23 سال بعد انڈین نیشنل کانگریس کے صدر کی کرسی گاندھی خاندان سے باہر کسی کے پاس گئی ہے۔ اب بہت سارے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہو گا کہ اس سے کانگریس کی سمت کیا ہو گی اور گاندھی خاندان کا مستقبل کیا ہو گا۔ ان امور پر نظر ڈالنے کے لیے انڈین نیشنل کانگریس کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا ضروری ہے۔
انڈین نیشنل کانگریس صرف بھارت ہی نہیں بلکہ برصغیر میں سب سے پرانی سیاسی جماعت ہے جس کو کسی ملک میں سب سے زیادہ حکمرانی کرنے کے مواقع حاصل آئے ہیں۔
1885 میں اے او ہیوم کی سربراہی میں کلکتہ میں اس کا قیام وجود میں آیا تھا۔ تشکیل کے بعد بر صغیر میں انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی کے کچھ بڑے ناموں مثلاً بھیم راؤ امبیڈکر اور بھگت سنگھ وغیرہ کو چھوڑ کر تقریباً ہر لیڈر اس کا حصہ رہا۔
بعض نے بھلے ہی بعد میں راستے جدا کر لیے۔ 19ویں، 20ویں صدی کے نامور لیڈر جنہوں نے انگریز سامراج کے خلاف آزادی کے لیے مزاحمت بھی کی یا شروعات میں انڈینز کے بنیادی حقوق کے لیے آواز بلند کی وہ کانگریس کا حصہ تھے۔
ان میں دادا بھائی ناروجی، بدررالدین طیاب جی، حکیم اجمل، علی برادران، گپال کرشن گوکھکے، موتی لال نہرو، جواہر لعل نہرو، بال گنگا دھر تلک، موہن کرم داس چند گاندھی، لالہ لاجپت رائے، سبھاش چندر بوس، سروجنی نائیڈو، آنی بسنت، محمد علی جناح، مولانا ابوالکلام آزاد وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ بھی اور بڑے نام گنے جا سکتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی تھے جو اپنے سیاسی کیریئر کے پہلے حصے میں تنظیم کے سر گرم رکن تھے لیکن بعد میں راہیں جدا کر لیں۔ اس کی دو بڑی مثالیں بانیان پاکستان میں سے ایک محمد علی جناح اور آزاد ہند فوج کے بانی سبھاش چندر بوس تھے۔
کانگریس کا نظریہ
جب شروعات میں کانگریس کی بنیاد رکھی گئی تھی تو اس کا مقصد محدود تھا۔ یعنی جو پڑھی لکھی انڈین اشرافیہ تھی اس کا تحفظ نیز حکومت سازی میں حصہ وغیرہ۔ غور سے مطالعہ کیا جائے تو تنظیم کو پہلے تین سالانہ اجلاس میں انگریز ریٹائرڈ سول سرونٹ وغیرہ کی بھر پور مالی حمایت حاصل تھی۔
1987 کے اجلاس میں تو گوروں کی طرف سے صاف انکار کر دیا گیا تھا۔ جوں جوں دن گزرتے گئے، کانگریس کی مطالبات بڑھنے کے ساتھ ساتھ سخت بھی ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ 20ویں صدی کے ظہور تک انگریز کانگریس کے مخالف ہو چکے تھے۔
گو کہ کانگریس آزادی سے پہلے اور بعد میں بھی اپنے آپ کو سیکیولر جماعت مانتی رہی ہے۔ آزادی سے پہلے بھی اس کا ہمیشہ یہ دعویٰ رہا یہ بھارت میں بسنے والے مختلف لوگوں کی نمائندہ جماعت ہے۔
ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ انگریزوں نے کانگریس کو صرف ہندوؤں کی جماعت ثابت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ اس کو سبق سکھانے کے لیے 1905 میں پہلے بنگال کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کیا گیا تاکہ سماج میں مذہبی بنیاد پر پھوٹ پڑے۔ اگلے ہی سال مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔
تقسیم بنگال کانگریس کے لیے مزاحمتی سیاست کا پہلا بڑا امتحان تھا جس پر یہ کامیابی سے نبرد آزما ہوئی۔ اس نے ملک بھر میں احتجاج کیے۔ حکومت کا ہر سطح پر بائیکاٹ کیا گیا یہاں تک کہ انگریزی ساز و سامان ودیشی کے مقابلے میں سوادیشی کی تحریک چلائی گئی۔ بالآخر 1911 میں انگریز سرکار نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے اس فیصلے کو واپس لیا۔ بنگال دوبارہ متحد ہوگیا اور 1947 تک متحد رہا۔
مسلم لیگ کے برعکس جس کے بارے میں طے تھا کہ یہ بر صغیر کے مسلمانوں کی واحد سیاسی جماعت ہے انڈین نیشنل کانگریس ایک سیکولر جماعت تھی۔ اس بات کا اندازہ یہاں سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آزادی سے پہلے بھی کانگریس کے سالانہ اجلاس میں مسلمان بھی صدارت کرتے رہے ہیں۔
1940 تا 1945 تک لگا تار صدر رہنے والے مولانا ابو الکلام آزاد، آزادی سے پہلے طویل المدت اور کم عمر پارٹی صدر تھے۔
آزادی کے بعد بھی کانگریس نے جامعیت کی پالیسی کو برقرار رکھا۔ آزاد بھارت کا آئین بنانے کے لیے نہرو نے ایک دانشور، ماہر قانون اور دلت لیڈر بھیم راؤ امبیڈکر کو دعوت دی۔
امبیڈ کر کانگریس پارٹی کے رکن نہیں تھے۔ بھیم راؤ آئین بنانے والی سب سے بڑی کمیٹی ’ڈرافٹنگ کمیٹی‘ کے چیف تھے اور انہیں بھارتی آئین کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر مذہبی تقسیم کے علاوہ بھی کانگریس کی سر براہی میں بھارت کو مذہب سے پرے سیکولر راستوں پر استوار کر کے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
آزادی کے 75 سالوں میں لگ بھگ 50 سال تک کانگریس برسر اقتدار رہی ہے اس لیے بعض سیاس جماعتوں اور دانشوروں کی طرف سے اس پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی ترقی کے حوالے سے مخصوص اقدام نہیں کیے۔
حکومت ہند کی اپنی سرکاری رپورٹس کے مطابق بھی بھارت مسلمان میں سب سے زیادہ پسماندہ ہے۔ ادھر انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں الزام لگاتی ہیں کہ یہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے تئیں نرم رویہ رکھتی آئی ہے۔
یہ بات حقیقت ہے کہ اگر کانگریس صرف ہندوؤں کی جماعت ہوتی تو جدو جہد آزادی کے دوران ہی ’آر ایس ایس‘ اور ہندو سبھا جیسی کٹر مذہبی انتہا پسند تنظیمیں وجود میں نہ آتیں۔
کانگریس میں تقسیم کی تاریخ
کانگریس جسے بر صغیر کی ’پرانی بڑی جماعت‘ کا اعزاز حاصل ہے دو بار پارٹی میں پالیسی ایشوز پر تقسیم ہوکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔ ایک آزادی سے پہلے اور دوسری بار آزادی کے بعد۔ اس میں پہلی مثال 1907 کی تقسیم ہے جو ’سورات سپلٹ‘ کے نام سے مشہور ہے۔
سورات موجودہ گجرات جو اس وقت بمبئی پریزیڈنسی کا حصہ تھا میں موجود ایک شہر ہے جہاں 1907 کا کانگریسی سالانہ اجلاس منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس کی صدارت راش بہاری گوش کر رہے تھے جس میں کانگریس واضح دو دھڑوں یعنی انتہا پسند اور اعتدال پسند میں تقسیم ہو گئی۔
اعتدال پسندوں کا خیال تھا کہ سرکار کے ساتھ معاملات مصلحت پسندی کے ساتھ حل کیے جانے ہی میں عافیت ہے جبکہ انتہا پسند مزاحمت، بائیکاٹ، ہڑتال اور گھیروا پر یقین رکھتے تھے۔
دوسری تقسیم آزادی کے 22 برس بعد اندرا گاندھی کے دور میں ہوئی۔ میرے خیال میں اس کی ایک وجہ تو اندرا گاندھی کی کرشماتی شخصیت تھی۔ اندرا گاندھی کو نہرو کی بیٹی ہونے کے ناطے پارٹی امور پر بہت جلد کنٹرول حاصل ہو گیا تھا۔ پارٹی کے اندر کچھ رہنما اندرا سے عمر اور تجربے میں کافی بڑے یعنی نہرو کے ہم عمر تھے۔
پارٹی پالیسی اور حکومت میں اندرا کا بے حد اثر رسوخ اس تقسیم کا سبب بنے۔ پرانے رہنماؤں مثلاً مرار جی دیسائی، کے کامراج اور نیلم سنجیو ریڈی وغیرہ کو لگتا تھا کہ ان کی پارٹی میں اہمیت کم کی جا رہی ہے۔
پارٹی ڈسپلن کی مبینہ خلاف ورزی پر 12 نومبر کو اندرا گاندھی کو پارٹی سے نکال دیا گیا جس سے کانگریس آزادی کے بعد پہلی مرتبہ واضح طور پر دو بڑے دھڑوں میں بٹ گئی۔
اندرا کو پارٹی سے نکالنے پر کانگریس ورکنگ کمیٹی کے 65 فیصد ممبران چھوڑ کر اندرا کے کیمپ میں چلے گئے۔ ایک دھڑا جس کو مرار جی دیسائی پرانی یا سنڈیکیٹ کانگریس (کانگریس او) کہلایا اور دوسرا کانگریس (آر) جس کی قیادت اندرا کر رہی تھی معرض وجود میں آیا۔
1971 کے پارلیمانی انتخابات میں اندرا کی کانگریس نے بھاری اکثریت سے الیکشن جیتا اور حکومت بنائی۔ 1975 میں ایمرجنسی لگانے کی وجہ سے اندرا کی ساکھ کو 1977 کے الیکشنز میں سیاسی نقصان پہنچا۔
ان انتخابات میں جنتا پارٹی کے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد نے پہلی بار غیر کانگریسی حکومت بنائی اور دیسائی اس کے وزیر اعظم بنے۔ مرار جی دیسائی واحد بھارتی ہیں جنہیں پاکستان نے اپنے سب سے بڑے اعزاز، نشان پاکستان سے نوازا ہوا ہے۔
دیسائی جنتا پارٹی کی مدد سے وزیراعظم تو بن گئے لیکن ان کی کانگریس (او) پچھلے انتخابات سے بھی بد تر ثابت ہوئی اور آخر کار اسکو جنتا پارٹی میں ہی ضم کر دیا گیا۔ یہی جنتا پارٹی آگے چل کے موجودہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی بنی۔
کانگریس کی حکومت سازی
گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919 کے تحت پہلی مرتبہ براہ راست انتخابات کے ذریعے نمائندے چننے کی اجازت ملی لیکن اس میں ووٹ دینے والے بڑے بڑے زمیندار، یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل، لوکل باڈیز کے لوگ یا خطاب پانے والے لوگوں ہی کو جو بالکل تھوڑے تھے ووٹ کی اجازت تھی۔ کانگریس نے مہاتما گاندھی کی قیادت میں ان انتخابات کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔
1923 کے جنرل الیکشنز میں کانگریس کا ایک دھڑا انتخابات میں حصہ لے کر اسمبلی کے اندر بھی حکومت پر دباؤ بڑھانے کا خواہاں تھا۔ گاندھی نے پارٹی میں سورات تقسیم کی طرز پر مزید ممکنہ پھوٹ سے بچنے کے لیے آپشن دیا کہ جو الیکشنز لڑنا چاہے وہ لڑے جو نہیں چاہتا وہ نہ لڑے لیکن آخری منزل دونوں کی بھارت کی آزادی ہے۔
اس طرح انتخاب میں حصہ لینے والے گروپ کی خواہش پر سواراج پارٹی بنائی گئی جس نے مرکزی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے لیے مختص نشستوں میں سے 38 نشستیں جیتیں۔ اس کے علاوہ تمام صوبائی اسمبلیوں میں بھی نشستیں جیتیں لیکن حکومت کسی میں نہیں بنا پائی۔
اس پارٹی کے صدر راس بہاری گوش اور جنرل سیکریٹری موتی لال نہرو تھے۔ گورنمنٹ آف انڈیا 1935 کے تحت ہونے والے 1937 کے صوبائی انتخابات میں کانگریس نے پوری طاقت کے ساتھ حصہ لیا اور 11 میں سے آٹھ صوبوں میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
آزادی کے بعد 1969 تک تو کانگریس بھارت میں واحد غالب سیاسی جماعت تھی۔ اس کے بعد کچھ اپوزیش آوازوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایمرجنسی کے بعد پہلی بار غیر کانگریس حکومت بنی۔
1981 کے انتخابات میں دوبارہ کانگریس اقتدار میں آئی اور 1984 میں اندرا کے قتل کے بعد 1986 میں پھر واحد بڑی جماعت کے طور پر ابھر کے سامنے آئی۔
1989 میں راجیو گاندھی کے قتل کے بعد 1991 میں کانگریس نے اتحادی جماعتوں کے ساتھ حکومت بنائی۔
2004 تا 2014 یو پی اے نامی سیاسی اتحاد کی قیادت کرتے ہوئے 10 سال مزید اقتدار کے ایوانوں میں رہی۔ اس طرح کل ملا کر دیکھا جائے تو آزادی کے بعد کل 17 انتخابات میں سے سات میں کانگریس اکیلی آرام دہ اکثریت سے حکومت بنانے میں کامیاب رہی اور تین بار اتحادی حکومت کی قیادت کی۔
کانگریس میں گاندھی خاندان کا اثر رسوخ
کانگریس میں اس خاندان کے اثر رسوخ کو سمجھنے کے لیے ایک بار پھر تاریخ کے جھروکوں میں چلتے ہیں۔ 19 دسمبر 1929 کو پنجاب کے تاریخی شہر لاہور میں جو اس وقت پنجاب کا حصہ ہے کانگریس نے ’پرنا سواراج‘ یعنی انگریزوں سے مکمل آزادی کی قرارداد پیش کی تھی۔
یہ سال بھارت اور کانگریس کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے پہلے کانگریس کا سالانہ اجلاس کلکتہ میں ہوا تھا جس کی صدارت جواہر لال نہرو کے والد موتی لال نہرو نے کی تھی۔
جواہر لال نہرو اور ان کے والد جو دونوں پیشے سے وکیل تھے بھارت کی اور کانگریس سیاست غیر معمولی اہمیت کے حامل نام ہیں۔ 1928 میں کانگریس جو سائمن کمیشن رپورٹ مسترد کی تھی اور اس کے چیلنج میں جو نہرو رپورٹ بنائی تھی وہ بھی موتی لال نہرو نے تیار کی تھی۔ اس سے پہلے سواراج پارٹی جس کا مقصد پارلیمانی سیاست کرنا تھا میں اہم کردار موتی لال نہرو کا تھا۔
1931 میں والد کی وفات کے بعد جواہر لال نہرو اپنی بے پناہ سیاسی و دانشورانہ صلاحیتوں کی بدولت پارٹی میں نمایاں رہے۔ نہرو 1946 میں بننے والی عبوری حکومت کے سربراہ منتخب کیے گئے۔ تقسیم ہند کے بعد پہلے انتخابات سے لے کر آخری سانس تک لگا تار چودہ سال وہ وزیر اعظم رہے۔
نہرو کے بعد تھوڑے عرصہ کے لیے لال بہادر شاستری وزیر اعظم بنے۔ شاستری 65 کی پاک و ہندو جنگ بندی کے حوالے سے سویت یونین کی سربراہی میں تاشقند میں ہونے والے معاہدے کے بعد وفات پا گئے۔
اس کے بعد نوجوان اندرا گاندھی نے پارٹی اور حکومت کی کمان سنبھالی جو ان کے قتل تک ان ہی کے پاس رہی۔ اندرا کے بعد راجیو گاندھی جو 1989 میں قتل کیے گئے کا حکومت اور پارٹی پر مکمل کنٹرول رہا۔
راجیو کے بعد گاندھی فیملی پہلی بار بظاہر منظر نامے سے دور رہی لیکن 1998 میں سونیا گاندھی با ضابطہ طور پر عملی سیاست میں داخل ہوئیں اور پارٹی کی صدر منتخب ہوئیں جو 2017 تک رہیں۔
2017 تا 2019 تک راہل گاندھی رہے پھر تنقید کے بعد استعفی دے دیا۔ 2019 سے تا 19 اکتوبر 2022 تک وہ عبوری صدر ہیں۔ سونیا گاندھی کو بہت شاتر لیڈر مانا جاتا ہے 1998 میں پارٹی صدر بننے کے بعد جس طرح سے دوبارہ وہ پارٹی کو اقتدار میں لانے اور 10 سال تک یو پی اے سرکار کو پیچھے بیٹھ کے چلانے میں کامیاب رہیں وہ ایک منجھا ہوا سیاستدان ہی کر سکتا ہے۔
واجپائی کی قیادت میں کانگریس مخالف جماعتوں نے 1998 نے نیشنل ڈیموکریٹک آلائنس (این ڈی اے) بنایا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2004 میں سونیا گاندھی کی کاوشوں سے سیکولر جماعتوں پر مشتمل یونائٹیڈ پروگیسیو آلائنس (یو پی اے) وجود میں آیا۔ این ڈی اے کو لیڈ کرنے والی بڑی جماعت بی جے پی ہے جبکہ یو پی اے کو انڈین نیشنل کانگریس لیڈ کرتی ہے۔
کانگریس پارٹی میں گاندھی فیملی کے باہر کے صدر کی حیثیت
ترقی پذیر اور ترقی پسند ممالک کی سیاست میں مرکزی محور لیڈر کی کرشماتی شخصیت ہوتی ہے۔ مثلاً جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش میں شیخ مجیب اور ان کی وجہ سے ان کی بیٹی شیخ حسینہ۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی وجہ سے پیپلز پارٹی، نواز شریف کی وجہ سے مسلم لیگ وغیرہ۔
ٹھیک اسی طرح موتی لال نہرو کی وجہ سے جواہر لال نہرو جو خود بھی بہت بڑے لیڈر تھے۔ ان کی وجہ سے اندرا گاندھی اور اندرا گاندھی کی وجہ سے راجیو اور ان کی وجہ سے سونیا اور راہل گاندھی ہیں۔
یہ سوال کہ کیا اب گاندھی فیملی کو کوئی سیاسی نقصان ہوگا یا ان کا سیاسی کیریئر ختم ہوگیا ہے بالکل بے تکی اور تاریخ سے عاری اور حقیقت سے ماورا بات ہے۔
آزادی کے بعد اگر کانگریس پارٹی میں صدور کی فہرست پر نظر دوڑائی جائے تو زیادہ تر صدور گاندھی فیملی سے باہر کے ہی رہے ہیں لیکن پارٹی میں جو فیصلہ سازی ہوتی ہے اس میں گاندھی فیملی کا کردار اہم ہوتا رہا ہے۔
آزادی کے بعد اگر کانگریس کے اندر پارٹی انتخابات کی بات کی جائے تو یہ ساتواں الیکشن ہے اور کل 19 صدور میں سے 7 پارٹی انتخابات کے ذریعے ہی منتخب ہوئے باقی نامزد کیے جاتے رہے۔
اس میں گاندھی فیملی کی بات کی جائے تو تین سال نہرو، سات سال اندرا گاندھی، چھ سال راجیو گاندھی، 21 سال سونیا گاندھی اور دو سال راہل گاندھی گاندھی اس عہدے پر فائز رہے۔
سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ کانگریس میں گاندھی فیملی کے باہر سے بھی وہی شخص پارٹی صدر بنتا ہے جسکو اس فیملی کی آشیر باد حاصل ہوتی ہے۔
کانگریس کا دعویٰ ہے کہ بھارت کی تمام نیشل اور علاقائی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں پارٹی کے اندر جمہوری انتخاب کا جو شفاف طریقہ ہے وہ کسی دوسری جماعت میں نہیں۔
کانگریس کے مقابلے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی بات کی جائے تو اس میں اسی شخص کو پارٹی صدر نامزد کیا جاتا ہے جس کے سر پر ناگپور (آر ایس ایس ہیڈ کوارٹر) سے شفقت کا ہاتھ ہو۔
تھرور بمقابلہ ملک ارجن کھڑگے
اگست 2020 میں کانگریس کے 23 سینئر رہنماؤں نے کانگریس ہائی کمان کو کھلا خط لکھ کر پارٹی میں انتخابات کروانے کا اور نیا ڈھانچہ تشکیل دینے کی مانگ کی تھی۔ یہ گروپ میڈیا میں 23G کے نام سے مشہور ہوا۔
ششی تھرور بھی اس گروپ کا حصہ تھے۔ 23G کے دو بڑے رہنما کپل سبل اور غلام نبی آزاد کانگریس کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ غلام بنی آزاد نے اپنے استعفے میں کانگریس چھوڑنے کی ایک وجہ پارٹی کے اندر صدارتی و دیگر تنظیمی انتخابات نہ ہونا بھی بتائی تھی۔
اس وقت راہل گاندھی پارٹی کے کنیا کماری سے سری نگر تک بھارت جوڑو یاترا ابھیان کی قیادت کر رہے ہیں۔ یاترا سے پہلے پارٹی نے صدارتی انتخابات کا اعلان کیا تھا۔ تھرور کے علاوہ پہلے دو اور نام بھی آئے تھے جنہوں نے بعد میں نام واپس لے لیے۔
یہ دگ وجے سنگھ اور راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت تھے۔ دگ وجے نے اپنے کاغذات نامزد واپس لے لیے جبکہ اشوک گہلوت کے سامنے پارٹی کی ’ون مین ون پوسٹ‘ والی تکنیکی وجہ آڑے آ گئی۔
اس تکنیکی وجہ سے ملک ارجن کھڑگے ششی تھرور کے مقابلے میں کھڑے ہوئے۔ کھڑگے کے بارے میں بھی یہ خیال ہے کہ وہ گاندھی فیملی کی قابل بھروسہ شخصیت ہیں۔
17 اکتوبر بروز پیر پارٹی صدر کے لیے انتخابات ہوئے جن میں ملک بھر میں ساڑھے نو ہزار کے قریب ووٹرز کے 68 پولنگ سٹیشنز قائم کیے گئے تھے۔ ان سٹیشنز میں نو ہزار 385 ووٹ ڈالے گئے جن میں کھڑگے سات ہزار 897 ووٹ کی واضح اکثریت لے کر پارٹی کے 20ویں صدر بن گئے ہیں۔
ششی تھرور کو ایک ہزار 72 ووٹ ملے۔ 416 ووٹ مسترد بھی ہوئے۔ اس سے پہلے تھرور کیمپ کے کچھ لوگوں نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام بھی لگایا تھا۔
ششی تھرور سے متعدد بار جب سوال پوچھا جاتا رہا کہ گاندھی فیملی کا پسندیدہ امیدوار کون ہے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ گاندھی فیملی نیوٹرل ہے اور الیکشنز شفاف اور غیر جانبدار ہو رہے ہیں۔ تاہم نتائج آنے کے بعد ششی تھرور نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں نتائج تسلیم کرتے ہوئے کھڑگے کو مبارکباد پیش کی اور پارٹی کے مستقبل لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔
اس سے پہلے گاندھی فیملی خود بھی ان انتخابات میں نیوٹرل ہونے کا کہہ چکی ہے۔ انتخابات والے دن سونیا گاندھی کا ووٹ ڈالنے کے بعد کہنا تھا کہ وہ خود ایک عرصہ سے ان پارٹی انتخابات کا انتظار کر رہی تھیں۔