یہ تین اور چار مارچ، 1924 کی درمیانی رات تھی۔ آبنائے باسفورس پر واقع محل ڈولماباچے مکمل خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔
محل کے مکین حسب معمول کھانا کھانے اور دیگر شبینہ مصروفیات سے نپٹنے کے بعد خواب گاہوں میں سما چکے تھے۔
لیکن ابھی انہیں نیند کی آغوش میں پہنچے زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ محل کے باہر ایک مجمع اکٹھا ہونے لگا۔ ان لوگوں میں سرکردہ شخصیت استنبول کے پولیس چیف کی تھی جس کے پاس ابھی ابھی انقرہ کی گرینڈ نیشنل اسمبلی سے پاس ہونے والا قانون پہنچا تھا۔
اس قانون کی رو سے جمہوری حکومت نے حکم دیا تھا کہ خلیفہ اور ان کے خاندان کو جتنا جلد ہو سکے، ملک سے نکال دیا جائے۔ چنانچہ یہ اہلکار آدھی رات کے وقت محل میں داخل ہوئے اور خلیفہ کو جگا دیا۔
معروف مورخ برنارڈ لیوس اپنی کتاب ’دی ایمرجنس آف ماڈرن ٹرکی‘ میں لکھتے ہیں کہ اہلکاروں نے خلیفہ کو ہدایت کی کہ وہ علی الصبح پانچ بجے ترکی سے نکل جائیں۔ خلیفہ جذبات سے مغلوب ہو گئے لیکن پھر جلدی سے انہوں نے اپنی عظمت و خلافت کو اس حد تک بحال کیا کہ اپنا کچھ ذاتی سامان باندھنے کی اجازت طلب کی اور درخواست کی کہ ان کے حرم کی عورتوں کے گزارے کا بندوبست کیا جائے۔
لیکن حکومت اس خوف کا شکار تھی کہ کہیں صبح یہ خبر سننے کے بعد لوگ بغاوت نہ کر دیں، چنانچہ رات کے اندھیرے میں ہی اس معاملے کو نپٹانا ضروری تھا۔ خلیفہ کو بعجلت کار میں بٹھا کر نزدیکی شہر ’چاتالجا‘ پہنچایا گیا اور وہاں سے شام کو بذریعہ ریل گاڑی سوئٹزرلینڈ روانہ کر دیا گیا۔
لیکن شاید خلیفہ کے لیے سوئٹزرلینڈ بھی جائے پناہ نہیں تھی۔ ریل گاڑی سوئٹزرلینڈ پہنچی تو 600 سال تک یورپ و ایشیا پر راج کرنے والے خاندان کے وارث اور دس کروڑ مسلمانوں کے رہنما خلیفہ عبدالمجید کو سرحد پر اس وجہ سے روک دیا گیا کہ جس شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں اسے سوئٹزر لینڈ میں داخلہ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
سوئس قانون کے مطابق کسی مرد کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت نہیں تھی۔ تاہم کچھ مذاکرات کے بعد اور عہد رفتہ کی عظمت کا احساس کرتے ہوئے خلیفہ کو عارضی طور پر داخلے کی اجازت دے دی گئی لیکن یہ شرط رکھی گئی کہ خلیفہ کی ازدواجی حالت کے بارے میں بعد ازاں تحقیقات کی جائیں گی۔
یہ سب کیسے ہوا، آئیے تاریخ کی راہداریوں سے دیکھتے ہیں۔
لارڈ پیٹرک کنروس اپنی کتاب ’اتا ترک: ری برتھ آف اے نیشن‘ میں لکھتے ہیں کہ ترکی میں برسراقتدار قوم پرستوں اور ان کے رہنما مصطفیٰ کمال کی عثمانی بادشاہت اور خلافت کے ساتھ مخاصمت کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں تھی۔
پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ نے فاش شکست کھائی تو فاتح اتحادیوں نے اس کے بچے کھچے حصوں کی بندر بانٹ شروع کردی۔ سات سال کی مسلسل جنگ کے بعد ترک قوم میں کسی مزاحمت کے لیے سکت باقی نہیں تھی۔
ایسے حالات میں جبکہ سلطان عبدالوحید اور اس کی حکومت سارا کچھ اتحادیوں کے حوالے کر کے دامن جھاڑ چکے تھے، ترک فوج میں کچھ عناصر ایسے تھے جو اتنی آسانی سے ملک ہاتھ سے دینے پر راضی نہیں تھے۔
چنانچہ ملک کے اندرورنی علاقوں میں کئی چھوٹے بڑے لشکر وجود میں آ گئے جو اتحادیوں کے خلاف مزاحمت پر آمادہ تھے۔ ان لشکروں کو درپردہ چند جرنیلوں کی حمایت حاصل تھی جو انہیں سرکار کے خلاف تحفظ فراہم کرتے تھے۔
انہیں میں ایک جرنیل مصطفیٰ کمال بھی تھا جو جنگ عظیم کے دوران ایک ہیرو کے طور پر ابھرا تھا۔ وہ اب سلطان کے اے ڈی سی کے عہدے پر فائض تھا اگرچہ درپردہ اس کی ہمدردیاں مزاحمتی فوج کے ساتھ تھیں۔
یہ مصطفیٰ کمال کی زندگی میں بے عملی کا زمانہ تھا۔ وہ انگریزوں کی نظر میں مشتبہ ہو چکے تھے۔ اس کا نام ان افراد کی لسٹ میں شامل تھا جنہیں انگریز گرفتار کر کے مالٹا کی طرف جلا وطن کرنا چاہتے تھے۔
دوسری طرف ملازمت میں بھی وہ ’افسر بکار خاص‘ بن چکے تھے۔ کنروس کے بقول ’’وہ بہت اداس تھے اور بیمار رہتے تھے۔ ان کے چہرے پر جھریاں پڑ گئی تھیں اور بال سفید ہو گئے تھے۔
ان کے پاس پیسوں کی کمی رہتی تھی۔ اس کا لباس کچھ بوسیدہ تھا اور اس کے جوتے ایڑی سے گھس گئے تھے۔ اس کا کوئی دوست نہیں تھا اور وہ ترکوں اور انگریزوں، دونوں کی نظر میں مشتبہ ہو چکے تھے۔
وہ سڑکوں پر بلا وجہ گھومتے یا کافی ہاؤس میں بیٹھے رہتے۔ وہ دکھی اور نڈھال تھے۔ انہیں نہ کوئی امید تھی نہ کوئی منصوبہ تھا۔‘
انسان کا وقت برا ہو تو صحیح فیصلے بھی غلط ثابت پڑتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ سلطان عبدالوحید کے ساتھ بھی ہوا۔
سلطان نے اپنی حکومت اور اتحادی قوتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ ملک کے طول و عرض میں چلنے والی ان بغاوتوں کو کچلنے کے لیے کسی افسر کو وہاں بھیجا جائے جو مقامی سطح پر ان مزاحمتی قوتوں کے ساتھ نپٹ سکے۔
لارڈ پیٹرک نے لکھا ہے کہ اس اہم مہم کے لیے جب نام طلب کیے گئے تو کسی نے مصطفیٰ کمال کا نام تجویز کر دیا۔ حکومت کو ان پر اعتبار نہیں تھا اس لیے کچھ دنوں تک یہ کشمکش چلتی رہی کہ انہیں گرفتار کر کے جلاوطن کیا جائے یا گورنر بنا دیا جائے۔
کابینہ میں یہ معاملہ پیش ہوا تو شیخ الاسلام نے بھی اس بنا پر اس کی مخالفت کی کہ مصطفیٰ کمال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خلافت کو منسوخ کر دیں گے اور مذہب پر پابندی لگا دیں گے۔
تاہم کابینہ نے 30 اپریل، 1919 کو اسے گورنری کا پروانہ دے کر شورش زدہ علاقے میں بھیج دیا۔ اس فیصلے کا نتیجہ وہی ہوا جو ہو سکتا تھا۔
مصطفیٰ کمال نے اناطولیہ پہنچ کر تمام مزاحمتی گروہوں کو اپنی قیادت میں اکٹھا کیا اور جنگ آزادی کا اعلان کر دیا۔
انہوں نے قریہ قریہ گھوم کر جلسے کیے اور عوام کو اپنی حمایت پر آمادہ کیا۔ دریں اثناحکومت کو کمال کی ان سرگرمیوں کی خبر ملی تو اس کی تقرری کو منسوخ کر دیا گیا اور فوج کو حکم دیا گیا کہ اس کے احکامات پر عمل نہ کرے۔ لیکن اب دیر ہو چکی تھی۔ فوج کا ہر جوان اب مصطفیٰ کمال کو ہی اپنا قائد سمجھتا تھا۔
