ٹرمپ تجارتی جنگ: پاکستان، انڈیا کیسے متحدہ محاذ بنا سکتے ہیں؟

امریکہ پر انحصار کم کر کے اگر پاکستان اور انڈیا ’معمول کے پڑوسی‘ بن جائیں تو ان کی باہمی تجارت 37 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔

12 اپریل، 2012 کو ایک انڈین ٹرک پاکستان میں سامان اتارنے کے بعد واہگہ بارڈر سے واپس انڈیا میں داخل ہو رہا ہے (اے ایف پی)

خوف ناک اور اچانک اضافے اور پھر ڈرامائی طور پر عارضی تاخیر کے ساتھ امریکہ کی اپریل میں دنیا پر مسلط کی گئی بے مثال محصولات کی یلغار نے جنوبی ایشیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

دنیا بھر کی مارکیٹیں منھ کے بل گر چکی ہیں اور بحالی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ حکومتیں بھی پریشانی کا شکار ہیں کیوں کہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری اور کروڑوں ملازمتیں خطرے میں ہیں۔

ہر کوئی تشویش میں مبتلا ہے۔ جنوبی ایشیا کے لیے بھی فکرمند ہونے کی سنجیدہ وجوہات موجود ہیں۔

ایشیا دنیا کا سب سے بڑا خطہ ہے جہاں 4.7 ارب لوگ بستے ہیں جس میں صرف جنوبی ایشیا کا حصہ دو ارب سے زائد ہے، جو اسے باقی ایشیا کے مقابلے میں دوسرا سب سے بڑا آبادی والا خطہ بناتا ہے۔

جنوبی ایشیا کی مجموعی معیشت کا حجم 50 کھرب ڈالر سے زائد ہے جو باقی ایشیا کے 450 کھرب ڈالر، یورپ کے 260 کھرب ڈالر اور شمالی امریکہ کے 300 کھرب ڈالر کے بعد عالمی معیشت کا سب سے بڑا حصہ ہے۔

اس سے قبل کہ صدر ٹرمپ اپنے محصولات کے نفاذ کو 90 دنوں کے لیے موخر کرتے، وہ پہلے ہی سب سے زیادہ محصولات جنوبی ایشیائی ممالک پر عائد کر چکے تھے جیسا کہ سری لنکا پر 44 فیصد، بنگلہ دیش پر 37 فیصد پاکستان اور نیپال پر 29 فیصد اور انڈیا پر 26 فیصد۔

یہ شرحیں ان ممالک کے لیے قلیل اور درمیانی مدت کے لیے بھی ناقابل برداشت ہیں۔ اگرچہ فی الوقت ان محصولات کا نفاذ عارضی طور پر روک دیا گیا ہے مگر یہ تلوار اب بھی جنوبی ایشیا کی معیشت پر لٹک رہی ہے۔

ہر ملک پر اب بھی 10 فیصد کی یکساں شرح عائد ہے جب تک کہ ٹرمپ اس شرح کو کم یا پھر سے بلند کرنے کا فیصلہ نہ کر لیں۔

پاکستان جیسے کچھ ممالک کے لیے امریکہ سب سے بڑا دو طرفہ تجارتی شراکت دار ہے جن کو اس فیصلے سے سب سے زیادہ نقصان کا امکان ہے۔

اگرچہ جنوبی ایشیا کے ہر ملک نے انفرادی سطح پر ان محصولات سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کرنا شروع کر دی ہے لیکن خطے کو طویل المدتی سوچ اپنانی ہو گی۔

بہتر راستہ یہ ہو گا کہ تمام ملک اجتماعی علاقائی ردعمل دیں جو انفرادی دھچکے کو کم کر سکتا ہے، بلکہ ایک متبادل ’ریجنومکس‘ (مقامی معیشت) کے ذریعے اس بحران کو ایک بڑے موقعے میں بدل دیں۔

اگرچہ علاقائی تنازعات اور بعض اوقات متضاد سیاسی ترجیحات کے باعث ایسا کرنا آسان نہیں لیکن مضبوط اقتصادی ترغیبات ہیں جو اسے ناگزیر بناتی ہیں۔

