تباہ کن موسمیاتی تبدیلیوں میں زیادہ تر کردار ترقی یافتہ ممالک کا ہے۔ اب اس کے تدارک کے لیے اخراجات برداشت کرنا بھی انہی کی ذمہ داری بنتی ہے۔
صدیوں سے انسانوں کی زمین سے لاپروائی کے بعد اب باقاعدہ طور پر خبردار کیا جا رہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ’انساںوں کے لیے خطرناک ترین حد تک‘ پہنچ چکی ہے۔
اپنے ماضی اور موسم کے غلط استعمال سے فائدہ اٹھانے کی وجہ سے اب موسمیاتی تباہی کا بوجھ بھی مالدار قوموں پر پڑنا چاہیے جنہوں نے صدیوں تک بغیر کسی موسم کا استحصال کیا۔
ہر گزرتے برس کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے دنیا قدرتی آفات میں ایک قدم گہرا دھنستی جاتی ہے۔
موجودہ سال جنوبی کیلی فورنیا، یونان، ترکی اور یروشلم کے جنگلات تباہ کن آگ کی لپیٹ میں آئے۔
امریکہ کے کئی حصے سمندری طوفان ’ایڈا‘ کی زد میں آئے اور سائنس دانوں نے لندن کے کچھ حصوں کے بارے میں پیشگی آگاہ کر دیا کہ وہ خطرناک حد تک مسلسل طوفانوں کا سامنا کریں گے۔
مختصر وقت کے لیے پڑنے والی سردی کی انتہائی شدید لہر نے امریکی ریاست ٹیکسس میں بجلی اور اس کا نظام تباہ کر کے تقریباً 200 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔
موسمیاتی تبدیلی حقیقت ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ریاستی اراکین پارلیمان اس کے اثرات سے بھاگنے کی کتنی کوششیں کرتے ہیں۔
ماہر سائنس دانوں پر مشتمل موسمیاتی تبدیلی کے بین سرکاری پینل نے گذشتہ ماہ اپنی حتمی رپورٹ میں خبردار کیا کہ روزِ محشر ہمارے سروں پر ہے اگر انسانیت ایک ساتھ مل کر موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اب نہ لڑ سکی تو کبھی نہیں لڑ سکے گی۔ کیونکہ ماضی میں مغربی ممالک نے ماحول کو تباہ کر کے اپنی قوموں کے حالات بہتر کیے، سو اب ترقی پذیر ممالک سے یہ توقع رکھنا کہ وہ زہریلی گیسوں کی کمی کے لیے تعاون کر سکتے ہیں، ایک منافقانہ رویہ ہو گا۔
ماحول دوست اشیا کی لاگت متوسط درجے کے صارف کے لیے بہت زیادہ ہے اس لیے ہم غریب ممالک سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ مہنگے لیکن ماحول دوست انفراسٹرکچر پر منتقل ہو جائیں۔
ذمہ داری مالدار ممالک پر ہے جو صدیوں سے فوسل ایندھن کا استعمال کرتے ہوئے کرۂ ارض پر سرمایہ کاری کرتے رہے اور ترقی کی منازل طے کر گئے۔
1992 کے پہلے بین الاقوامی معاہدہ برائے موسمیات کے ذریعے کم از کم کاغذی کارروائی کی حد تک اتفاق رائے سے طے ہو چکا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج کے مسئلے سے نمٹنے کی ذمہ داریاں اور صلاحیتیں تمام ممالک کی ایک جیسی نہیں۔
موجودہ برس کانفرنس برائے موسمیاتی تبدیلی (COP26) کے صدر الوک شرما نے جب زور دے کر کہا ’مالدار اقوام کو اب ہر حال میں اپنا وعدہ پورا کرنا چاہیے،‘ تو اسی رائے کی گونج سنائی دی۔
خوشحال ممالک نے عہد کیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے لڑنے والے انتہائی غریب ممالک کو سالانہ 100 ارب ڈالر کی امداد دی جائے گی لیکن ابھی تک وہ اس ہدف کی تکمیل سے بہت دور ہیں۔