لارڈ ایورسلی نے ’دا ٹرکش ایمپائر‘ میں لکھا ہے کہ دوسری طرف اپریل 1920 میں سان ریمو کے مقام پر اتحادیوں اور سلطان کے نمائندوں کی کانفرنس ہوئی جس میں شام کا علاقہ فرانس جبکہ عراق و فلسطین کا علاقہ برطانیہ کو دے دیا گیا۔
ترکوں کے مرکز اناطولیہ (موجودہ ترکی) کے حصے بخرے کر کے اسے یونانیوں، اطالویوں اور آرمینیوں میں بانٹ دیا گیا۔ اس معاہدے پراگست 1920 میں اتحادیوں اور عثمانی سلطان کے وزیر اعظم داماد فرید پاشا نے دستخط کیے اور یہ معاہدہ سیورے کے نام سے مشہور ہوا۔
یہ معاہدہ عملی طور پر ترکی کے لیے موت کا پروانہ تھا لیکن سلطان نے اسے قبول کر لیا۔ برطانیہ کے وزیر جنگ ونسٹن چرچل کے بقول اس معاہدہ نے ’نفرت کی اس آگ پر، جو مغربی دنیا نے اپنے رویےسے ترکی میں بھڑکائی تھی، تیل کا کام کیا۔‘
یوں مصطفیٰ کمال کو اتحادیوںاور سلطان کی فوج کے خلاف مزاحمت کے لیے وسیع تر عوامی حمایت میسر آ گئی اور اس نے پے در پے مہمات کے بعد پہلے سلطانی فوج کو شکست دی اور اس کے بعد یونانیوں کو شرمناک ہزیمت کا چہرہ دکھا دیا۔
اس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے اقدامات کو قانون کے دائرے میں لانے کے لیے انقرہ میں اپنی نئی قوم پرست پارلیمنٹ کا افتتاح کر دیا۔ ملکی سطح پر تو یہ قیادت پہلے ہی مقبول تھی، اب بین الاقوامی سطح پر بھی اسے تسلیم کیا جانے لگا تھا۔
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے پڑدادا کا قتل
جنگی و سفارتی محاذ پر مصطفیٰ کمال کو جو کامیابیاں حاصل ہوئی تھیں ان کے بعد وہ عملی طور پر ترک ریاست کا سربراہ بن چکا تھا۔ عوام سلطان عبدالوحید ششم کو مکمل طور پر فراموش کر چکے تھے۔
آخر صورت یہ ہو گئی کہ قسطنطنیہ میں بھی سلطان کا اقتدار برائے نام رہ گیا۔ قوم پرستوں نے شہر کی انتظامیہ اپنے ہاتھ میں لے کر خود فیصلے کرنے شروع کر دیے۔
انقلاب سے بغاوت کرنے والوں کو پکڑ پکڑ کر سزائیں دی جانے لگیں۔ موجودہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کا پڑدادا علی کمال سلطان کی کابینہ میں وزیر داخلہ رہ چکا تھا اور اس نے اپنے دور میں مصطفیٰ کمال کو واجب القتل قرار دیا تھا۔
اسے قوم پرستوں کی پولیس نے گرفتار کر لیا لیکن جب اسے جیل لے جایا جا رہا تھا تو ایک ہجوم نے راستے میں حملہ کر کے اسے سنگسار کر دیا۔
علی کمال نے بطور ایک شاعر اور صحافی اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تھا۔ ایک دفعہ سوئٹزرلینڈ میں سفر کرتے ہوئے جھیل لوسرن کے کنارے ایک ہوٹل میں اس کی ملاقات ایک برطانوی خاتون ونیفریڈ برون جانسن (Winifred Brun Johnson) سے ہوئی اور دونوں میں عہد و پیمان ہو گئے۔
ونیفریڈ علی کمال سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن وہ اس شادی کو لے کر مذہبی مشکلات سے آگاہ تھے اور اسی لیے ہچکچا رہے تھے۔ تاہم اگلے سال ان کی سوئٹزرلینڈ میں دوبارہ ملاقات ہوئی اور انہوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ ایسا قاضی کہاں سے ملے جو ایک مسلمان اور عیسائی کی شادی کروانے پر راضی ہو۔ کچھ تردد کے بعد یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا اور لندن کے ایک چرچ میں ان کی شادی ہو گئی۔ یہ واقعہ 1903 کا ہے۔
شادی کے بعد علی کمال کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جو چند مہینے سے زیادہ نہ جی سکا۔ اس کے بعد ایک بیٹی سلمیٰ اور ایک بیٹا عثمان علی پیدا ہوئے۔
عثمان علی کی پیدائش کے بعد ونیفریڈ بھی زیادہ نہ جی سکیں اور علی کمال بھی مالی مشکلات کا شکار ہو گئے۔ چنانچہ وہ بچوں کو ان کی نانی مارگریٹ جانسن کے پاس لندن چھوڑ کر خود استنبول آ گئے۔
نانی نے ہی بچوں کی پرورش کی اور چھوٹے عثمان علی کا نام عثمان علی کمال سے بدل کر ولفریڈ جانسن کر دیا۔ ولفریڈ نے بچپن کسمپرسی میں گزارا، لیکن بڑا ہو کر وہ برطانوی فضائیہ میں شامل ہو گیا اور دوسری جنگ عظیم میں بطور پائلٹ شامل رہا۔
اس کا بیٹا سٹینلے جانسن سیاست میں متحرک ہوا اور یوروپین پارلیمنٹ کا حصہ بنا۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اس سٹینلے جانسن کا بیٹا ہے۔
اس کے بعد سلطان کو احساس ہو گیا کہ قسطنطنیہ میں ان کے دن گنے جا چکے ہیں۔ انہوں نے آخری موقعے پر کئی طریقوں سے قوم پرستوں کے ساتھ سمجھوتے کی کوشش کی لیکن بات نہ بنی۔
اسی دوران سلطان کی برائے نام حکومت کو ختم کرنے کے لیے مصطفیٰ کمال کے ہاتھ ایک بہانہ آ گیا۔
ہوا یوں کہ اتحادیوں کی جانب سے لوزین میں ایک امن کانفرنس منعقد کی گئی جس میں شرکت کے لیے حسب دستور سلطان کی حکومت اور نئی حکومت کو الگ الگ دعوت نامے بھیجے گئے۔
قوم پرستوں نے اس واقعے پر بہت شور مچایا کہ سلطان کی وجہ سے ترک حکومت اور قوم میں تقسیم پیدا ہو رہی ہے۔ اسمبلی میں تقریریں کی گئیں کہ اگر سلطان کی جانب سے اپنے نمائندوں کو الگ سے بھیجا گیا تو یہ غداری کے مترادف ہو گا۔ اب لوہا گرم تھا اور سلطنت کے خاتمے کے لیے نفسیاتی لمحہ آ پہنچا تھا۔
برنارڈ لیوس کے مطابق یکم نومبر 1922 کو مصطفیٰ کمال کی اسمبلی میں ایک قانون پیش کیا گیا جس کی رو سے سلطنت اور خلافت کو الگ الگ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
اس قانون میں قرار دیا گیا تھا کہ سلطنت کو ختم کر دیا جائے گا جو کہ دنیاوی اقتدار کی نمائندگی کرتی ہے جبکہ خلافت کو برقرار رکھا جائے گا جو کہ روحانی اقتدار کی نمائندہ ہے۔ اس مقصد کے لیے خلافت کسی ایسے شہزادے کو دی جائے گی جس کا منصب مذہبی ہو گا اور اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔
علما کی جانب سے اس قانون کی سخت مخالفت کی گئی لیکن مصطفیٰ کمال نے بڑی پرزور تقریر کی اور حزب اختلاف کو چپ کروانے کے لیے طاقت کے استعمال کی دھمکی بھی دے ڈالی۔
اس کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے پر اسمبلی کے ارکان اور دیگر احباب اگر قدرتی طریقے سے نظر ڈالیں تو میرا خیال ہے کہ وہ مجھ سے اتفاق کریں گے۔ اگر وہ اتفاق نہیں کریں گے تو سچائی جلد ہی ظاہر ہو جائے گی لیکن اس عمل میں شاید کچھ سر اُڑیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نتیجہ یہ ہوا کہ اسمبلی میں موجود علما نے فوراً اپنے مؤقف پر نظر ثانی کی اور یہ قانون منظور کر لیا گیا۔ کمال کے بقول ’یوں سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد اس کی تجہیز و تکفین بھی مکمل ہو گئی۔‘
کنروس کے بقول اس دوران سلطان اپنے محل میں ہی رہا جبکہ اس کا بہت سا عملہ اسے چھوڑ گیا تھا۔ کمال نے اسے بزور قوت اس لیے معزول نہیں کیا تھا کہ اسے عوام کی برہمی کا اندیشہ تھا۔
چند دن بعد سلطان نے برطانوی سفیر رمبولڈ کو طلب کیا اور اس سے اپنی امداد کی یقین دہانی چاہی۔ رمبولڈ نے اسے بتایا کہ اب برطانیہ صرف انقرہ کی حکومت سے ہی معاملہ کر سکتا ہے۔ تاہم اس نے وعدہ کیا کہ سلطان کی زندگی کو ہر صورت تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
دس نومبر کو سلطان جمعہ کی نماز کے لیے مسجد گئے تو امام نے اپنے خطبے میں عظیم بادشاہ اور شاہی خاندان کا نام نہیں لیا بلکہ صرف امیر المومنین کا اور خلیفہ کا ذکر کیا۔ اس نماز کے فوراً ہی بعد سلطان نے برطانوی سفیر کو پیغام بھجوایا کہ ان کی جان خطرے میں ہے اور انہیں یہاں سے فوراً نکال لیا جائے۔
چنانچہ 11 نومبر کو علی الصبح سلطان وحید الدین ششم انگریزوں کی دو ایمبولینس کاروں کے ذریعے، جن پر ریڈ کراس کا نشان بنا ہوا تھا، اپنے خزانے اور نو افراد پر مشتمل عملے کے ہمراہ ایک برطانوی جنگی جہاز تک پہنچا اور پھر اس جہاز کے ذریعے مالٹا روانہ ہو گئے۔
وہ اپنی پانچ بیویوں کو قصر یلدیز میں ہی چھوڑ گئے تھے اور انہوں نے انگریزوں سے درخواست کی کہ انہیں بعد میں اس کے پاس پہنچا دیا جائے۔ قوم پرستوں نے سلطان کے از خود فرار پر خوشی کا اظہار کیا۔
نئے غیر سیاسی خلیفہ کا انتخاب
سلطان کے فرار کے بعد 16 نومبر 1922 کو گرینڈ نیشنل اسمبلی نے اس کے کزن اور ولی عہد عبدالمجید کو خلیفہ منتخب کر لیا۔ ان کی عمر 54 سال تھی اور ان کے لبرل خیالات کی وجہ سے انہیں سلطان نے سیاست سے الگ کر دیا ہوا تھا۔
عبدالمجید نے اسمبلی کی طے کردہ شرائط کے مطابق یہ منصب قبول کر لیا۔ اسے اس موقعے پر پیغمبرِ اسلام کی عبا اور دیگر متبرک اشیا دی گئیں لیکن تلوار اسے نہیں دی گئی جو خلیفہ کے دنیاوی اقتدار کی علامت تھی۔
ترکی پر ایک شرابی حکومت کر رہا ہے
ترک مورخ خالدہ ادیب نے ’دا ٹرکش اورڈیل‘ میں لکھا ہے کہ مصطفیٰ کمال اعلانیہ طور پر شراب پیتے تھے۔ جب غیر ملکی اخباروں نے ان کی شراب نوشی کے بارے میں لکھا تو انہیں نے ان کی تائید کی اور کہا کہ اگر ایسی باتیں نہ لکھی جائیں تو لوگ مجھے سمجھ ہی نہیں سکتے۔
جب ایک مرتبہ وہ سمرنا (ازمیر) کے ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھا شراب پی رہے تھے تو گورنر نے کھڑکیوں سے پردے گرانے کا حکم دیا۔
اس پر کمال نے احتجاج کیا اور کہا کہ ’اگر تم نے ایسا کیا تو لوگ سمجھیں گے کہ ہم میز پر عورتوں کو نچا رہے ہیں۔ انہیں دیکھنے دو کہ ہم صرف شراب ہی پی رہے ہیں۔‘
ایک فرانسیسی اخبار نویس نے لکھا کہ ’ترکی پر ایک شرابی، ایک بہرہ (وزیر اعظم عصمت انونو) اور تین سو گونگے (ارکان اسمبلی) حکومت کر رہے ہیں۔‘
اس پر کمال نے جواب دیا، ’تمہیں غلطی ہوئی ہے، ترکی پر صرف ایک شرابی حکومت کر رہا ہے۔‘
