محبت کے طوفانی جذبات کے سامنے مجبور ہو کر نلنی نے سری ہرن سے ہر حال میں شادی کا فیصلہ کیا۔ اب وہ ایسی پتنگ تھیں جس کی ڈور سری ہرن کے ہاتھ میں تھی۔ ایک دن وہ جیل کی تنگ و تاریک راہداریوں میں جا گریں اور 32 برس انہی اندھیروں میں کاٹ دیے۔
مگر کیا واقعی وہ انڈیا کے سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کے قتل میں ملوث تھیں؟
21 مئی، 1991 کو انڈیا کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کو ایک خاتون خودکش بمبار نے اس وقت دھماکے سے اڑا دیا جب وہ انتخابات سے قبل ایک ریلی میں شرکت کے لیے تمل ناڈو کے علاقے سری پیرمبدور میں تھے۔
خودکش بمبار کی شناخت دھنو کے نام سے کی گئی تھی جن کے مبینہ سہولت کاروں میں ایک نام نلنی سری ہرن کا تھا۔
تقریباً 32 برس بعد جیل سے رہا ہونے والی نلنی کون ہیں اور راجیو گاندھی کے قتل میں مبینہ طور پر ان کا کیا کردار تھا؟
نلنی سری ہرن کون ہیں؟
چنئی سے تعلق رکھنے والی نلنی سری ہرن نے انگریزی زبان و ادب میں گریجویشن مکمل کی اور ایک پرائیویٹ فرم کے ساتھ بطور سٹینوگرافر منسلک ہو گئیں۔
سماجی اعتبار سے وہ ایک عام گھرانے کی فرد تھیں جن کی سیاسی وابستگی کانگریس سے تھی مگر محض جذبات کی حد تک۔ انڈیا ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’جب اندرا گاندھی کا قتل ہوا تو پورا دن ہم نے کچھ نہیں کھایا۔ چار دن تک ہماری آنکھیں نم رہیں۔ یہاں تک کہ راجیو گاندھی کے قتل پر ہم تین دن روتے رہے۔‘
ایک طرف کانگریس سے یہ جذباتی وابستگی اور دوسری طرف راجیو گاندھی قتل کیس میں نامزد ہونا ناقابل فہم سا لگتا ہے۔
مگر درمیان کی ایک کڑی سری ہرن عرف مروگن ہیں جن سے نلنی کی شادی ان کی اپنی زندگیوں سمیت راجیو گاندھی کے لیے بھی فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔
1990 میں ملازمت کے دوران نلنی اپنے خاندان سے دور چنئی کے ایک شہر ولی وکم میں رہائش پذیر تھیں۔ اپنے دفتر میں ان کی ملاقات سری ہرن عرف مروگن سے ہوئی جو پہلے دوستی اور پھر محبت میں تبدیل ہوئی۔
دی نیوز منٹ کے مطابق ابتدا میں مروگن نے یہ کہتے ہوئے شادی سے انکار کر دیا کہ وہ تمل ٹائیگرز کا ایک پرعزم رکن ہیں اور تنظیم کے قوانین ایسے بندھن کی اجازت نہیں دیتے، جبکہ محبت کے ہاتھوں مجبور نلنی ہر قیمت پر بیاہ چاہتی تھیں۔
بالآخر شدید اصرار پر ایک دن مروگن نے ہتھیار ڈال دیے اور یہاں سے نلنی کی زندگی نے ایسا پلٹا کھایا جو شاید ان کے وہم و گمان بھی نہ تھا۔
راجیو گاندھی کے قتل کے دن کیا ہوا؟
یہ 21 مئی، 1991 کی بات ہے۔ ایک طرف راجیو گاندھی کا قافلہ سری پیرمبدور کی طرف روانہ ہوا تو دوسری جانب پانچ مسافروں نے اسی منزل کے لیے بس پکڑی۔ ان میں ایک نلنی جبکہ باقی دھنو، شیواراسن، سوبھا اور ہری بابو تھے۔
نلنی کو تمام افراد سے ان کے خاوند مروگن نے متعارف کروایا تھا۔ بظاہر یہ ایک دوسرے کو جانتے تھے مگر کیا واقعی؟
کیا نلنی کو معلوم تھا کہ ان کے گھر میں بیٹھ کر ایک بہت بڑے قتل کی منصوبہ بندی ہو چکی ہے؟
ان کے ساتھ بیٹھے شیواراسن اس منصوبے کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ دھنو نے اپنے جسم کے ساتھ خودکش جیکٹ باندھ رکھی ہے۔ سوبھا بطور بیک اپ بمبار شریک سفر ہیں۔
البتہ ہری بابو کا معاملہ ذرا مختلف تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انہیں قطعاً علم نہیں تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔
لانس اینجلز ٹائمز کے مطابق وہ پانچ پاؤنڈ ماہانہ کی اجرت پر ایک مقامی اخبار کے ساتھ بطور فوٹوگرافر وابستہ تھے۔
دھنو نے ان کی خدمات حاصل کی تھیں کہ بس آپ نے کیمرے کی آنکھ سے تمام مناظر کو محفوظ کرنا ہے۔
جیسے ہی دھماکا ہوا ہری بابو کے چیتھڑے اڑ گئے، مگر کیمرہ اپنی جگہ پر ٹکا رہا جس کی فوٹیج بعدازاں نلنی کی شناخت کا سبب بنی۔
چارج شیٹ کے مطابق دھنو کے خود کو دھماکے سے اڑانے کے بعد نلنی، سوبھا اور ماسٹر مائنڈ شیواراسن فوراً فرار ہو گئے۔
دی انڈین ایکسپریس کے مطابق نلنی نے اپنے اعترافی بیان میں تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے سری لنکا کی دو خواتین سوبھا اور دھنو کی میزبانی کی ہے۔
دھماکے کے دن دھنو اور سبھا نے جو کپڑے پہن رکھے تھے ان کی خریداری میں بھی نلنی کا ہاتھ تھا۔
مذکورہ اخبار کے مطابق وہ ان کا منصوبہ پہلے سے جان چکی تھیں اور راجیو کی انتخابی ریلی میں ان کے ساتھ قدم رکھا تھا۔
قتل کے بعد کئی دنوں تک روپوش رہنے والے نلنی اور ان کے شوہر مروگن کو 15 جون، 1991 کو چنئی میں ایک بس اسٹینڈ سے گرفتار کیا گیا۔
اگرچہ اس سازش میں نلنی کا کردار سپریم کورٹ کے ججوں کے درمیان بھی بحث کا موضوع رہا لیکن راجیو کے قاتلوں کے ساتھ ان کی قربت ایسا معاملہ تھا جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا تھا۔
گرفتاری کے وقت ان کی عمر تقریباً 24 برس تھی، اور اس وقت ان کے پیٹ میں ایک نئی زندگی کے خد و خال بننا شروع ہو چکے تھے۔
صحافی ایکلائیوان Ekalaivan کی تحریر کردہ ان کی سوانح عمری راجیو اسسینیشن: پوشیدہ سچائیاں اور نلنی اور پرینکا کے درمیان ملاقات میں وہ راجیو گاندھی کے قتل کے لمحات کا بھی ذکر کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں: ’ہم سڑک کی طرف 200 فٹ پیدل چلے کہ اتنی دیر میں میں نے ایک بہت بڑا دھماکہ سنا۔ پٹاخے پھوڑ کر رہنماؤں کا استقبال کرنا ایک عام سی بات تھی لیکن اس نے تو آس پاس کو تہ و بالا کر دیا تھا۔
’میں نے پلٹ کر نگاہ دوڑائی تو آسمان اور زمین کے درمیان بس آگ اور دھواں تھا۔ ہر طرف اتھل پتھل تھی۔ لوگ بے دریغ بھاگ رہے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ بھگدڑ میں بہت سے لوگ زخمی ہوئے ہوں گے۔
’میں ابھی تک بے خبر تھی کہ کیا ہوا ہے۔ تھوڑی دیر بعد سوبھا رک گئی۔ میں خوف سے کانپ رہی تھی اور میرا گلا خشک ہو چکا تھا۔
’میں ابھی تک نہیں جانتی تھی کہ اصل میں کیا ہوا لیکن مجھے یقین تھا کہ کچھ غلط ہو گیا ہے۔ لوگ اب بھی گھبراہٹ کے مارے بھاگ رہے تھے۔‘
نلنی کا کردار کیا تھا؟
اگرچہ راجیو گاندھی کے قتل میں سزا پانے والی نلنی کو تقریباً 32 برس بعد رہا کر دیا گیا ہے مگر ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ان کے گرد پھانسی کا شکنجہ کسا جا چکا تھا۔
بی بی سی کے مطابق: ’چار مرتبہ (نلنی کی) پھانسی کی تاریخ طے ہوئی۔ یہاں تک کہ ایک مذہبی رہنما ان کی آخری خواہش جاننے کے لیے آیا اور ایک بار تو تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں۔ پھانسی کی رسی، پھانسی دینے کے لیے سیل بھی تیار ہو چکا تھا۔‘
سال 2000 میں راجیو کی بیوی اور کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی کی مداخلت پر نلنی کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔
اب وہ سلاخوں سے باہر آ چکی ہیں مگر آج بھی ان کے کردار پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔
شاید سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا نلنی قتل کی سازش سے آگاہ تھیں؟ اور کیا انہیں پتہ تھا کہ نشانہ راجیو گاندھی ہیں؟
اپنی سوانح میں وہ نہ صرف اس سے انکار کرتی ہیں بلکہ یہ تک کہتی ہیں کہ میرے شوہر بھی اس سے لاعلم تھے۔ ان کے مطابق: ’میں نے بم دھماکے سے ٹھیک پہلے انہیں (اپنے خاوند مروگن) بتایا کہ مجھے حمل ٹھہر چکا ہے۔ وہ اتنا خوش تھے کہ مجھے اٹھا لیا اور ادھر ادھر ناچنے لگے۔
’ہم بچے کے نام پر بھی بات کر رہے تھے۔ اگر ہم اتنے بڑے رہنما کی قتل کی سازش میں ملوث ہوتے، اگر ہمیں اس بات کا علم ہوتا تو کیا ہم بچے کے بارے میں ایسے پرجوش ہوتے؟
’کیا ہم مستقبل کے بارے میں سوچ بھی سکتے تھے؟ کیا میرا شوہر 21 مئی کو مجھے جلسہ عام میں اکیلا بھیج کر سکون سے سو سکتا تھا۔‘
وہ آگے چل کر لکھتی ہیں کہ میری ماں 25 برس تک بطور نرس کام کرتی رہیں۔ مجھے کیسے پتہ نہیں تھا کہ پیٹ میں بچہ ہو تو ایسی جگہ جانا خطرناک ہو سکتا ہے۔
ان پر ایک بڑا الزام یہ بھی تھا کہ ان کے شوہر نے انہیں برین واش کیا اور وہ محبت میں سب کچھ قبول کرتی گئیں، جبکہ اس متعلق ان کا موقف ہے کہ سات سے 21 مئی کی سہ پہر تک میاں بیوی کا میل جول ہی نہیں رہا۔
اپنی کتاب میں وہ لکھتی ہیں: ’اس دوران ہم محض ایک بار 18 مئی کو ملے اور حمل کے حوالے سے ایک دوسرے سے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ وہ میرا برین واش کیسے کر سکتے تھے؟ اس اثر کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔‘
نلنی محبت کی وجہ سے غیر متوقع طور پر بند گلی میں چلی گئی تھیں؟
اگرچہ تمل ناڈو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ دونوں نے نلنی کو قتل کی سازش میں رضامندی سے شریک ہونے کا مجرم ٹھہرایا مگر موخرالذکر کا فیصلہ متفقہ نہیں تھا۔
سپریم کورٹ کے بنچ نے مجرموں کی سزا کی مقدار پر الگ الگ فیصلے سنائے تھے۔
تین ججوں پر مشتمل بنچ کی اکثریت نے نلنی کے لیے سزائے موت کی توثیق کی مگر جسٹس کے ٹی تھامس کا خیال مختلف تھا۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق مختلف شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس کے ٹی تھامس اس نتیجے پر پہنچے کہ نلنی ’ایک فرمانبردار شریک کار‘ تھیں جنہیں ’صرف سری پرمبدور میں احساس ہوا کہ دھنو راجیو گاندھی کو قتل کرنے والی ہیں۔‘
لیکن اس وقت وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتی تھیں، کیونکہ ’وہ سازش کے جال میں پھنس گئی تھیں‘ اور جانتی تھیں کہ ’شیواراسن Sivarasan اور سنتھن نے ان لوگوں کو ختم کر دیا تھا جو ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے تھے۔‘
ٹی تھامس کی آخری بات کو نلنی کی سوانح حیات سے بھی کافی تقویت ملتی ہے، جس میں وہ ایک جگہ لکھتی ہیں کہ میں ’خون کے پیاسے بھیڑیوں میں گھر چکی تھی۔‘
انڈیا ٹوڈے کے مطابق نلنی کے وکیل کا کہنا تھا کہ وہ مروگن کی خوشی اور ان کے ساتھ رہنے کی شدید خواہش کے سبب سازش کی دلدل میں جا اتریں۔
’وہ منصوبہ بندی کا حصہ نہیں تھیں بلکہ جس دن واقعہ پیش آیا محض اسی دن ان کے ساتھ رہیں جس کا مقصد شکوک و شبہات کی گرد سے بچنا تھا۔‘
راجیو گاندھی قتل کیس میں 30 برس قید کاٹنے کے بعد رواں برس 18 مئی کو رہا ہونے والے اے جی پیر اریوالن Perarivalan بھی نلنی کے ذمے کسی سازشی کردار کی بات نہیں کرتے۔
دی منٹ نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ نلنی اور سری ہرن کے درمیان محبت تھی جس نے اسے اس معاملے میں لا کھڑا کیا۔
’وہ بہت عام سی لڑکی تھی جس کا کوئی خاص نظریاتی پس منظر نہ تھا۔۔۔۔ وہ محبت کی وجہ سے غیر متوقع طور پر اس میں پھنس گئی۔‘
جیل میں ان کی زندگی کیسی تھی؟
تقریباً تین دہائیاں جیل میں گزارنے والی نلنی نے اپنی کتاب میں اس مبینہ تشدد کے بارے میں کھل کر بات کی جو انہیں دوران حراست سہنا پڑا۔
دی نیوز منٹ کے مطابق انہیں پولیس سے گینگ ریپ کی دھمکیاں سننے کو ملیں، ایک کمرے میں قید ہونے کے باوجود بیڑیاں پہنا دی جاتیں اور یہاں تک کہ ان سے اعترافی بیان حاصل کرنے کے لیے ان کا حمل ساقط کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔
اس حوالے سے وہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ گائناکالوجسٹ کا موقف تھا کہ یہ خطرناک قدم ہو گا۔ اس طرح دو انسانوں کی جان جا سکتی ہے۔
’میں گائناکالوجسٹ کو کبھی نہیں بھولوں گی جس نے کچھ عہدیداروں کے کہنے کے باوجود ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ میں آج تک اس گائناکالوجسٹ کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھتی ہوں۔‘
ان کی بیٹی دو سال تک ان کے ساتھ جیل میں رہی جس کے بعد نلنی نے اسے ایک دوست کی ماں کے پاس بھیج دیا۔ ان کی بیٹی اب لندن میں ڈاکٹر ہیں۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق نلنی نے جیل میں ماسٹرز مکمل کرنے کے علاوہ نہ صرف بیوٹیشن کا کورس کیا بلکہ یوگا انسٹرکٹر بھی بن گئیں۔
انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ 29 برس میں نلنی صرف دو بار جیل سے باہر نکلیں۔
پہلی بار 2016 میں جب انہیں اپنے والد کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے 16 گھنٹے کی اجازت ملی اور دوسری مرتبہ جولائی 2019 میں جب انہیں اپنی بیٹی کی شادی کے انتظامات کے لیے پیرول پر 51 دن کے لیے رہا کیا گیا۔
اپنی رہائی کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’اپنی گرفتاری کے پہلے دن سے میں اپنی رہائی کے لیے کوشش کر رہی تھی۔ مجھے کئی دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ میں نے اپنی زندگی ختم کرنے کا بھی سوچا… لیکن ہر بار میں نئے عزم سے جد و جہد کرنے لگتی تھی۔‘
جب پرینکا گاندھی ان سے ملنے جیل جا پہنچیں
دوران قید ایک غیر معمولی واقعہ راجیو گاندھی کی بیٹی پرینکا گاندھی کی 19 مارچ 2008 کو ان سے 90 منٹ پر محیط ملاقات تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس ملاقات کی خبر پہلی مرتبہ ٹائمز آف انڈیا نے 15 اپریل 2008 کو بریک کی تھی۔ ان کی رپورٹ کے مطابق نلنی نے مبینہ طور پر پرینکا کو بتایا کہ وہ ’حالات کے جبر کا شکار ہوئیں۔‘
اسی کے بارے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے نلنی کا کہنا تھا: ’مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ حقیقت ہے۔ خود کو یقین دلانے کے لیے میں نے انہیں چھو کر دیکھا… وہ فرشتے کی طرح تھیں… میرے دل میں شدید خوف تھا۔۔۔ انہوں نے مجھ سے اپنے والد کے قتل کے بارے میں پوچھا۔
’وہ رو رہی تھیں۔ میرے علم میں جو کچھ تھا میں نے سب کچھ انہیں بتا دیا۔ ان کی واپسی کے بعد میرا دل گھبرا رہا تھا۔ میں نے ان کی بحفاظت واپسی (دہلی) کے لیے دعا کی اور روزہ رکھا۔‘
اپنی سوانح عمری میں وہ لکھتی ہیں کہ پرینکا بار بار پوچھ رہی تھیں کہ ان کے والد ’ایک نفیس انسان‘ تھے انہیں کیوں قتل کیا گیا؟
اس کے پیچھے کون تھا؟ لیکن ٹائمز آف انڈیا کے مطابق نلنی اس بارے میں کچھ زیادہ معلومات فراہم نہیں کر سکتی تھیں کیونکہ وہ خود تمل ٹائیگرز کی کارکن نہیں رہی تھیں۔
نلنی اب کیا کرنا چاہتی ہیں؟
ان کے شوہر سری لنکن شہری ہونے کے سبب ایک پناہ گزین جیل کیمپ میں بند ہیں۔ 14 نومبر کو نلنی ان سے ملاقات کے لیے گئیں۔
دکن ہیرالڈ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’پہلی مرتبہ مجھے اپنے شوہر سے تفصیلی ملاقات کا موقع ملا ہے۔ جیل میں ہم 15 دن بعد محض تیس منٹ کے لیے مل سکتے تھے۔ لیکن آج ہم کئی گھنٹے ملے اور اپنے مستقبل کے حوالے سے بہت سی باتیں کی۔‘
وہ کہتی ہیں: ’میں کسی بھی دوسری گھریلو خاتون کی طرح زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔ میں اپنی بیٹی اور شوہر کے ساتھ وقت گزارنے کی خواہش مند ہوں۔‘
نلنی پرامید ہیں کہ بہت جلد وہ اور ان کے شوہر مروگن مل کر اپنی بیٹی کے پاس انگلینڈ جائیں گے۔ ممکنہ طور پر ایسا ہو جائے گا مگر راجیو گاندھی کے قتل میں ان کا کردار تا دیر موضوع بحث رہے گا۔
32 برس میں کیا کچھ نہیں بدلا مگر مروگن کے لیے نلنی کا دل آج بھی وہیں کھڑا ہے۔ اب بھی انہیں سب سے زیادہ فکر اپنے شوہر کی رہائی کی ہے۔
بے رحم حالات کی سرد مہری محبت کی چنگاری خاکستر نہیں کر سکی۔ اب بھی وہ اپنے شوہر کے ساتھ مل کر سنہرے مستقبل کے سپنے دیکھ رہی ہیں۔ ایک کہانی انڈین فلم سازوں کی توجہ چاہتی ہے۔
(ایڈیٹنگ: عبداللہ جان | ترجمہ: فاروق اعظم)