سقوطِ ڈھاکہ کو 50 سال ہو چکے ہیں۔ 16 دسمبر کو ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر کمانڈر ایسٹرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کے دستخط ہیں جو اس وقت زون بی کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی تھے۔
حمود الرحمٰن کمیشن میں لکھا گیا ہے کہ جنرل نیازی کم از کم دو ہفتے تک دفاع کر سکتے تھے، وہ سرینڈر کرنے کی بجائے اپنی جان قربان کر دیتے تو آئندہ نسلیں انہیں ایک عظیم ہیرو کے طور پر یاد رکھتیں۔ تاہم سرینڈر کرنے کے بارے میں وہ خود ایک مختلف توجیح بیان کرتے رہے ہیں۔
’ہتھیار کیوں ڈالے،‘ نامی کتاب میں وسیم شیخ نے سقوطِ ڈھاکہ کے واقعات پر جنرل نیازی کا انٹرویو کر کے ان کا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ ان کے خیالات جاننا بھی از حد ضروری ہے تاکہ ایک دوسرا موقف بھی سامنے آئے۔
جنرل امیر عبداللہ خان نیازی میانوالی سے دو میل دور بلو خیل نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہیں دوسری جنگ عظیم کے دوران کمیشن ملا وہ آزادی سے پہلے وہ راجپوٹ بٹالین میں تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں انہیں بہادری پر اعلیٰ ترین فوجی اعزاز ’ملٹری کراس‘ بھی ملا۔ 1965 کی جنگ میں انہیں پہلے ’ہلال جرات‘ اور اور پھر ’ستارہ پاکستان‘ سے نوازا گیا۔ انہیں فوج میں ٹائیگر کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔
اپنے ہی ملک میں اجنبی
وہ لکھتے ہیں کہ تین اپریل 1971 کو جب انہیں جنرل عبدالحمید خان نے جو قائم مقام کمانڈر انچیف بھی تھے، فون کر کے جی ایچ کیو آنے کا کہا۔ اگلے روز پہنچنے پر بتایا کہ ایک مشکل ٹاسک تمہارے سپرد کرنا ہے۔ میں نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ بطور ایسٹرن کمانڈر تمہیں مشرقی پاکستان میں تعینات کرنا ہے۔
میں نے جواب دیا کہ ’جنرل ٹکا خان تو وہاں پہلے ہی تعینات ہیں؟‘
انہوں نے کہا، ’وہ بری طرح ناکام رہا ہے، صدر کی خواہش ہے کہ تم ٹکا خان سے چارج لے کر اس کی خرابیوں کی اصلاح کرو۔‘
جنرل نیازی لکھتے ہیں کہ وہ پانچ اپریل کو ڈھاکہ پہنچے اور دس اپریل کو جنرل ٹکا خان سے چارج لے لیا۔ ’اس وقت حالت یہ تھی کہ مشرقی پاکستان میں ہماری چھاؤنیوں کا آپس میں زمینی رابطہ منقطع تھا۔ سرحدوں پر مکتی باہنی کا راج تھا جنرل ٹکا کی بے رحمانہ کارروائیوں کی وجہ سے ہم اپنے ہی ملک میں اجنبی بن چکے تھے۔‘
آخری آدمی آخری گولی
جنرل نیازی اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ ان کا تھا، بلکہ لکھتے ہیں کہ 13 اور 14 دسمبر کی درمیانی شب کو میں نے ’آخری آدمی اور آخری گولی‘ تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا اور کہا کہ دشمن کے ٹینک ڈھاکہ میں میرے سینے سے گزر کر ہی داخل ہو سکیں گے۔
وہ لکھتے ہیں، ’اکثر میرے خلاف پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ یحییٰ خان نے ہتھیار ڈالنے کا نہیں کہا تھا بلکہ یہ میرا اپنا فیصلہ تھا اور اس کے لیے یحییٰ خان کےایک پیغام کا حوالہ دیا جاتا ہے جو ڈاکٹر مالک گورنر مشرقی پاکستان کے ذریعے بھیجا گیا تھا جس کی عبارت یوں تھی: ’نیازی آپ پاکستان کے سینیئر ترین فوجی افسر ہیں اور آپ ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی ہیں اور وہاں کے کمانڈر بھی، آپ میری نسبت صورت حال کو بہتر جانتے ہیں، زمینی صورتِ حال کا صحیح اندازہ کر سکتے ہیں، گورنر سے مشورہ کرو اور یو این والوں کو بولو کہ وہ سیز فائر کروا دیں۔ جب سیز فائر ہوتا ہے تو کمانڈر آپس میں ملتے ہیں اور کوئی نہ کوئی سمجھوتا ہو جاتا ہے لیکن دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘
جنرل نیازی کہتے ہیں کہ ’یہ بات صریحاً جھوٹ ہے، مجھے اس قسم کا کوئی سگنل نہیں ملا، خود یحییٰ خان کے بیان سے ہی اس کی تردید ہو جاتی ہے کہ وہ سگنل ڈاکٹر مالک کو بھیج رہے ہیں اور نام میرا لے رہے ہیں، اور پھر یہ بھی کہ میرا رابطہ ہر وقت جی ایچ کیو سے تھا اور آخر وقت تک یعنی ہتھیار ڈالنے تک یہ رابطہ قائم تھا اور اس سلسلے میں جنرل حمید اور جنرل گل حسن سے بات چیت ہوئی تھی۔ مجھے اس قسم کا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ تم نے ہتھیار نہیں ڈالنے۔ بلکہ اس سلسلے میں، میں جنرل یحییٰ کے آخری دو سگنل بتاتا ہوں جو مجھے بھیجے گئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
13 اور 14 دسمبر کی رات ہتھیار ڈالنے کا حکم
13 اور 14 دسمبر کی رات کو جو پیغام مجھ تک پہنچا وہ یوں تھا، ’آپ نے دفاع کے لیے بہترین جنگ لڑی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آپ ایک ایسی سٹیج پر پہنچ چکے ہیں کہ مزید مزاحمت انسانی بس میں نہیں اور اس سے مزید جانی نقصان اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ لہٰذا اب تمہیں وہ تمام حربے اختیار کرنے چاہییں جن سے تم فوج اور اس سے ملحقہ افراد نیز پاکستان کے حامی افراد کی جان بچا سکو۔ میں نے اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ وہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کاتحفظ کرے اور افواج پاکستان اور تمام محب وطن پاکستانیوں کو بچانے کا اہتمام کرتے ہوئے بھارتی جارحیت کو رکوائے۔‘
اس سے پہلے یحییٰ خان کا جو سگنل مجھے موصول ہوا وہ 29 نومبر کا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’آپ کی کامیابی کو سنہری حروف سے لکھا جائے گا اور ساری قوم آپ کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔‘ کیونکہ ا س سے پہلے میں نے مشرقی پاکستان پر بھارتی حملے کا ایک ہفتے تک نہ صرف کامیابی سے دفاع کیا تھا بلکہ کئی مقامات پر انہیں مار بھگایا تھا۔ اس سے پہلے بھارتی فوج کے آدمی مکتی باہنی کے نام پر لڑ رہے تھے۔
یحییٰ خان کے سگنل کے باوجود ہم نے 14 کو ہتھیار نہیں ڈالے، ہم انتظار کرتے رہے کیونکہ ہمیں اس سے پیشتر اسلام آباد سے باقاعدہ اطلاع دی گئی تھی کہ ’زرد اوپر سے اور سفید نیچے سے تمہاری امداد کر رہا ہے۔‘
مطلب یہ تھا کہ نیچے سمندر کے ذریعے امریکی بحری بیڑہ اور اوپر سے چین ہماری مدد کو پہنچ رہا ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ ہمارے جیالوں کو ہر طرف سے یہی جواب تھا کہ ’آخری گولی آخری آدمی‘ کے آرڈر پر عمل کرتے ہوئے وہ آخری قطرہ خون بہنے تک لڑیں گے مگر اسلام آباد خاموش تھا۔‘
مغربی پاکستان کو بچانا ہے تو ہتھیار ڈال دو
جنرل نیازی کے مطابق: ’میں بار بار پیغام بھیج رہا تھا، بار بار یحییٰ خان سے بات کرنے کی کوشش کرتا لیکن حمید یا گل حسن کہتے کہ یحییٰ خان باتھ روم میں ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ پی پلا کر کہیں اوندھا ہو چکا ہو گا۔ چنانچہ میں نے غصے سے کہا کہ ایک گھنٹے سے وہ باتھ روم میں ہے اسے کہو مجھ سے بات کرے۔ جواب میں پھر یہی کہا گیا کہ وہ بات نہیں کر سکتا۔ میں نے گالی دے کر رابطہ منقطع کر دیا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ ہمیں چھوڑ چکے تھے ادھر ڈاکٹر مالک بار بار ہتھیار ڈالنے پر زور دے رہے تھے۔ میں نے کہا کہ میں ایسا کیسے کر سکتا ہوں۔ جواب میں وہ بولے کہ یحییٰ سے میری بات ہوئی ہے وہ کہتا ہے کہ مشرقی پاکستان تو گیا اب مغربی پاکستان کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر تم نے ہتھیار ڈال کر جنگ بند نہ کرائی تو مغربی پاکستان بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ یحییٰ خان کہتا ہے کہ بھارتی فوج ہیڈ مرالہ ورکس تک پہنچ گئی ہے اگر وہ ہیڈ مرالہ پر قابض ہو گئی تو غضب ہو جائے گا، لہٰذا جلد ہتھیار ڈال کر جنگ بند کراؤ۔ میں نے پھر یحییٰ خان سے بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ ابھی تک باتھ روم میں تھے۔
جنرل نیازی لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کے دفاع کی حکمت عملی شروع ہی سے یہ رکھی گئی تھی کہ اگر بھارت نے وہاں حملہ کیا تو ہم مشرقی پنجاب پر حملہ کر کے وہاں قبضہ کر لیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ مشرقی پاکستان کے پاس نہ فضائیہ تھی نہ بحریہ۔ اگر ایسا کیا جاتا تو اس سے دو فائدے ہوتے ایک تو مشرقی پاکستان سے بھارت کو فوجیں ہٹانا پڑتیں اور دوسرا سیز فائر کے وقت جو علاقہ اس نے مشرق میں جیتا تھا اسے مغرب میں اپنے علاقے سے بدلنا پڑتا۔ مشرقی پاکستان میں بھارتیوں کی 12 ڈویژن کے لگ بھگ فوج، دو سو کے قریب ہوائی جہاز، چھ رجمنٹس کے لگ بھگ ٹینک، نصف سے زائد نیوی ہمارے خلاف برسر پیکار تھی۔ مغربی پاکستان میں ہماری اور ان کی برابری تھی بلکہ ٹینکوں میں ہمارے پاس قوت زیادہ تھی۔ مغربی پاکستان میں کوئی اور جرنیل ہوتا تو بھارت کا سینہ چھلنی کر دیتا اس کے پاس بھرپور وسائل تھے۔ کاش اس وقت یحییٰ کی بجائے کوئی دوسرا سپریم کمانڈر ہوتا تو آج برصغیر کا نقشہ اور تاریخ مختلف ہوتی۔‘
قوم کو نفسیاتی طور پر شکست کے لیے تیار کیا گیا
’مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ یہاں لاہور اور دوسرے شہروں پر بھارتی طیارے دندناتے پھرتے تھے اور کوئی انہیں پکڑنے والا نہیں تھا۔ الٹا پاکستانی عوام کو یہ تاثر دیا گیا تھا کہ ہمارے پاس ایسے جہاز نہیں جو بھارتی جہازوں کا مقابلہ کر سکیں۔ یہ سراسر جھوٹ ہے اور ایسا پراپیگنڈا محض اس لیے کیا گیا کہ پاکستانی قوم مایوس ہو کر شکست کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جائے۔
انگریز کی پرانی ضرب المثل ہے کہ بھیڑیوں کی وہ فوج بہتر ہے جس کا سربراہ شیر ہو یہ اس سے بہتر ہے کہ شیروں کی فوج پر بھیڑیا سربراہ بن جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری فوج شیروں کی تھی لیکن یہاں اس کا سپریم کمانڈر ایک بھیڑیا تھا اور اس کے ساتھ 40 چوروں کا ٹولہ جو جنگ نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ مشرقی پاکستان کو الگ کر کے مغربی پاکستان میں اپنی مطلق العنانیت کے خواب دیکھ رہا تھا اور یہ ساری منصوبی بندی اس لیے کی گئی تھی۔
اس سے بڑا ستم اور کیا ہو سکتا ہے کہ مغربی سرحد پر حملہ بھی ہم نے کیا اور دس دن بعد ہمارے ہی پانچ ہزار مربع میل بھارت کے قبضے میں چلے گئے۔ کیا فوج کی تاریخ میں ایسا کبھی ہوا ہے کہ حملہ آور علاقہ لینے کے بجائے ہاتھ سے دے دے۔ پھر پاکستان کے حملے کی تاریخیں بھی دیکھیے۔ یہ حملہ اس وقت کیوں نہ کیا گیا جب 21 نومبر کو بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تھا، حملے کے لیے دو ہفتے تک انتظار کیوں کیا گیا؟
’ہم نے مشرقی پاکستان پر بھارتی حملہ روک لیا تھا جس کا ثبوت یحییٰ خان کا 29 نومبر کا سگنل ہے۔ میں کھلم کھلا کہتا ہوں کہ مغربی پاکستان میں اس لیے ادھوراحملہ کیا گیا تاکہ بھارتی فوج پوری قوت کے ساتھ مجھ پر زمینی اور فضائی حملہ کر کے مجھے بے دست و پا بنا دے۔
جب بھارت نے مشرقی پاکستان پر 21 نومبر کو حملہ کیا تو یحییٰ خان نے اقوام متحدہ کو شکایت کیوں نہ کی کیا مشرقی پاکستان، پاکستان کا حصہ نہیں تھا؟ کیا یہ مجھے اور میرے نوجوانوں کو ذلیل کرانے کا طریقہ نہیں تھا؟
یحییٰ خان کا یہ دعویٰ کہ وہ اقتدار میں ہوتے تو کبھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کرتے۔ میں پوچھتا ہوں کہ مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے کا حکم کس نے دیا اور مغربی پاکستان میں بھارت کے ساتھ لڑنے میں انہیں کیا مشکل پیش تھی؟‘
اس حوالے سے دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’سقوط ڈھاکہ کی سیاسی اور فوجی دونوں وجوہات تھیں۔ یحییٰ اور نیازی دونوں ہی فوجی آپریشن کی ناکامی کے ذمہ دار تھے۔ دونوں کا کردار بہت شرمناک تھا۔ پہلے سارے لوگوں کو متنفر کیا گیا۔ زمینی حقائق فوجی کی بجائے سیاسی تصفیے کے حق میں تھے لیکن اس وقت اس کے بہت سے داخلی اور خارجی اسباب تھے جنہوں نے آگے چل کر اسے ایک بڑے سانحے میں بدل دیا۔‘