یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یو ایس ماسٹرز میں گالف دیکھنے، خود گالف کھیلنے، مار-اے-لاگو میں میزوں کا چکر لگانے اور کھانے والوں سے مصافحہ کرنے میں مصروف ڈونلڈ ٹرمپ کو برٹرینڈ رسل کا مطالعہ کرنے کا زیادہ وقت نہیں ملا ہو گا۔
یہ افسوس کی بات ہے کیوں کہ یہ بات خود ان کے اور امریکہ کے بھی کام آ سکتی تھی کہ اگر وہ برطانوی فلسفی کی 1922 میں شائع ہونے والی کتاب دا پرابلم آف چائنہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے، چاہے صرف اس ایک اقتباس کی حد تک ہی سہی یعنی
’چینی دنیا کی سب سے زیادہ صابر قوم ہے۔ وہ صدیوں کے بارے میں ویسے سوچتی ہے جیسے دوسری قومیں دہائیوں کے بارے میں سوچتی ہیں۔ یہ قوم بنیادی طور پر ناقابل شکست ہے اور انتظار کا حوصلہ رکھتی ہے۔‘
ایک اور مختصر سا جملہ مینڈارن زبان میں ہے جو شاید ڈونلڈ ٹرمپ کی توجہ بھی حاصل کر لے۔ ’چی کھو‘ ہے، جس کا مطلب ہے ’کڑوا گھونٹ پینا‘ یعنی بغیر شکایت کے تکلیف برداشت کرنا۔
ایسے ہی محاورے چین کی ثقافت اور طرز فکر کی عکاسی کرتے ہیں، جیسا کہ رسل نے مشاہدہ کیا۔
آج یہی طرز فکر بیجنگ کی اس حکمت عملی کے پیچھے کارفرما ہے جو ٹرمپ کی جانب سے دنیا کی سب سے زیادہ آبادی ملک کے ساتھ معاشی مسابقت کو ہوا دینے کے ردعمل میں اپنائی گئی۔
امریکہ کے صدر پہلے ہی پیچھے ہٹ چکے یا یوں کہیے کہ پیچھے ہٹتے ہوئے نظر آئے۔ جمعے کو چین نے ٹرمپ کے عائد کردہ ٹیرف کا جواب دیتے ہوئے امریکی درآمدات پر ڈیوٹی 84 فیصد سے بڑھا کر 125 فیصد کر دی۔
اختتام ہفتہ پر سامنے آیا کہ امریکہ نے اپنے مجوزہ ٹیرف میں سمارٹ فونز، کمپیوٹرز اور دیگر برقی آلات کو شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ کسی حد تک پسپائی محسوس ہوا؟ نہیں، امریکی وزیر تجارت ہاورڈ لٹ نک نے کہا۔ ان مصنوعات پر جلد ہی وہ ٹیکس عائد کیے جائیں گے جو مخصوص ممالک پر لگائے جانے والے ٹیرف سے الگ ہوں گے۔
پھر ٹرمپ نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا کہ ان اشیا پر کوئی رعایت نہیں دی گئی۔ پھر ٹرمپ نے بڑے حروف میں لکھا: ’ہم قومی سلامتی سے متعلق آئندہ ٹیرف تحقیقات میں سیمی کنڈکٹرز اور مکمل الیکٹرانکس سپلائی چین کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘ پھر بھی اس وقت چھوٹ دینا ایک طرح کی پسپائی ہی محسوس ہوئی۔
صدر شی نے، جیسا کہ ان کا معمول ہے، کچھ نہیں کہا۔ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں بھی اسی طرز عمل کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ایک طرف سے طاقت کا مظاہرہ اور شور شرابہ اور دوسری طرف سے خاموش ثابت قدمی۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ چین اندر سے ہل نہیں رہا ہو گا۔ ٹرمپ اور ان کے قریبی حلقے کا اندازہ یہ ہے کہ چین کو امریکہ کی ضرورت ہے۔ اس بڑے تجارتی عدم توازن کے بغیر، جس کا وہ بار بار ذکر کرتے ہیں، چین کے پاس اپنی برآمدات کے لیے برابر کی کوئی مارکیٹ موجود نہیں۔
ان کا خیال ہے کہ شی اور ان کے ساتھیوں کی خوشحالی کا دارومدار امریکہ پر ہے تاکہ وہ اپنی آبادی کی خوراک کی ضروریات پوری کر سکیں اور ساتھ ہی تیزی سے بڑھتے ہوئے متوسط طبقے کی دولت میں اضافہ جاری رکھ سکیں۔
جہاں تک تجارت کا تعلق ہے، امریکہ بمقابلہ چین کوئی نئی بات نہیں۔ درحقیقت، ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت صدارت میں ہی دونوں ملکوں کے درمیان موجود عدم توازن کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
جواب میں چین نے اپنی حکمتِ عملی ’ڈوئل سرکولیشن‘ یا ’نئے ترقیاتی ماڈل‘ کے تحت یہ راستہ اپنایا کہ اندرونی کھپت اور خودانحصاری کو بڑھایا جائے، جب کہ غیر ملکی تجارت کو بھی جاری رکھا جائے۔
ٹرمپ اب ایک بار پھر کوشش کر رہے ہیں، مگر اس بار ان کا انداز کم مرکوز اور زیادہ الجھا ہوا ہے۔ وہ تین مختلف مقاصد کو ایک ہی ہلے میں سمیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں یعنی وفاقی آمدنی میں اضافہ کرنا۔
کینیڈا اور میکسیکو جیسے ممالک کو مالیاتی وجوہات کے علاوہ، مثلاً منشیات کی فراہمی جیسے مسائل پر سزا دینا اور تجارتی توازن کو کسی حد تک بحال کرنا۔ اس عمل میں تین مختلف مشاورتی ٹیمیں شامل ہیں، جس سے الجھن کی صورت پیدا ہو گئی۔
اس عمل نے معیشت کو سیاست کے ساتھ ملانے کی بھی کوشش کی حالاں کہ جہاں ٹیرف کا معاملہ ہو، وہاں یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ نہیں چل سکتیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماہرین معیشت کو ہمیشہ یہ سکھایا جاتا ہے کہ ٹیرف عائد کرنا خراب فیصلہ ہے۔ نہ اسے نافذ کرنا چاہیے اور نہ ہی اس کا جواب دینا چاہیے۔
لیکن ٹرمپ کا ماننا ہے کہ انہیں امریکہ میں سیاسی حمایت حاصل ہے، اور زیادہ تر امریکی ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
ٹرمپ نے بار بار اشارے دیے تھے کہ یہ کارروائی ہونے والی ہے، اس لیے چینی خود کو تیار کرنے میں کامیاب رہے۔ اب جب کہ وہ پہلا وار کر چکے، چین خاموشی سے یہ دیکھ سکتا ہے کہ امریکہ کس طرح ایک ہی میزائل سے تین اہداف کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔
جب ٹرمپ چینی تجارتی منافعے پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، چین پر سکون اور ثابت قدم رہ سکتا ہے، اس یقین کے ساتھ کہ اس کے پاس ایک اہم پتہ موجود ہے۔
یعنی امریکہ کے سرکاری قرضے کا بڑا حصہ اس کے پاس ہے۔ اس کے برعکس برطانیہ نے شاید اپنی واحد چال ابتدا میں ہی چل دی، جب اس نے ٹرمپ کو دوسرے سرکاری دورے کی دعوت دی۔
چین ممکن ہے کہ براہ راست امریکی ڈالر فروخت نہ کرے، مگر اپنے سخت ردعمل کا اظہار دوسرے طریقوں سے کر سکتا ہے۔ مثلاً امریکہ میں سرمایہ کاری کی رفتار سست کر کے، کم پیسہ لگا کر یا سرمایہ کسی اور جانب موڑ کر۔
چین کے ہاتھ میں یہ سلامتی بھی ہے کہ دنیا بھر میں پیداواری عمل پر اس کی اجارہ داری، امریکہ کی مالیاتی خدمات اور مصنوعی ذہانت پر برتری کا توڑ ہے۔
وہ اس انتشار سے بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے جو امریکہ کے بے ربط اور ادھر اُدھر ہاتھ مارنے والے رویے سے مزید بڑھ گیا ہے۔
یورپ پہلے ہی ایسے اشارے دے رہا ہے کہ وہ بیجنگ کے ساتھ قربت بڑھانے کے لیے تیار ہو رہا ہے۔ دونوں بڑی طاقتوں کو نقصان ہوگا۔
وہ ایک دوسرے پر اتنا انحصار کرتی ہیں کہ اس کے بغیر گزارا ممکن نہیں۔ مگر یہ سوچنا شاید غلط ثابت ہو کہ امریکی بڑھکیں فتح کی علامت ہیں۔ انہیں بالآخر کسی نہ کسی مفاہمت پر پہنچنا ہی ہوگا۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ مفاہمت اس انداز میں ہو کہ دونوں لیڈروں کی ساکھ متاثر نہ ہو۔
چاہے ٹرمپ کچھ بھی کہیں اور شی کچھ نہ کہیں لیکن تقریباً یقینی طور پر ان کے مقابلے کا رخ اسی جانب ہے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent