سوات، وزیرستان اور خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع سے ایک خبر بڑے تواتر کے ساتھ آ رہی ہے کہ طالبان واپس آ چکے ہیں۔
کوئٹہ میں گذشتہ ہفتے پولیس وین پر ہونے والے خود کش حملے نے تو ایک طرح سے سب کو لرزہ دیا ہے کہ کیا پاکستان میں ایک بار پھر وہی دور واپس آنے والا ہے جب روزانہ کسی نہ کسی جگہ خود کش حملے کی خبر آتی تھی۔
بنوں کے علاقے جانی خیل میں ہونے والا حملہ خاصا تشویش ناک ہے جس میں ایف سی کے ایک اہلکار کو گھر میں گھس کر بیٹے سمیت نہ صرف قتل کیا گیا بلکہ قاتل جاتے ہوئے ایف سی اہلکار کا سر بھی کاٹ کر لے گئے، جسے بعد ازاں قریبی بازار میں ایک خط کے ہمراہ رکھ دیا گیا کہ سرکار کے لیے جاسوسی کرنے کا یہی انجام ہو گا۔
اس سے قبل ایسے واقعات 2013 تک پاکستان میں تواتر سے ہوتے رہے ہیں تا وقتیکہ پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کر کے ان کے ٹھکانوں کو تباہ نہیں کر دیا۔
گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق 2003 سے 2017 کے درمیان پاکستان، افغانستان کے بعد دہشت گردی سے متاثر ہونے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر تھا۔ اس عرصے میں افغانستان کی سکیورٹی فورسز کے 14 ہزار 200 اور پاکستان کے چھ ہزار اہلکار دہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ بنے جبکہ امریکہ کی سکیورٹی فورسز کے ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی تعداد دو ہزار 357 اور اتحادی افواج کی ہلاک شدگان کی تعداد ایک ہزار 130 تھی۔
حکومت پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس عرصے میں 50 ہزار شہری بھی دہشت گرد حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے اور پاکستانی معیشت کو دہشت گردی سے ہونے والے مجموعی نقصان کا تخمینہ 123 ارب ڈالر بتایا گیا۔
دہشت گردی کی نئی لہر کیوں آئی؟
15 اگست 2022 کو طالبان نے کابل پر فتح کی سالگرہ منائی۔ اس ایک سال میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھی خطرناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کے کابل میں قبضے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں51 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔
15 اگست 2021 سے 14 اگست 2022 کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے کل 250 واقعات ہوئے جن میں 433 افراد ہلاک اور 719 زخمی ہوئے۔ ایک سال پہلے اسی عرصے میں 165 حملے ہوئے تھے جن میں مرنے والوں کی تعداد 294 تھی۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کی فتح، افغانستان میں موجود غیر ملکی عسکری گروہوں کے لیے بھی ایک شاندار خبر تھی اور اب وہ اپنے اہداف کو وسطی اور جنوبی ایشیا سمیت عالمی سطح پر پھیلانے کے لیے مزید پرجوش ہو گئے ہیں۔
افغانستان میں القاعدہ کے ساتھ جو دہشت گرد گروہ موجود ہیں ان میں اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ، تحریک طالبان پاکستان اور اسلامک سٹیٹ خراسان شامل ہیں جبکہ طالبان صرف اسلامک سٹیٹ خراسان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں کیوں کہ انہوں نے طالبان کے اقتدار کو چیلنج کیا ہوا ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں طالبان کی اتحادی ہے اس لیے جب وہ پاکستان میں طالبان طرز کا نظام قائم کرنے کے لیے مسلح جدوجہد کا اعلان کرتی ہے تو افغان طالبان کتنی دیر تک خود کو اس مسئلے پر غیر جانبدار ثابت کر سکیں گے۔
ٹی ٹی پی، افغان طالبان کو اپنا رول ماڈل قرار دیتی ہے۔ 28 نومبر کو پانچ ماہ سے جاری سیز فائر ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی 30 نومبر کو ٹی ٹی پی کے ایک خود کش حملہ آور نے کوئٹہ میں پولیس کی بس کو نشانہ بنایا، جس میں پولیس اہلکار سمیت چار افراد ہلاک جبکہ 20 سے زائد زخمی ہو گئے۔
طالبان نے اس کارروائی کو اپنے ایک رہنما عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کا بدلہ قرار دیا جو کہ اگست میں افغانستان میں ایک حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
سیز فائر کے بعد خطرہ کس حد تک بڑھ چکا ہے؟
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی جانب سے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے اعدادوشمار کے مطابق یکم ستمبر سے چھ دسمبر 2022 کے درمیان کے تین ماہ میں ملک بھر میں دہشت گردی کے 72 واقعات میں 71 افراد مارے جا چکے ہیں جن میں 20 شہری جبکہ باقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ہیں۔
(بشکریہ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز)
کیٹیگری | ہلاک | زخمی |
ایف سی | 4 | 7 |
عسکریت پسند | 6 | 0 |
عام شہری | 20 | 99 |
پولیس | 34 | 19 |
فوج | 7 | 20 |
کل | 71 | 145 |
فاٹا سے نکل کر لکی مروت، پشاور، کوہاٹ، چارسدہ، مردان، سوات اور شانگلہ کے اضلاع تک یہ حملے پھیل چکے ہیں۔