مصطفیٰ کمال کی یہی باتیں اس کے سیاسی مخالفین کا ہتھیار تھیں۔ ان کا یہ طرزِ زندگی ان کے خلاف پراپیگنڈے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ بہت دیر سے یہ افواہیں گردش میں تھیں کہ مصطفیٰ کمال اسلام کو تباہ کرنے اور خلیفہ کو نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انہوں نے کئی دفعہ اپنے اس ارادے کا اظہار سر عام کر بھی دیا تھا۔
نئے خلیفہ کی دلچسپیاں
ادھر نو منتخب خلیفہ عبدالمجید کو سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ان کو باغبانی اور مصوری کا شوق تھا اور ان کا زیادہ وقت انہی دو مشغلوں کی نذرہو تا تھا۔
ان کی طبیعت میں سازش کا عنصر نہیں تھا اور وہ ایک سیدھے سادے، دیانت دار، مسکین اور شریف شخص تھے۔ انہوں نے جوانی سے ہی اپنے محل میں بڑی سادہ زندگی بسر کی تھی لیکن اب جب انہیں خلیفۃ المسلمین منتخب کیا گیا تو انہیں نے اس منصب کو بھی دیانت داری سے نبھانے کی کوشش کی۔
اس سے قبل خلیفہ گھوڑا گاڑی استعمال کرتے تھے لیکن وہ سلطان محمد فاتح کی طرح سفید گھوڑے پر سوار ہو کر نماز کی ادائیگی کے لیے جاتے، پیچھے حفاظتی دستہ ہوتا اور راستے میں لوگ اسے دیکھ کر تالیاں بجاتے۔
اگرچہ عبدالمجید کے کوئی سیاسی عزائم نہیں تھے لیکن ان کی شخصیت نے کمال کے تمام تر سیاسی مخالفین کے لیے مقناطیس کا کام کیا اور وہ سب ایک کےبعد ایک اس کے گرد جمع ہو گئے۔
سلطنت عثمانیہ کا تمام ملبہ یعنی پرانے وزرا، علما، سیاسی قائدین اور فوجی جرنیل اس کے پاس اکٹھے ہو رہے تھے اور ان کا ارادہ یہ تھا کہ گذشتہ دستور کے موافق خلیفہ کو آئینی صدر بنایا جائے اور خود اس کے تحت حکومت قائم کی جائے۔
ایچ سی آرمسٹرانگ نے کمال اتا ترک کی سوانح میں لکھا ہے کہ خلیفہ کی شخصیت اب مصطفیٰ کمال کے اقتدار کے لیے خطرہ بن چکی تھی اور مصطفیٰ کمال نے وہی کیا جو کوئی بھی اچھا ڈکٹیٹر ایسی صورت حال میں کر سکتا ہے۔ وہ خلیفہ کو راستے سے ہٹانے کا موقع ڈھونڈنے لگے۔
ہندوستان کی تحریک خلافت: آغا خان اور سید امیر علی کا خط
دریں اثنا ہندوستان میں مصطفیٰ کمال کا طوطی بول رہا تھا۔ ہندوستان کے مسلمان اسے پورے مشرق کا نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ ترکی واحد مشرقی ملک تھا جو اتحادیوں کے مقابل ڈٹ گیا تھا اور ان کی قیادت مصطفیٰ کمال کے ہاتھ میں تھی۔
ہندوستان سے لگاتار خطوط بھیج کر مصطفیٰ کمال اور اس کے ساتھیوں کو اپنی حمایت کا یقین دلایا جاتا تھا۔
اس زمانے میں ہندوستان بالخصوص پنجاب کے ہر گھر میں مصطفیٰ کمال جانا پہچانا نام بن گیا تھا اور ان کی بڑی بڑی تصویریں ہر دکان پر آویزاں تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے غریب مسلمان مصطفیٰ کمال کی جدوجہد کے لیے چندہ بھی جمع کر رہے تھے۔
آرمسٹرانگ کے مطابق ہندوستان سے کل سوا لاکھ پاؤنڈ کی رقم بطور چندہ بھیجی گئی۔ اس میں سے کچھ رقم سے ترک فوج کو تنخواہیں دی گئیں جبکہ زیادہ تر رقم انقرہ میں نئی پارلیمنٹ کی تعمیر اور پہلے قومی بینک کے قیام پر خرچ ہوئی۔
لیکن مصطفیٰ کمال کی جانب سے خلافت پر پابندی کی افواہیں گرم ہوئیں تو ہندوستانی مسلمانوں کے دو زعما یعنی آغا خان سوم اور سید امیر علی نے ہندوستانی مسلمانوں کی جانب سے ایک احتجاجی خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔
اس خط میں مطالبہ کیا گیا کہ خلیفہ کے رتبے کا لحاظ کیا جائے۔ یہ خط قسطنطنیہ کے اخبارات کو بھی بھیج دیا گیا۔ شومئی قسمت کہ انقرہ کی حکومت تک پہنچنے سے پہلے ہی یہ خط اخبارات میں شائع ہو گیا۔
مصطفیٰ کمال کو موقع مل گیا۔ انہوں نے آغا خان کے حالات نکال کر دیکھے۔ وہ ایک معتبر ہندوستانی مسلمان تھے جو انگلستان میں رہتے تھے۔
انہوں نے ریس کے گھوڑے پال رکھے تھے۔ وہ انگریزوں کا لباس پہنتے تھے اور انگریزوں کے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے۔ چنانچہ مصطفیٰ کمال نے اعلان کر دیا کہ وہ انگریزوں کے خاص ایجنٹ ہیں اور انہی کی ایما پر برطانیہ ترکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔
اب اس خط کو بنیاد بنا کر ایجی ٹیشن کو ہوا دینا اتاترک کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ چنانچہ یہ بیانیہ تیار کیا گیا کہ انگریز چونکہ یونان کے ذریعے ترکی کو تباہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے اس لیے اب وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سازش کر رہے ہیں۔
آغا خان کا ٹریک ریکارڈ بھی اس سلسلے میں خاصا مددگار ثابت ہوا۔ جنگ کے دوران بطور مذہبی پیشوا آغا خان نے انگریزوں کی حمایت میں ایک فتویٰ جاری کر رکھا تھا جس کی ہندوستان بھر میں بڑی شہرت ہوئی تھی۔
پیسہ اخبار کی ایک خبر کے مطابق آغا خان کی جماعت نے ملتان میں انگریزوں کے ساتھ وفاداری کی قرارداد بھی پاس کی تھی۔
آرمسٹرانگ کے مطابق مصطفیٰ کمال کو موقع مل چکا تھا۔ رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے پہلے فرانس کے ایک جریدے میں خلافت کے غیر ضروری ہونے کی خبر شائع کی گئی۔
کمال نے اس جریدے کو انٹرویو میں لفظوں کی فسوں کاری دکھاتے ہوئے کہا کہ ’خلافت کا مطلب انتظامیہ یا حکومت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اب جبکہ ایک اور انتظامیہ اور حکومت وجود میں آگئی ہے تو اس منصب کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ خلافت کا پورے عالم اسلام پر کبھی بھی اختیار و اقتدار قائم نہیں ہوا تھا جیسا کہ پاپائیت کا دنیائے کیتھولک پر رہا تھا۔‘
آغا خان کا خط چھاپنے والے اخباروں پر مقدمے چلائے گئے اور بقیہ اخبارات کو سخت ہدایت کی گئی کہ وہ ایسے ہی خطوط پر پراپیگنڈہ کریں۔
اسی پراپیگنڈے کو بنیاد بنا کر تین مارچ کو اسمبلی کی چوتھی سالگرہ والے دن ایک قانون منظور کیا گیا اور اسی رات اس قانون کے ذریعے خلیفہ کو ملک بدر کر دیا گیا۔
خلیفہ اور عثمانی خاندان کے ہر فرد کی ترکی میں رہائش پر پابندی لگا دی گئی۔ خلیفہ نے اپنی بقیہ عمر فرانس میں مصوری اور موسیقی کے سہارے گزار دی۔ شروع میں ان کے پاس کوئی رقم نہ ہوتی تھی اور سر پر چھت بھی بڑی مشکل سے میسر تھی۔
1944 میں جب دل کا دورہ پڑنے سے ان کی موت ہوئی تو ترکی میں دفن ہونے کی اجازت بھی نہ مل سکی۔ ان کی باقیات کو فرانس کی ایک مسجد میں ہی محفوظ کر دیا گیا۔ یوں اسلام کی آخری اور شاید سب سے عظیم خلافت اپنے اختتام کو پہنچی۔