جے یو آئی تحریک انصاف کی مجبوری؟

مولانا صاحب حتمی فیصلہ 20 اپریل کے بعد کریں گے لیکن ان کی پارٹی کے اندر تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ جے یو آئی نے تحریک انصاف سے کچھ تحریری گارنٹیاں مانگی ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام کے صدر مولانا فضل الرحمن 23 جولائی 2023 کو کراچی میں ایک ریلی کے دوران خطاب کر رہے ہیں (رضوان تبسم/ اے ایف پی)

تحریک انصاف کا مسئلہ یہ ہے کہ مقبولیت کے عروج پر پہنچی، برسراقتدار رہی لیکن خود کو ایک سیاسی جماعت نہ بنا سکی۔

پوری پارٹی ایک ہی شخصیت یعنی عمران خان کے گرد گھومتی ہے، جس کی واضح مثال یہ ہے کہ جیسے ہی وہ جیل گئے، پارٹی میں سے جیسے جان ہی نکل گئی۔ تاش کے پتوں کی طرح بکھرنے والی قیادت ایک دوسرے کو پڑ گئی۔

خیبر پختونخوا، جو کہ پارٹی کا بیس ہے، وہاں کم از کم تین دھڑے بن چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے صوبائی وزیر خزانہ اور وزیر صحت رہنے والے تیمور جھگڑا پر اربوں روپے کرپشن کے سنگین الزامات نے یہ تو ثابت کر دیا کہ گذشتہ 12 سال میں تحریک انصاف نے پختونخوا کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تیمور جھگڑا کرپشن میں ملوث تھے تو پانچ سال انہیں دو اہم وزارتیں کیسے دی گئیں؟

اسی طرح عاطف خان اور شہرام ترکئی نے وزیراعلیٰ پر انہیں اور اسد قیصر کو جان بوجھ کر صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ نہ دینے اور تیمور جھگڑا اور کامران بنگش کو الیکشن ہروانے کے الزامات لگا دیے۔ جس پارٹی میں یہ سرکس جاری ہو، ان کی گورننس اور پرفارمنس کا کیا حال ہو گا، آپ خود ہی اندازہ لگا لیں۔

خوشی، غمی اور عیدین پر آبائی شہر پشاور جانے کا موقع ملتا ہے، آپ یقین مانیں ہر دوسرے شخص کی زبان پر صوبے میں کرپشن کی داستانیں ہیں۔ نوکریاں اور ٹرانسفرز بک رہے ہیں، ہر کام کا ایک پرائس ٹیگ ہے، وہ ادا کریں اور کام کروائیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کو یہ سب پتہ ہے؟ انہیں نہ صرف پتہ ہے بلکہ اچھی خاصی تفصیلات بھی معلوم ہیں، لیکن انہیں صفائی یہ دی گئی کہ ’خان صاحب، یہ احتجاجوں اور جلسوں پر کروڑوں روپے کے خرچے جیب سے کون اور کب تک برداشت کر سکتا ہے۔‘

ایک صوبائی وزیر شکیل خان صوبے میں کرپشن کی داستان لے کر خان صاحب کے پاس گئے، الٹا ان بیچارے کو وزارت سے ہٹوا دیا گیا۔

دوسری جانب گورننس اور پرفارمنس کی یہ حالت کہ صرف دارالحکومت پشاور آلودہ ترین شہر بن چکا ہے، بی آر ٹی جیسے ناقص اور ناکام منصوبے نے شہر کی ٹریفک کا ستیاناس کر دیا ہے۔ صفائی کے ناقص انتظامات اور نکاسی آب کے مسائل کی وجہ سے پشاور جیسا پھولوں کا شہر اب رہنے کے قابل ہی نہیں رہا۔

باقی صوبے کی تو بات نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔ مسلسل تین بار ایک صوبے نے جس پارٹی پر اعتماد کا اظہار کیا، اس کا یہ سلوک ناروا ہی کہلاتا ہے۔ اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا تحریک انصاف دوبارہ اگر برسر اقتدار آئے تو غلطیوں سے سیکھ کر اس بار واقعی ایک ’نیا پاکستان‘ بنا پائے گی؟

میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ آپ میرے ساتھ ایک دفعہ خیبر پختونخوا چلیں، خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر فیصلہ کریں کہ کیا 12 سال میں وہاں نیا پاکستان بن چکا ہے؟ اگر آپ کو ٹوٹا پھوٹا، بدامنی اور دہشت گردی کا شکار خیبر پختونخوا کہیں سے بھی نیا پاکستان لگے، تو پھر یہ نیا پاکستان آپ کو مبارک ہو۔

ایک طرف پنجاب اور سندھ ہیں، جو نہ صرف ڈیلیور کر رہے ہیں بلکہ آپس میں صوبے کے عوام کے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ دوسری جانب 12 برس سے صوبے میں برسراقتدار جماعت آپس میں دست و گریباں ہے۔ افسوس کا مقام ہے ایک ایسی جماعت کے لیے جس پر عوام نے بار بار اعتماد کا اظہار کیا۔

مرکزی قیادت کی بھی بات کریں تو سلمان اکرم راجہ اور بیرسٹر گوہر دست و گریباں، وہ بھی کھلے عام۔

سلمان اکرم راجہ نے تو بیرسٹر علی گوہر جیسے نفیس اور مہذب انسان کی وفاداری پر سوال اٹھا کر حد ہی کر دی۔ وجہ صرف یہ کہ انہوں نے بیرسٹر گوہر کے ہمراہ عمران خان سے اس دن ملاقات کی، جس دن سلمان اکرم راجہ کو ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔

مرکزی قیادت کی اس غیر سنجیدگی اور پبلک میں ایک دوسرے کے خلاف بیانات نے ایک پاپولر جماعت کو ایسا اکھاڑہ بنا دیا ہے، جہاں کسی کی بھی عزت کسی بھی وقت تار تار ہو سکتی ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے سلمان اکرم راجہ سے بہت پہلے تحریک انصاف جوائن کی تھی، ان کو صرف ایک ہی ملاقات کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کا اطاعت کنندہ بنا دیا گیا۔

اس ساری صورت حال کے تین بڑے نقصانات میں سر فہرست خیبر پختونخوا کے عوام کو ڈیلیور نہ کرنا ہے، جو کہ انصاف کے نام پر بننے والی جماعت کی سراسر ناانصافی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ پارٹی اس وقت کسی بڑی احتجاجی تحریک شروع کرنے کے قابل نہیں رہی اور یقینی طور پر وجہ اندرونی اختلافات اور پھر ان کا آئے روز پبلک ہونا۔

تیسرا بڑا نقصان ڈائی ہارڈ ورکرز کا بددل اور مایوس ہونا ہے، 26 نومبر کے بعد تحریک انصاف کا کارکن اب باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔

ایشو یہ ہے کہ پارٹی میں ہر رہنما عمران خان کے بعد خود کو ہی بڑا لیڈر سمجھتا ہے، اور ایک آدھ کے علاوہ ان میں سے کوئی نہیں چاہتا کہ عمران خان کی رہائی ہو، اس کی وجہ بڑی سادہ سی ہے اور وہ یہ کہ ان کی دکانیں بند ہو جائیں گی۔

مولانا فضل الرحمان صاحب سے اکثر و بیشتر ملاقات کا موقع میسر آ جاتا ہے، سیاسی تدبر اور دوراندیشی کی بات کریں تو ہماری تاریخ میں ان کے پائے کے سیاست دان بہت ہی کم پیدا ہوئے ہیں۔ ان سے استفسار کیا کہ کیوں نہیں آپ تحریک انصاف کے ساتھ گرینڈ الائنس میں جا کر اس کی سربراہی کر لیتے، جو کہ عمران خان نے آل ریڈی آپ کو آفر بھی کر دی ہے۔

مولانا صاحب نے مسکرا کر ایک لطیفہ سنایا، جسے آف دی ریکارڈ قرار دے کر سنسر کر لیتا ہوں، لیکن جواب یہ دیا کہ تحریک انصاف کے دس لوگ آ کر ملتے ہیں، ہر کوئی کہتا ہے خان سے مل کر آیا ہوں اور آپ کے لیے پیغام لایا ہوں، لیکن دس کے دس پیغامات مختلف ہوتے ہیں۔ مولانا کے الفاظ میں ’حضرت، اب تحاریک تو ایسی نہیں چلتیں، ہم کس کی بات پر یقین کریں؟ ہم آنکھیں بند کر کے ویسے ہی میدان میں کود پڑیں؟‘

بہرحال، مولانا صاحب حتمی فیصلہ 20 اپریل کے بعد کریں گے لیکن ان کی پارٹی کے اندر تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔

جے یو آئی نے تحریک انصاف سے کچھ تحریری گارنٹیاں مانگی ہیں۔ ہمارے ذرائع کے مطابق عمران خان آئندہ انتخابات میں جے یو آئی کو خیبر پختونخوا میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور اپوزیشن کی سربراہی کی پیشکش کر چکے ہیں، لیکن مولانا نہیں مانے۔ اس وقت جے یو آئی کو اندازہ ہے کہ اگر اڈیالہ جیل کی چابی تک رستہ کوئی پار کر سکتا ہے تو وہ ان کی جماعت ہے۔

بالفاظ دیگر، جے یو آئی اس وقت تحریک انصاف کی مجبوری ہے، اور جب مولانا مجبوری بن جاتے ہیں تو سیاسی بارگیننگ میں وہ حاصل کر لیتے ہیں، جس کا احساس بہت سے لیڈران کو بعد میں ہوتا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