اگر دیکھا جائے کہ موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ کتنا بڑا ہے اور محض G7 ممالک سالانہ گیس اور آئل پر 100 بلین ڈالر خرچ کر دیتے ہیں، تو یہ رقم بہت معمولی معلوم ہوتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے قسطوں میں کی جانی والی امدادی کوششیں بارور ثابت نہیں ہوں گی۔ موسمیاتی تبدیلی سے پوری طرح نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر دولت کی ازسرنو تقسیم کی ضرورت ہے۔
جب ایمازون کمپنی کے مالک جیف بیزوس جیسے ایک فرد کی دولت ایک پورے ملک کی دولت کی برابری کر سکتی ہو تو موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہو سکتا۔
حالیہ عرصے میں برازیل نے ایمازون کے برساتی جنگل میں آگے لگنے کے موقع پر G7 ممالک کی دو کروڑ ڈالر کی امدادی پیشکش ٹھکرا دی۔ صدر بولسورنو نے اس پر کہا، ’یہ وسائل یورپ میں دوبارہ جنگلات اگانے کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔‘
ان کی بات میں وزن ہے۔ ایک وقت تھا جب یورپ اور جنوبی امریکہ قدرتی جنگلات سے گھرے ہوئے تھے لیکن ایندھن کا بکثرت استعمال کرنے والی سلطنتوں میں سے اکثر نے انہیں بےدریغانہ کاٹ ڈالا۔
اس وقت دنیا میں نویں نمبر پر موجود برازیل بہت تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور اقتصادی طور پر مضبوط ملک بننے کی کوششیں کر رہا ہے۔
اقتصادی اعتبار سے برے حالات میں خوشحال ہونے کے لیے برازیل نے ایسی پالیسیاں اختیار کی ہیں جن سے ان کے پاس موجود ’واحد برساتی جنگل‘ ایمازون تباہ ہو رہا ہے۔
ہمیں ایسے اقدامات کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے لیکن اس کے بجائے جنگلات کاٹنے کے لیے زیادہ تر سرمایہ امریکی کمپنیاں فراہم کرتی ہیں اور ان میں وہ کمپنیاں بھی شامل ہیں جو سینیٹ میں رپبلکن پارٹی کے سربراہ مچ میکونل اور ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہموں کی مالی معاونین تھیں۔
کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت امریکہ سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائڈ خارج کرتے ہوئے 1751 سے لے کر اب تک اس کے کل اخراج میں ایک چوتھائی کا ذمہ دار ہے۔
جب امریکہ سے سب صحارا افریقہ کے موجودہ باشندوں کا موازنہ کیا جائے تو کاربن ڈائی آکسائڈ خارج کرنے کے معاملے میں وہ اپنے مدمقابل امریکیوں کی نسبت محض بیسویں حصے (پانچ فیصد) کے ذمہ دار ٹھہرتے ہیں۔
تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کی زیادہ تر معیشت دنیا بھر میں کپاس فروخت کرنے سے مضبوط ہوئی اور 19ویں صدی کے اوائل میں امریکی معیشت کو بیان کرنے کے لیے کہا جاتا تھا ’کپاس بادشاہ ہے۔‘
شجرکاری سے بدنام زمانہ ٹیکسٹائل صنعت پر منتقلی اور دیگر بہت سے معاملات میں کپاس نے ہی امریکی معیشت کو سہارا دیا۔
آج بھی امریکہ کپاس پیدا کرنے والا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ اپنی کپاس کی صنعت کو مسلسل فروغ اور ترقی دینے کے لیے امریکہ نے غلاموں کی ایک بڑی تعداد (فری لیبر) کو ملک بھر میں کپاس چننے کے لیے استعمال کیا۔
کپاس کی پیداوار بہت اہم ماحولیاتی اثرات کی حامل ہے اور بہت کم برسوں تک ایک ہی زمین پر فصل اگائی جا سکتی ہے جس کے بعد وہ ’عملی طور پر بانجھ‘ ہو جاتی ہے اور پھر اس کے لیے نئی زرخیز زمین درکار ہوتی ہے۔
جنگلات والے رقبوں میں بہت آسانی سے زرخیز زمین تلاش کی جا سکتی ہے۔ پورے ملک میں فوری مالی منافع کو دیکھتے ہوئے جنگلی رقبوں کے مالکان درخت کاٹنے میں ذرا سا نہیں ہچکچاتے۔
جنگلات کی اس تیزی سے ہونے والی تباہی کے نتیجے میں 17ویں صدی کے اوائل سے لے کر اب تک امریکہ اپنے 75 فیصد جنگلات سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔
یہ رجحان حالیہ برسوں میں بھی جاری رہا جہاں 2000 اور 2005 کے درمیانی عرصے کے دوران امریکہ میں جنگلات کا کٹاؤ برازیل سے بھی زیادہ ہوا ہے۔
20 ویں صدی کے اوائل میں آزاد ہو کر انسداد غلامی کے سرگرم کارکن بننے والے ایک مزدور غلام جان پارکر نے جنگلات کے کٹاؤ کا یہ مرحلہ بہت دلدوز انداز میں بیان کیا کہ ’پورے کے پورے جنگل جڑوں سمیت باہر نکال لیے جاتے تھے۔‘
طرح طرح کی سبزیوں سے بھرے ہوئے سرسبز و شاداب جنگلات ملکی معیشت کی ترقی کے لیے ایک فصل کپاس سے تبدیل کر دیے گئے۔
تب سے منافع کے لالچ میں ماحول کی تباہی مچائی جاتی رہی۔ امریکہ میں جس تناسب سے آبادی بڑھتی رہی اسی تناسب سے زراعت کے لیے زمین صاف کی جاتی رہی۔
جنگلات کی کٹائی کے ایسے ہی قصے برطانیہ میں بھی پائے جاتے ہیں جہاں دسویں صدی کی مشہور کتاب ’ڈومز ڈے بک‘ کے مطابق ملک 15 فیصد تک جنگلات سے بھرا تھا جو صنعتی انقلاب کے دوران پانچ فیصد کی اپنی کم ترین سطح پر چلا گیا۔
امریکہ، برطانیہ اور دیگر G7 ممالک ایک غیر منصفانہ برتری رکھتے ہیں کہ وہ ڈھیلے ڈھالے انسانی اور ماحولیاتی حقوق کا استحصال کرتے ہوئے خود کو مضبوط اور اقتصادی طور پر خود مختار بنا چکے ہیں۔
اس حقیقت کے باوجود کہ انہوں نے کرۂ ارض کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا سو اب اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنے کے لیے انہیں پہلے کی طرح ماحول کو مزید تباہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
زیادہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہونے کی بدولت ان ممالک نے اپنی تشکیل نو کے لیے ٹیکنالوجی میں بھی ترقی کی، سو یہ عالمی سطح پر ماحول دوست انفراسٹرکچر کے بڑھتے رجحان کو اپنانے کے معاملے میں دیگر غریب قوموں کی نسبت زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں۔
اگر دیگر ممالک اپنی معیشتوں کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بھی کم اخراجات میں زیادہ ترقی کے لیے انسانی اور ماحولیاتی حقوق پامال کرنے ہی پڑیں گے۔
مثال کے طور پر خلیجی ممالک اور ان کا جنوبی ایشیائی مزدوروں کے استحصال، برازیل اور ایمازون کے برساتی جنگلات اور ایشائی ممالک اور ان کے کوئلہ استعمال کرنے کی مثالیں ذہن میں لائیے۔
توانائی کے بین الاقوامی ادارے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ایشیا 75 فیصد تک کوئلہ کی توانائی سے کام چلاتا ہے کیونکہ توانائی حاصل کرنے کے جدید ترین ذرائع اس کے لیے ناقابل برداشت حد تک مہنگے ہیں۔
اس کے برعکس دنیا بھر میں برطانوی راج کے قیام میں بنیادی کردار ادا کرنے والے صنعتی انقلاب کے دوران برطانیہ کے کوئلہ استعمال کرنے کی مخالفت کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
برطانیہ جس قدر مضبوط معیشت آج ہے وہ کبھی نہ ہوتا اگر اس نے ماضی میں ماحولیاتی استحصال نہ کیا ہوتا۔
1750 میں برطانیہ محض 52 لاکھ ٹن سالانہ کوئلہ نکال رہا تھا۔ 1850 تک یہ چھ کروڑ 20 لاکھ ٹن کوئلہ نکالنے لگا جو گذشتہ صدی کی نسبت دس گنا زیادہ بنتا ہے۔
