یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
تحریک انصاف اپنے ہی سونامی میں ڈوب رہی ہے۔ جیسے کوئی درویش اپنے ہی عشق میں صرف ہو جائے یا برف کا باٹ جیسے کوئی دھوپ میں رکھ آئے۔
سمجھ نہیں آ رہی یہ کشتہِ مرجان اپنی ترکیب میں ہے کیا چیز؟ یہ ایک سیاسی جماعت ہے، کوئی قافلہ انقلاب ہے، عشاق کا ’لوّرز کلب‘ ہے، کوئی شعوری تحریک ہے، ایک سماجی کلٹ ہے، سیاسی فرقہ ہے، کوئی نادیدہ اور پراسرار سی قوت ہے، صرف اقوال زریں کا ایک مجموعہ ہے یا محض ایک جنون ہے جو گاہے فاشزم کی دہلیز پر دستک دے آتا ہے؟ میر نے کہا تھا:
زمین و آسماں زیر و زبر ہے
نہیں کم حشر سے اودھم ہمارا
سیاست اور جمہوریت محض انتخابی عمل کے ذریعے حصول اقتدار کا نام نہیں۔ ایسا ہوتا تو مسولینی کو تاریخ فاشسٹ اور آمر کے نام سے یاد نہ رکھتی۔ وہ تو ایک ’منتخب‘ حکمران تھا اور اتحادیوں سے مل کر اس نے حکومت قائم کی تھی۔
اتحادیوں میں لبرل بھی تھے، قوم پرست بھی تھے اور مذہبی لوگ بھی۔ ہٹلر بھی ایک ’جمہوری‘ آدمی تھا۔ اس کی بھی ایک سیاسی جماعت تھی۔ وہ بھی صدارت کا الیکشن ہارا تھا۔ پھر چانسلر بنا اور اس کے بعد اس نے جو طرز حکومت متعارف کرائی اس کی وجہ سے وہ آج تک تاریخ کے بد ترین فاشسٹ حکمرانوں میں شمار ہوتا ہے۔
جمہوریت اصل میں ایک طرز عمل کا نام ہے۔ قومی سیاست میں آئین اور قانون سے تکلیف دہ بے نیازی سے لے کر پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری پر تشدد تک، اس جماعت کا فرد عمل ہمارے سامنے ہے۔
تحریک انصاف کے پاس وقت ہو تو اسے اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ کیا واقعی وہ ایک سیاسی جماعت ہے اور کیا اس رویے کے نام جمہوریت کی تہمت دھری جا سکتی ہے؟
حزب اختلاف کا وجود گوارا نہیں تھا۔ اس سے بات کرنا گوارا نہیں تھا۔ قانون سازی بذریعہ آرڈیننس کی جاتی رہی۔ تقابل مقصود نہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ہٹلر کے انایبلنگ ایکٹ اور تحریک انصاف کے صدارتی آرڈیننسز میں جوہری طور پر کیا فرق تھا؟
جلسوں کی کامیابی اور عمران خان کی مقبولیت کے دعوے اپنی جگہ سوال مگر یہ ہے کہ کارکردگی کہا ں ہے؟
ساڑھے تین سال کے اقتدار کے بعد بھی اگر کوئی سیاسی جماعت اپنی خوبیوں کی بجائے دوسروں کی خامیوں کی بنیاد پر سرخرو اور معتبر ہونا چاہے تو یہ کوئی نیک شگون نہیں۔
معیشت، تعلیم، صحت، عمومی طرز حکومت۔۔۔ کسی ایک باب میں کوئی کامیابی ہے تو بتائیے؟ دوسروں کی ہجو کہتے جانا اور اپنے فضائل بیان کرتے رہنا کہاں کی میانہ روی ہے؟
تحریک انصاف ایک ’کلٹ‘ بنتی جا رہی ہے۔ اصول اور دلیل کی اسے حاجت نہیں۔ عمران خان کے کسی فیصلے کی صحت کا تعین کسی دلیل، اخلاقیات اور قانون کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ دلیل اخلاقیات اور قانون اب اس بات کے محتاج ہیں کہ عمران خان کے معیار پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔
معیار اب صرف یہ ہے کہ عمران کیا کہہ رہے ہیں۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ بطور جماعت ان کے پاس کوئی فلسفہ حیات یا کوئی پالیسی نہیں، سوائے اس کے کہ عمران خان جو کہہ رہے ہیں وہی حق ہے۔ یہ بالکل وہی رویہ ہے کہ ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے۔ حق اور باطل کا تعین اب صرف اس سے ہوگا کہ عمران کس طرف کھڑے ہیں۔
فارن فنڈنگ کیس سے لے کر توشہ خانے کے تحائف تک، سوالات کے بوجھ سے ان کی کمر دہری ہوئی پڑی ہے لیکن اس کے باوجود بیانیہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں اور اکیلا عمران خان دیانت دار ہے۔
جو عمران کا مخالف ہے وہ کرپٹ ہے، خائن ہے، ملک دشمن ہے، امریکی ایجنٹ ہے چنانچہ اس وقت عمران خان اور ان کے اتحادیوں کے علاوہ سب غدار ہیں۔ ان سے ملک کو خطرہ ہے۔ برہانِ تازہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے حریفوں کے اقتدار سے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات بھی خطرے میں ہوں گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اوور سیز تحریک انصاف کے نعرے سنیں تو یہ کلٹ اور یہ فرقہ واریت مزید عیاں ہو جاتی ہے۔ عمران نہیں ہے تو ’رمیٹنس‘ بھی نہیں ہے۔ گویا ’رمیٹینسز‘ یہ اپنے اہل خانہ کی بجائے اپنی ساری آبائی یونین کونسل کو بھیجتے ہیں جو اب نہیں بھیجیں گے۔ وفاداری کا مرکز اب فرد واحد ہے جو اس سے اختلاف کی جسارت کرتا ہے وہ فرد ہو یا ادارہ، کسی کو امان نہیں۔ آتش فشاں سلگ رہے ہیں۔
پوسٹ ٹروتھ کا ابلاغ اور پروپیگنڈاا س بے نیازی سے کیا جاتا ہے کہ گوئبلز بھی آ جائے تو ان کا جھوٹا تبرک سمجھ کر پی جائے۔ معروف شخصیات کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنا کر اپنے قصیدے بیان کیے جاتے ہیں پھر اس جھوٹ کو ٹرینڈ بنا دیا جاتا ہے۔
علی محمد خان جیسا آدمی پشاور جلسے کی تصویر شیئر کرتا ہے تو لوگ سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ یہ تو ناسا کی جاری کردہ تصویر ہے اور وہ پشاور جلسے کی نہیں جزیرہ نما آئبیریا پر واقع سپین اور پرتگال کی ہے۔
حیرت حسن یار مگر پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی ہے کہ سچ جھوٹ کو چھوڑو، ہمارا اعتماد چیک کرو۔
پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر پر تشدد کے واقعے پر تحریک انصاف کے رہنماؤں کے بیانات پڑھیں تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ تحریک انصاف میں نفرت، ہیجان اور پولرائزیشن کو ایک پالیسی کے تحت اختیار کیا جا چکا ہے اور اوپر بیان کیے گئے تمام اجزا سے ایک نسخہ تیار کیا گیا ہے تاکہ نوجوانوں کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے استعمال کا موقع نہ ملے اور وہ اسی ہیجان کا ایندھن بن جائیں۔ چشم مشتاق اب ’سول ان ریسٹ‘ کی منادی دے رہی ہے۔
دوسری شکل یہ ہوسکتی ہے کہ یہ سوچا سمجھا منصوبہ نہیں ہے بلکہ حصول اقتدار کے لیے آپ ہوا کے دوش پر سوار ہیں اور جو بھی چیز آپ کو راستے میں ملتی ہے، اینٹ، گارا، پتھر، آپ چاہتے ہیں کہ اسے اٹھائیں اور اپنے مخالفین کے ساتھ ساتھ ہر اس قوت کے سر پر دے ماریں جو آپ کے حصول اقتدار میں حائل ہو رہی ہے یا آپ کی معاون نہیں بن رہی۔
پہلی صورت بھی تشویشناک ہے اور دوسری بھی پریشان کن۔ میرے جیسا طالب علم اب یہ تو دیکھ سکتا ہے کہانی کہاں سے شروع ہوئی لیکن وہ یہ نہیں جان پا رہا کہ کہانی ختم کہاں ہو گی۔
ایک بات البتہ طے ہے کہ تحریک انصاف نے اپنے طرز عمل پر نظر ثانی نہ کی تو اسے ایک ڈراؤنے خواب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا۔