی عمر18 سال ہے۔
طبی رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ عمر کے مزید تعین کے لیے ڈینٹل اور کلینیکل چیک اپ کروایا جائے۔
ہڈیوں کے ایکسرے سے عمر کا تعین کیسے ہوتا ہے؟
ہولی فیملی ہسپتال کی ڈاکٹر ماریہ عنایت نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عمر کے تعین کے لیے ہاتھ کا ایکسرے لیا جاتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائی طور پرعمر کتنی ہے۔
یہ پہلا طریقہ ہوتا ہے اس کے علاوہ جسم کا معائنہ بھی کیا جاتا ہے اور حتمی رپورٹ تشکیل دینے سے پہلے دانتوں کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے کہ یہ کتنے پرانے ہیں۔ سارے عوامل کے نتائج کو سامنے رکھ کر حتمی رپورٹ تشکیل دی جاتی ہے۔
ڈاکٹر ماریہ نے کہا ’عمومی طور پرابتدائی رپورٹ درست عمر کا تعین کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوتی ہے‘۔
مذہب کی تبدیلی کا کیا طریقہ کار ہے؟
رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ 18 سال سے کم عمر لڑکی کی نہ شادی ہونی چاہیے اور نہ مذہب تبدیلی کی اجازت ہونی چاہیے۔
انھوں نے کہا دنیا میں بہت سے ملکوں میں مذہب تبدیل ہوتے ہیں لیکن اُس پر سوال کھڑے نہیں ہوتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی تجویز تھی کہ مذہب تبدیلی کے لیے مجسٹریٹ کی موجودگی میں بیان لیا جائے اور تین ماہ گزارنے کے بعد دوبارہ بیان لیا جائے، جیسا بھارت، ملائشیا اورانڈونیشیا میں ہوتا ہے۔
دونوں لڑکیوں کے وکیل عمیر بلوچ نے کہا کہ ابتدائی میڈیکل رپورٹ نے عمر کا تعین کر دیا ہے۔’ جب بچیاں بالغ ہیں تو وہ اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔ اُن کومذہب تبدیل کرنے سے نہیں روکا جاسکتا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں لڑکیوں کو کسی بھی کمیشن کے سامنے پیش کرنے سے پہلے نفسیاتی ٹیسٹ کیا جائے تاکہ وہ کسی دباؤ کا شکار نہ ہوں۔
سینیٹر کرشنا کماری نے بچیوں کی عمر کے تعین کے لیے پمز کی میڈیکل رپورٹ ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے باضابطہ میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے اور ’ہمیں بھی اعتماد میں لیا جائے‘۔
متاثرہ لڑکیوں کے والدین نے میڈیا سے بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ’جو پوچھنا ہے وکیل سے پوچھیں‘۔
دونوں لڑکیاں عدالتی حکم کے تحت ضلعی انتظامیہ کی نگرانی میں بینظیر کرائسز سینٹر میں موجود ہیں۔ کیس کی آئندہ سماعت 11 اپریل کو ہو گی۔