ان اعدادوشمار میں سلطنت برطانیہ کا دنیا بھر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والے دیگر وسائل کا انتہائی بڑے پیمانے پر استعمال شامل نہیں۔
عراق میں اپنے قبضے کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے برطانیہ نے بندرگاہ والے شہر بصرہ سے بغداد تک ریلوے لائن بچھائی۔ ہندوستان اور برطانیہ کی دیگر سابقہ کالونیوں میں بھی یہی کام کیا گیا۔
سلطنت برطانیہ کے دائرہ کے ساتھ ساتھ اس کی بحری فوج بھی پھیلنے لگی۔
حب الوطنی پر مبنی برطانوی ترانہ Rule, Britannia! Britannia, rule the waves برطانیہ کے استحصالی ارادوں پر مہر تصدیق ہے جو ایک وقت میں تقریباً دنیا کی چوتھائی آبادی اور رقبے پر حکومت کر رہا تھا۔
20ویں صدی تک بھاپ سے چلنے والا انجن اور اس کی کوئلے کی کھپت ماحولیاتی تباہی کا خیال کیے بغیر سلطنت برطانیہ کا بوجھ اٹھاتے رہے۔
سمندر میں برطانوی راج کے سلسلے میں 1945 تک کاربن ڈائی آکسائڈ خارج کرنے والے بحری بیڑوں کی تعداد 2,300 تھی جو آج کی شاہی بحری فوج کے 89 بحری جہازوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
بعض صورتوں میں صنعتی ممالک یہ عذر پیش کر سکتے ہیں کہ فوسل ایندھن کے ماحول پر مضر اثرات سے وہ بے خبر تھے۔
لیکن ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ اگرچہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بحرانوں کو حالیہ برسوں میں زیادہ سنجیدگی سے لیا گیا لیکن کاربن کے ماحولیاتی نقصان سے مغرب کے اداروں کی آگاہی بہت پہلے اس وقت سے ہے جب عوامی سطح پر اس کا ذکر تک نہ تھا۔
اس کی پردہ پوشی امریکی فوسل ایندھن کی بڑی فیصلہ کن کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی جانے والی مشترکہ کوششوں کا حصہ تھا۔
فوسل ایندھن کمپنیوں نے غلط معلومات پھیلانے کا سلسلہ جاری رکھا اور لابی انگ سے امریکہ کے ایوان بالا کو دنیا کے پہلے موسمیاتی معاہدے کیوٹو پروٹوکول کی توثیق سے روکنے میں کامیاب رہے۔
اگرچہ سابق صدر بل کلنٹن نے اس معاہدے کے نسبتاً کم سخت روپ پر دستخط کر دیے تھے لیکن ایوان بالا نے اس ضابطۂ اخلاق کی توثیق سے انکار کرتے ہو امریکی معیشت کو ممکنہ نقصان کا حوالہ دیا۔
پھر ہم کیسے ان ممالک سے موسمیاتی معاہدوں کی تعمیل کی توقع کر سکتے ہیں جو امریکہ کی نسبت کہیں زیادہ بدتر معاشی صورت حال میں ہیں؟
آج تک فوسل ایندھن کمپنیوں کی پھیلائی ہوئی غلط معلومات گردش کرتی ہیں جیسا کہ امریکی رکن پارلیمان سینٹ میں برف کا گولہ اس بات کے ثبوت کے طور پر لے گئے کہ موسمیاتی تبدیلی محض ایک فریب ہے۔
اپنے پورے دور صدارت میں ڈونلڈ ٹرمپ موسمیاتی تبدیلی کے وجود سے انکار کرتے رہے اور بجائے اس کی حقیقت کو تسلیم کرنے کے اسے چینیوں کی پھیلایا ہوا ڈھکوسلا کہتے رہے۔
اس انکار کے بعد ٹرمپ فوسل ایندھن کمپنیوں کو کال کر کے بتاتے رہے ’اپنے کوئلہ کے کان کنوں کو بتائیے میں ان کی پشت پناہی کے لیے موجود ہوں۔‘
فوسل ایندھن انڈسٹری کا یہ معمول بن چکا ہے کہ وہ امریکہ کے انتخابی معرکوں میں اس امید کے ساتھ مالی تعاون کرتی ہے کہ بدلے میں ایسی پالیسیاں وضع کی جائیں گی جن سے فوسل ایندھن انڈسٹری کو فائدہ ہو۔
2000 میں جب جارج ڈبلیو بش الیکشن لڑ رہے تھے اس وقت بڑی بڑی تیل کی کمپنیوں نے کسی بھی سابقہ الیکشن مہم کی نسبت اس میں سب سے زیادہ رقم خرچ کی کہ بش اقتدار میں آ جائیں۔
بش کے باقاعدہ ذمہ داریاں سنبھالنے کے ایک ہفتے کے اندر اندر ان کا بدلہ چکاتے ہوئے نائب صدر ڈک چینی نے نیشنل انرجی پالیسی ڈیویلپمنٹ گروپ تخلیق کر کے فوسل ایندھن کمپنیوں کو وائٹ ہاؤس میں ایک نشست دے دی۔
اس گروپ نے تب ایک رپورٹ شائع کی جس میں وہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو زور دے کر کہتا ہے، ’اپنے انرجی سیکٹرز کے دروازے غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیجیے۔‘
چند ماہ بعد امریکی فوجی دستے عراق میں اتار دیے گئے تھے اور باقی تباہ کن تاریخ ہے۔ اسی طرح گذشتہ سال 2020 کے صدارتی مقابلے میں ٹرمپ کو تیل اور گیس کے شعبوں سے انتخابی مہم کے لیے 20 لاکھ ڈالرز کی خطیر رقم ملی۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ جوبائیڈن کی مہم اس سے پاک تھی۔ اسے آٹھ لاکھ ڈالرز ملے۔
فوسل ایندھن کمپنیوں کو پالیسی سازی پر اثرانداز ہونے کی اجازت دینا عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کو بہت مشکل اور ترقی پذیر ممالک سے اس بحران کے حل میں تعاون طلب کرنا ایک منافقانہ طرز عمل بنا دے گا۔
موسمیاتی تبدیلی کی رفتار کم کرنا عالمی سطح پر بہت مہنگا ثابت ہو رہا ہے۔ جدید ماحول دوست ٹیکنالوجیز کو ابھی تک سستا ہونا اور پرانی، ایندھن پرچلنے والی ٹیکنالوجی کی سہولت پسندی تک پہنچنا باقی ہے۔
صحت کی سہولیات، ملازمتوں کے مواقع اور پائیدار انفراسٹرکچر تک رسائی کے لیے جدوجہد کرنے والی ترقی پذیر قومیں مہنگے ماحول دوست انفراسٹرکچر کو فروغ دینے لگیں تو ان کی معیشتیں زمین بوس ہو جائیں۔
یورپ میں ایک عام صارف کو ماحول دوست اشیا خریدنے کے لیے سالانہ دو ہزار یورو (23 سو امریکی ڈالر) اضافی خرچنے پڑیں گے۔
بعض صورتوں میں دیکھا گیا ہے کہ ماحول دوست اشیا ویسی ہی غیر ماحول دوست اشیا کے مقابلے میں 50 فیصد تک زیادہ مہنگی ہو سکتی ہیں۔
مثال کے طور پر الیکٹرک گاڑیوں کو ہی لے لیجیے۔ برطانیہ میں سستی ترین الیکٹرک کار 15 ہزار پاؤنڈ کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب اس کا موازنہ سب صحارا افریقہ کے ممالک (سوائے جنوبی افریقہ) سے کیا جائے جہاں اوسطاً فی کس آمدن 315 پاؤنڈ ہے تو سمجھ میں آتا ہے کہ ایسی قوموں کے لیے ماحول دوست انفراسٹرکچر پر منتقل ہونا کیوں مشکل ہو گا۔
امریکہ نے ابھی ابھی جیف بیزوس کی کمپنی ’بلیو اوریجن‘ اور رچرڈ پرینسن کی ’ورجن گیلیکٹک‘ جیسی خلائی تحقیق کرنی والی نجی کمپنیوں کو تعاون اور مالی امداد فراہم کی ہے۔
ارب پتیوں کے بطور سیاح خلا میں جانے کے خود نمائی پر مبنی منصوبوں نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
ایک ارب پتی کو خلا میں لے جانے والی چار منٹ کی پرواز موسمیاتی تبدیلی کی رفتار کم کرنے کی ہماری روزمرہ کی انفرادی کاوشوں پر پانی پھیر دیتی ہے۔
دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک جیف بیزوس نے خلا میں مختصر سفر کے لیے ساڑھے پانچ ارب ڈالرز کی رقم خرچ کر ڈالی جو دنیا کے سو ملکوں کے سالانہ بجٹ سے زیادہ ہے اور وہ رقم زہریلی گیسوں کے اخراج کی کمی کے لیے استعمال کی جا سکتی تھی۔
© The Independent