2024 میں جنوبی ایشیا کی جانب سے امریکہ کو برآمدات کا مجموعی حجم 83.6 ارب ڈالر تھا جبکہ امریکہ سے درآمدات 43.8 ارب ڈالر رہیں۔ یہ قریباً 40 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہے جو ان تعزیری محصولات کی اصل وجہ بنا۔

یہ تصور کرتے ہوئے کہ 90 دن بعد ٹرمپ جنوبی ایشیا پر محصولات برقرار رکھتے ہیں تو کیا یہ خطہ اپنے خطرے میں پڑے 40 ارب ڈالر کی برآمدی آمدن کو علاقائی تجارت بڑھا کر پورا کر سکتا ہے؟

جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان باہمی تجارت خطے کی کل عالمی تجارت کا محض پانچ فیصد ہے جو دیگر علاقائی بلاکس کے مقابلے میں بہت کم ہے جیسا کہ یورپی یونین کی باہمی تجارت 68 فیصد، شمالی امریکہ کا آزاد تجارتی معاہد 40 فیصد سے زیادہ اور آسیان کا 27 فیصد ہے۔

عالمی بینک کے مطابق جنوبی ایشیا میں باہمی تجارت کا حجم 23 ارب ڈالر ہے۔ رپورٹ کا کہنا ہے کہ اگر تجارتی رکاوٹیں کم کی جائیں تو یہ حجم تین گنا بڑھ کر 67 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ سطح سے 44 ارب ڈالر کا اضافہ ممکن ہے جو ممکنہ امریکی محصولات کے تحت پہنچنے والے 40 ارب ڈالر کے ممکنہ نقصان کو پورا کر سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جنوبی ایشیا اپنی ہی وسیع مقامی منڈی کو مسلسل نظرانداز کرتا ہے، اس کی بہترین مثال پاکستان اور انڈیا کے درمیان محدود تجارت ہے۔

خراب سیاسی و سفارتی تعلقات کے باعث ان دونوں ملکوں کا باہمی تجارتی حجم گذشتہ دہائی میں اوسطاً صرف 2.5 ارب ڈالر رہا۔

عالمی بینک کے مطابق اگر یہ دونوں ممالک ’معمول کے پڑوسی‘ بن جائیں تو ان کی باہمی تجارت 37 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ جنوبی ایشیا کو آخرکار اپنے خطے کی وسیع منڈی اور زبردست تجارتی امکانات کو نظرانداز کرنے اور نقصان پہنچانے کا رویہ ترک کرنا ہو گا۔

ہمیں ٹرمپ کی اس تجارتی جنگ کو اپنی تاریخی غلطی کو سدھارنے کا موقع بنانا چاہیے۔

لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ پاکستان اور انڈیا کے درمیان دیرینہ سیاسی و سفارتی تعطل نے سارک بلاک کو مفلوج کر رکھا ہے جو باہمی تنازعات کو ایجنڈے پر لانے کی اجازت نہیں دیتی اور گذشتہ کئی برسوں سے یہ تنظیم اپنی سالانہ سربراہی کانفرنس تک منعقد نہیں کر سکی۔

محصولات کا بحران ایسا مسئلہ ہے جو سارک ممالک کو مشترکہ فلاح اور اقتصادی انضمام کے اپنے بنیادی مقصد کی جانب واپس لے جانے کا باعث بن سکتا ہے۔

پاکستان اور انڈیا کی جانب سے اجلاس بلانے میں ہچکچاہٹ کی صورت میں کسی بھی رکن ملک یا رکن ممالک کو انفرادی یا اجتماعی طور پر وزرا تجارت کا اجلاس بلانا چاہیے تاکہ محصولات سے نمٹنے کے لیے علاقائی تجارت کے ذریعے مشترکہ حکمت عملی اور علاقائی انضمام کا روڈ میپ بنایا جا سکے۔

بشکریہ عرب نیوز پاکستان  

اس کالم کے مصنف عدنان رحمت ایک پاکستانی صحافی، محقق اور تجزیہ کار ہیں جو سیاست، میڈیا اور سائنس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