رواں ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا ہے جس کا مقصد ’امریکہ کی کوئلے کی خوبصورت اور صاف صنعت‘ کو دوبارہ زندہ کرنا ہے تاکہ بجلی کی مانگ میں اضافے کو پورا کر سکے جو دیگر چیزوں کے علاوہ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔
تاہم یہ پرانی یادیں تازہ کرنے والا دباؤ اس حقیقت کو نظرانداز کرتا ہے جو 19ویں صدی کے مشہور برطانوی ناول نگار چارلس ڈکنز سے لے کر آج تک قابل فہم ہے کہ کوئلہ کبھی بھی صاف نہیں ہوتا۔
یہ نقطہ نظر اس بات کو بھی نظرانداز کرتا ہے کہ امریکہ میں کوئلے کی صنعت گذشتہ 20 برس سے زوال کا شکار کیوں ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہ مصنوعی ذہانت اور اسے چلانے والے ڈیٹا سینٹرز کو مستقبل میں کتنی توانائی درکار ہو گی۔
کوئلہ ایک گندا کاروبار ہے۔ جیسے ہی آپ اسے دنیا کے سب سے بڑے دھماکہ خیز آلات کی مدد سے کھودنا شروع کرتے ہیں تو اس سے میتھین گیس کا اخراج ہوتا ہے جس نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں 20 سالوں میں 82 گنا تیز رفتار سے ہمارے سیارے کے درجہ حرارت کو بڑھایا ہے۔
ویسٹ ورجینیا اور کینٹکی کے ایپالاچین پہاڑوں میں کوئلہ نکالنے کا سب سے مقبول طریقہ یہ ہے کہ پہاڑوں کی چوٹیاں اڑا دی جاتی ہیں، ندیوں کو پتھر اور مٹی سے بھر دیا جاتا ہے اور قریبی وادیوں میں آلودگی اور بھاری دھاتیں پھیل جاتی ہیں۔
پھر جب آپ کوئلہ جلا کر بجلی پیدا کرتے ہیں تو آپ فوری طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ ماحول میں چھوڑتے ہیں، جو موسمیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا سبب ہے۔
فی الحال جلانے والا کوئلہ اس وقت امریکہ کے کل کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا تقریباً پانچواں حصہ ہے، ساتھ ہی دوسری فضائی آلودگی بھی پیدا ہوتی ہیں جو دمہ اور سانس کی بیماریوں کا سبب بنتی ہیں۔
1970 کے کلین ایئر ایکٹ (صاف ہوا کے قانون) کی بدولت — جسے ٹرمپ کے پسندیدہ رپبلکن رہنماؤں میں سے ایک، رچرڈ نکسن، نے قانون بنایا تھا — کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں سے خارج ہونے والی سلفر کی مقدار میں نمایاں کمی آئی ہے۔
اس سطح کو مزید کم کرنے کے لیے باراک اوباما نے بھی کئی اقدامات متعارف کرائے تھے لیکن یہ اقدامات پہلے ہی ٹرمپ کے نشانے پر آ چکے ہیں، جیسے کہ وہ اہم اصلاحات بھی جن کا مقصد کوئلہ کان کنوں کو گرد کے مضر اثرات سے بچانا تھا۔
کول سیکٹر کی ایک اور حقیقت یہ ہے کہ یہ 2008 سے زوال پذیر ہے اور اب کوئلے سے چلنے والے پلانٹس امریکہ کی صرف 15 فیصد بجلی پیدا کرتے ہیں۔ 2008 میں امریکہ ہر سال ایک ارب ٹن سے زائد کوئلہ پیدا کرتا تھا۔
2023 تک پیداوار نصف ہو چکی تھی اور ٹرمپ کی صنعت کے لیے حمایت کے باوجود، ان کی پہلی مدت میں اس شعبے میں 10 ہزار سے زائد نوکریاں ختم ہو گئیں۔
آج امریکہ میں صرف 45 ہزار سے زیادہ لوگ کوئلے کی کان کنی کرتے ہیں، جو دوسرے شعبوں جیسے فاسٹ فوڈ کی ملازمتوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ مثال کے طور پر مکڈونلڈز میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگ ملازمت کرتے ہیں۔
اب وقت بدل چکا ہے۔ وہ کانیں پرانی ہو چکی ہیں، پیداوار کم ہو رہی ہے اور امریکہ کا توانائی کا منظر نامہ ڈرامائی طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔
شیل گیس میں ترقی کی بدولت قدرتی گیس امریکہ میں بجلی بنانے کا بڑا ذریعہ بن چکی ہے۔ اسی دوران قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی قیمتیں گر چکی ہیں اور مریکہ میں بجلی پیدا کرنے کے مجموعی ذرائع میں ہوا اور سورج کی توانائی اب کوئلے سے زیادہ حصہ ڈال رہے ہیں جیسا کہ کینیڈا، جرمنی اور برطانیہ میں ہو چکا ہے۔
اس ہفتے تک یہی سمجھا جا رہا تھا کہ کوئلے کی صنعت کا یہ آخری اور مستقل زوال اسی طرح جاری رہے گا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جس دن ٹرمپ نے اپنا ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا، اسی دن امریکی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن نے اپنی قلیل مدتی توانائی کی رپورٹ جاری کی، جس میں پیش گوئی کی گئی کہ 2026 تک کوئلے کی پیداوار میں مزید نو فیصد کمی آئے گی۔
انہوں نے نوٹ کیا کہ یہ کمی کوئلے کی قدرتی گیس اور قابل تجدید توانائی کے ساتھ بجلی کی پیداوار کے شعبے میں جاری مسابقت" کی وجہ سے ہو رہی ہے۔
اگرچہ کوئلہ امریکہ کی توانائی کے نظام میں کم ہوتا جا رہا ہے، لیکن اس کی جگہ ایک نیا چیلنج آ سکتا ہے۔ یعنی، نئے ذرائع توانائی جیسے مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور ڈیٹا سینٹرز کی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات، جو مستقبل میں توانائی کی طلب کو نئے طریقے سے متاثر کر سکتی ہیں۔
مصنوعی ذہانت اور بٹ کوائن مائنگ سے پہلے ہی امریکہ میں ڈیٹا سینٹرز کی بجلی کی کھپت میں زبردست اضافہ کر رہے ہیں اور کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ امریکہ کے گرڈ کے لیے مستقبل میں ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔
سب سے بڑی مشکلات میں سے ایک یہ ہے کہ چیٹ جی پی ٹی جیسی اے آئی ٹیکنالوجیز کو چلانے اور تربیت دینے کے لیے بے پناہ کمپیوٹنگ طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ابتدائی تخمینوں کے مطابق ہر اے آئی سے پوچھے جانے والے سوال میں ایک اوسط گوگل سرچ کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ توانائی استعمال ہو سکتی ہے۔ تاہم جمنی چیٹ بوٹ نے اس پر قابو پانے کی کوشش ضرور کی ہے۔
اگر آپ اس رجحان کو دیکھیں، تو یہ سمجھنا درست ہے کہ اے آئی کی توانائی کی مانگ کو روکنا تقریباً ناممکن ہو سکتا ہے۔
جنوری میں، ٹرمپ نے مصنوعی ذہانت میں غلبے کے لیے اپنا منصوبہ اعلان کیا جس کے لیے ’سٹارگیٹ‘ نامی ایک سپر پروجیکٹ پر 500 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔
رواں ہفتے عالمی توانائی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق جب تک یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوتا، دنیا کے ڈیٹا سینٹرز کی بجلی کی کھپت اگلے 5 سالوں میں دوگنا ہو سکتی ہے۔
امریکہ میں ڈیٹا سینٹرز کی بجلی کی ضروریات 2030 تک اسٹیل، سیمنٹ اور کیمیکلز سمیت تمام دیگر توانائی استعمال کرنے والی بڑی صنعتوں سے تجاوز کر سکتی ہیں۔
