پاکستان میں پولیس نے ایک کم عمر مسیحی لڑکی کو بازیاب کرا لیا ہے جنہیں مبینہ طور پر جبراً اسلام قبول کرنے اور ایک 44 سالہ مسلمان شخص سے شادی کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
لڑکی کے اہل خانہ نے منگل کو برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو ان کی بازیابی کی تصدیق کی۔ اس واقعے نے ملک بھر میں احتجاج اور سوشل میڈیا پرغم و غصے کو جنم دیا تھا۔
کراچی کی ایک عدالت نے مسیحی اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے کارروائی کرنے کی اپیلوں کے بعد تین ہفتوں سے لاپتہ ہونے والی 13 سالہ لڑکی کو بازیاب کرانے اور ان سے مبینہ طور پر جبری شادی کرنے والے مذکورہ شخص کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔
لڑکی کے والدین کے وکیل اور سماجی کارکن جبران ناصر نے بتایا کہ پولیس بچی کو کراچی میں خواتین کی ایک پناہ گاہ میں لے گئی جہاں وہ جمعرات کو عدالتی سماعت تک قیام کریں گی۔
مذکورہ شخص جو اس خاندان کے پڑوس میں رہتا تھا، کو آج (بدھ کو) عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
جبران ناصر نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ بچی کا سکول اور سرکاری ریکارڈ ان کی عمر ثابت کرنے کے لیے اہم ثبوت ثابت ہوں گے اور ’عدالت میں یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ نابالغ تھیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سندھ ہائی کورٹ نے ابتدائی طور پر اس لڑکی کے بیانات تسلیم کر لیے تھے جن میں ان کا کہنا تھا کہ وہ 18 سال کی ہیں اور انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی رضا مندی سے شادی کی تھی۔
اس کے بعد مسیحی گروپس اور انسانی حقوق کی مہم چلانے والوں نے کراچی میں احتجاج شروع کردیا تھا۔
کراچی کے ’ہولی ٹرینیٹی کیتھیڈرل‘ میں 13 اکتوبر سے اپنے خاندان کے ہمراہ پناہ لینے والی بچی کی والدہ ریٹا راجہ نے کہا: ’میرے شوہر پولیس کے پاس گئے اور بچی کی گمشدگی کی اطلاع دی۔۔۔ لیکن انہوں نے کچھ نہیں کیا۔‘
ریٹا نے مزید کہا: ’دو روز بعد پولیس نے میرے شوہر کے ہاتھ میں شادی کا سرٹیفکیٹ تھماتے ہوئے بتایا کہ اس کی شادی ہوگئی ہے۔‘
گذشتہ ہفتے ریٹا کی روتے ہوئے ایک ویڈیو، جس میں وہ اپنی بیٹی کی بازیابی کے لیے التجا کررہی تھیں، سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔
مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ مسلم اکثریتی پاکستان میں اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں اور خواتین کی جبری تبدیلی مذہب اور شادیاں سنگین مسٔلہ بنتا جا رہا ہے جس میں غریب خاندانوں اور نچلی ذات کے افراد کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
گذشتہ سال دو ہندو بہنوں کے مبینہ اغوا اور زبردستی تبدیلی مذہب کی وجہ سے پاکستان میں اقلیتوں کی صورت حال کے حوالے سے خبریں میڈیا کی سرخیوں میں اجاگر ہوئی تھی۔
غیر سرکاری تنظیم ’گرلز ناٹ برائڈز‘ کے مطابق پاکستان میں 21 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال سے پہلے کر دی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسف کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان لڑکیوں کی کم عمری میں شادیوں کے حوالے سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے جہاں 20 لاکھ لڑکیوں کو کم عمری میں ہی بیاہ دیا جاتا ہے۔