صفدر سیال جو کہ دہشت گردی کے حوالے سے محقق اور تجزیہ کار ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ کہنا کہ پاکستان اور طالبان کے درمیان سیز فائر ختم ہونے سے دہشت گردی بڑھی ہے شاید مکمل طور پر درست نہیں کیوں کہ یہ سیز فائر صرف تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے تھا جبکہ گل بہادر گروپ، اسلامک سٹیٹ (داعش) اور مقامی طالبان حملے جاری رکھے ہوئے تھے۔
دوسری جانب افغانستان میں طالبان کی واپسی سے دیگر عسکریت پسند گروہوں کو بھی تقویت ملی ہے کہ وہ بھی اس طریقے سے اقتدار حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لیے وہ سیز فائر سے پہلے ہونے والے حملوں کو دفاعی حملے قرار دے رہے تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’حالیہ حملوں کا مقصد نئی فوجی قیادت کو دباؤ میں لانا ہے لیکن سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اس بار جارحانہ حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کچھ ہفتے پہلے لکی مروت میں طالبان کے حملے میں چھ پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ اس آپریشن میں سکیورٹی اداروں نے گن شپ ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ طالبان کے خلاف اس بار نرم گوشہ کہیں بھی موجود نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اب کی بار جو آپریشن کیے جا رہے ہیں ان میں ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے۔ صرف نومبر میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہونے والے آپریشنز میں ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کی تعداد 50 سے زیادہ ہے۔ ٹی ٹی پی نے پاکستانی نوجوانوں کے نام ایک خط بھی جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں افغان طرز کا نظام لانے کے لیے اس کا ساتھ دیں۔‘
صفدر سیال نے کہا کہ ’ٹی ٹی پی کے مطالبات میں سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ فاٹا کا انضمام ختم کریں تاکہ فاٹا کی پہلے والی حیثیت بحال ہو جائے جہاں وہ اپنی طرز کا نظام چلا سکیں کیوں کہ سوات میں انہوں نے واپس آ کر چیک کر لیا ہے کہ اب عوام انہیں کسی صورت قبول نہیں کریں گے بلکہ وہ مزاحمت بھی کریں گے۔ اس لیے وہ فاٹا میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان اپنا الگ زون بنانا چاہتے ہیں جہاں ان کا اقتدار ہو اور جہاں وہ افغانستان سے اپنے اپنے گروہوں سمیت واپس آ کر رہ سکیں۔‘
دوسری جانب پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے اندر بھی طالبان کے خلاف شدید مزاحمت موجود ہے بالخصوص اے این پی اور پیپلز پارٹی میں، جنہوں نے ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ پارلیمنٹ کی منظوری سے مشروط کر دیا ہے۔
اس لیے خطرہ ہے کہ ٹی ٹی پی ان دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے۔ ان تمام تر خطرات کے باوجود ٹی ٹی پی پہلے کی طرح اپنی رٹ قائم نہیں کر سکتی۔
افغان طالبان کہاں کھڑے ہیں؟
طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد پاک افغان سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے وفاقی وزیر ساجد طوری نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’کرم سرحد پر افغانستان کی جانب سے شہری آبادی کو نشانہ بنانا قابل مذمت ہے۔ طالبان کی جانب سے ڈیورنڈ لائن پر لگائی جانے والی باڑ کو تسلیم نہ کرنے سے یہ سوال پھر اٹھ گیا ہے کہ کابل میں طالبان کی حکومت، اسلام آباد کی کتنی وفادار ہے؟‘
مصنف اور افغان امور کے تجزیہ کار عقیل یوسف زئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ افغان طالبان کو خطرہ ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کا پاکستان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ ہوا تو یہ لوگ اسلامک سٹیٹ میں شامل ہو سکتے ہیں۔
’ایک ہفتہ پہلے کابل میں پاکستانی سفارت کار پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی ذمہ داری اسلامک سٹیٹ نے قبول کی ہے۔ جس کی تصدیق کرتے ہوئے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ دو حملہ آور وں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جن میں سے ایک غیر ملکی ہے۔
انہوں نے اس کی قومیت تو نہیں بتائی لیکن یہ حملہ اسلامک سٹیٹ اور طالبان مخالف قوتوں نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ یہ حملہ دونوں ممالک کے تعلقات میں دراڑ ڈالنے کی سازش تھی۔‘
اسلامک سٹیٹ کی کارروائیاں اپنی جگہ، ٹی ٹی پی بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں رخنہ ڈال سکتی ہے۔ دونوں ممالک ٹی ٹی پی کے ایشو کو زیادہ دیر آگے لے کر چل نہیں سکتے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی نئی فوجی قیادت اس مسئلے سے کیسے نمٹتی ہے؟