فی کس بنیاد پر یہ اندازہ ہے کہ امریکہ میں ڈیٹا سینٹرز اتنی بجلی استعمال کر سکتے ہیں جتنی کہ ایک شخص کو لاس اینجلس سے نیو یارک اور واپس جانے کے لیے ایک الیکٹرک گاڑی کے لیے درکار ہوگی۔
لیکن یہ ابتدائی تخمینے غیر مستند ہیں۔ جزوی طور پر اس لیے کہ کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ اے آئی کا مستقبل کیا ہوگا، خاص طور پر ان ایجادات کے حوالے سے جو شاید ابھی قریب ہی ہوں اور منظرعام پر آنے والی ہوں۔
مزید یہ کہ اس انڈسٹری میں اختراع عام بات ہے جیسا کہ آئرلینڈ کی ایئرگرڈ کے سینیئر پالیسی ساز کونال کیمپبل نے اس ہفتے نوٹ کیا: ’2015 اور 2022 کے درمیان عالمی انٹرنیٹ ٹریفک میں 600 فیصد اضافہ ہوا لیکن تکنیکی بہتری کی بدولت ڈیٹا سینٹرز کے ذریعے استعمال ہونے والی توانائی میں 70 فیصد سے بھی کم اضافہ ہوا۔‘
جب کہ امریکہ کی بڑی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں جلد اے آئی انڈسٹری کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے لیے اربوں ڈالر لگانے کے لیے تیار ہیں، چین اور انڈیا میں ان کے حریف پہلے ہی توانائی کی بچت میں ممکنہ بڑی تبدیلیوں کو اجاگر کر چکے ہیں۔
چین کی ڈیپ سیک کی ابتدائی جانچ کے مطابق عام سوالات کو حل کرنے کے لیے یہ چیٹ جی پی ٹی کے مقابلے میں 50 سے 75 فیصد کم توانائی استعمال کرتی ہے کیونکہ چیٹ جی پی ٹی زیادہ جدید اور توانائی زیادہ خرچ کرنے والے پروسیسرز استعمال کرتا ہے۔
توانائی کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر کئی ٹیک کمپنیاں انتباہ دے رہی ہیں اور حکومتوں سے نیو کلیئر ری ایکٹرز لگانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
مائیکروسافٹ نے پہلے ہی ’ کنسٹیلیشن انرجی‘ کے ساتھ مل کر پنسلوانیا کے تھری مائل آئی لینڈ نیو کلیئر پلانٹ میں ایک جوہری ری ایکٹر کو دوبارہ شروع کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور دوسری کمپنیاں اپنے پاور سپلائی کو محفوظ بنانے کے لیے اہم سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
لیکن حقیقت اور سرمایہ کاروں کی قیاس آرائی کے درمیان لائن دیکھنا مشکل ہے۔ یہ سمجھنا کہ اے آئی انڈسٹری کس حد تک دنیا کو بدلنے والی ہوگی، ہمارے دور کے سب سے اہم مسائل میں سے ایک ہے، اور اس کے بڑھنے کے ساتھ توانائی کے شعبے پر اس کے جو اثرات آئیں گے وہ آنے والی دہائیوں میں دنیا کی توانائی کی پیداوار کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
کوئلے پر انحصار کرنے والی کچھ ریاستوں میں کوئلے کی صنعت نئے ڈیٹا سینٹرز کی مانگ میں فوری اضافے کو پورا کرنے میں مدد کر سکتی ہے لیکن یہ دیکھنا مشکل ہے کہ سولر اور ہوا کی لاگت کی افادیت کو کیسے طویل مدت میں نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کو رواں ہفتے کوئلے کے شعبے کو بحال کرنے کے لیے ایک ایگزیکٹو آرڈر کی ضرورت پڑی کیونکہ آزاد منڈی، اور ملک کی سرکردہ توانائی ایجنسی، پہلے ہی اس کے زوال کی نشاندہی کر چکی تھی۔
ٹرمپ کا ایگزیکٹیو آرڈر شاید وقتی طور پر کوئلے کی صنعت کو کچھ فائدہ دے سکتا ہے مگر طویل مدتی کامیابی کی کوئی ٹھوس امید نظر نہیں آتی۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent