انڈیا میں صرف تین انڈس ڈولفن باقی، ماحولیاتی ماہرین میں تشویش

انڈیا میں کی گئی ایک جامع نمبر شماری کے مطابق ملک میں صرف تین انڈس ڈولفنز باقی رہ گئی ہیں، جس سے ماحولیاتی ماہرین میں شدید تشویش پیدا ہو گئی ہے۔

23 دسمبر 2008 کی اس تصویر میں جنگلی حیات کے کارکن پاکستان کے جنوبی شہر سکھر میں دریائے سندھ میں گہرے پانیوں میں پھنسی ہوئی ڈولفن کو بچا رہے ہیں (شاہد علی/اے ایف پی)

انڈیا میں آبی جانوروں کے پہلے جامع سروے کے مطابق ملک میں اب صرف تین انڈس ڈولفنز باقی رہ گئی ہیں، جس نے خطرے سے دوچار جنگلی حیات کی بقا کے بارے میں تشویش کو جنم دیا ہے۔ یہ تین ڈولفنز شمالی ریاست پنجاب میں دریائے بیاس میں پائی گئی ہیں۔

سروے کے مطابق ایک وقت تھا جب انڈس ڈولفن بیاس اور ستلج دریاؤں میں بڑی تعداد میں پائی جاتی تھی، مگر مسکن کی تباہی، آلودگی اور آبپاشی کے لیے پانی کے بہاؤ میں تبدیلی کی وجہ سے ان کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

انڈس ڈولفن، اپنی قریبی رشتہ دار گنگا ڈولفن کی طرح، جنوبی ایشیا میں پائی جانے والی ایک میٹھے پانی کی نسل ہے۔

انڈیا میں ڈولفن کی پہلی آبادیاتی نمبرشماری، جو 2021  سے 2023 کے درمیان کی گئی اور حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے جاری کی، میں 8,406  کلومیٹر پر محیط گنگا، برہم پتر اور ان کی معاون دریاؤں سمیت دریائے بیاس کے 101 کلومیٹر کے علاقے کا احاطہ کیا گیا ہے۔

انڈیا کے وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ اور ریاستی جنگلاتی محکموں کے اشتراک سے کیے گئے سروے میں نتیجہ اخذ کیا گیا کہ’انڈیا میں انڈس  ڈولفن کی واحد باقی ماندہ آبادی پنجاب کے دریائے بیاس میں پائی جاتی ہے، جبکہ ان کی اکثریت پاکستان میں دریائے سندھ کے مرکزی دھارے میں رہتی ہے۔‘

یہ تصور کیا جاتا تھا کہ  انڈیا میں انڈس ڈولفن ناپید ہو چکی ہے، تاہم 2007 میں پنجاب کے محکمہ جنگلات اور ڈبلیو ڈبلیو ایف انڈیا کی ایک تحقیق میں ان کی موجودگی کا پتہ چلا۔ مقامی آبادی کے ساتھ کیے گئے انٹرویوز سے معلوم ہوا کہ یہ بھولن کہلانے والی ڈولفن دریائے بیاس میں کئی دہائیوں سے موجود ہے۔

تازہ ترین نمبر شماری کے مطابق،  انڈیا میں دریائے گنگا میں ڈولفن کی تعداد 6,324 ہے، جن میں سے: 2,397  اتر پردیش میں،  2,220  بہار، 815  مغربی بنگال، 635 آسام، 162 جھارکھنڈ اور 95 راجستھان اور مدھیہ پردیش میں پائی جاتی ہیں۔

انڈس اور گنگا  ڈولفن دونوں کو معدومیت کے خطرے سے دوچار قرار دیا گیا ہے اور یہ 1972 کے وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ کے تحت سب سے زیادہ تحفظ یافتہ اقسام میں شامل ہیں۔

 مگر ان کے مسکن کی تباہی، پانی کی آلودگی، ماہی گیری کے جال میں الجھنے اور دریا کے بہاؤ میں تبدیلی جیسے مسائل ان کے بقا کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔

ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈولفن کی بقا کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، جن میں انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی اموات میں کمی، پانی کے بہاؤ کو برقرار رکھنا اور صحت مند آبادی سے ڈولفنز کو دوبارہ متعارف کرانا شامل ہیں۔

ماہر ماحولیات سندیپ بہیرا نے 2022 میں مونگابے انڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’ دریائے بیاس میں انڈس ڈولفن کے لیے سب سے بڑا خطرہ پانی کی فراہمی اور آلودگی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’بالائی علاقوں میں بنائے گئے ہائیڈرو پاور منصوبے پانی کی سطح میں بار بار اتار چڑھاؤ پیدا کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان ڈولفنز کے لیے غیر مستحکم مسکن بن جاتا ہے۔ ستلج اور بیاس دریاؤں کے سنگم پر، ہریکے کے مقام پر، میں نے پہلی بار انڈس ڈولفن کو دیکھا تھا۔‘

ہریکے بیراج 1953 میں بیاس اور ستلج کے پانی کو زراعت اور پینے کے لیے ذخیرہ کرنے کے لیے پنجاب میں تعمیر کیا گیا تھا۔

سندیپ بہیرا نے کہا  کہ ’یہ ڈولفن کے لیے ایک موزوں مقام فراہم کرتا ہے۔ کیوںکہ بیراج کی وجہ سے یہاں پانی کی گہرائی برقرار رہتی ہے، تاہم، اب بڑھتی ہوئی آلودگی انہیں اس علاقے سے دور جانے پر مجبور کر رہی ہے۔‘

وفاقی وزارت ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی نے 2022 میں ایک فیلڈ گائیڈ جاری کی –گنگا اور انڈس ڈولفن کی نگرانی، متعلقہ آبی حیات اور مسکن – جس میں گنگا اور برہماپتر دریاؤں اور ان کی معاون ندیوں میں ڈولفن کی آبادی میں مسلسل کمی کو نوٹ کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق، گذشتہ ایک صدی کے دوران گنگا اور انڈس ڈولفن کی آبادی میں 50 سے 60 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ انڈیا میں صرف چھ سے آٹھ انڈس ڈولفن باقی بچی ہیں، جو پنجاب میں بیاس ندی کے ایک چھوٹے سے حصے تک محدود ہیں، جبکہ پاکستان میں ان کی تعداد تقریباً 1,816  بتائی جاتی ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے 2020 میں ’پروجیکٹ ڈولفنـ شروع کیا تھا، جس کا مقصد ڈولفن کی آبادی کی باقاعدہ نگرانی کرنا تھا، کیونکہ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا تھا کہ ان کی بقا کے لیے مسلسل نگرانی انتہائی ضروری ہے۔

چونکہ ایک مادہ دریائی ڈولفن ہر دو سے تین سال میں صرف ایک بچے کو جنم دیتی ہے، اس لیے قدرتی اور انسانی خطرات سے ان کی حفاظت کے لیے مستقل نگرانی ناگزیر ہے۔

دی انڈپنڈنٹ نے اس حوالے سے وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا سے تبصرہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات