قطر میں فٹ بال کا ورلڈ کپ اختتام پذیر ہونے کے قریب ہے، اس ٹورنامنٹ میں پاکستان میں بنے تین ہزار فٹ بال استعمال ہوئے، جبکہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان ورلڈ کپ کے دوران اور اس کے بعد اسی نمونے کے تقریباً 80 لاکھ مزید فٹ بال دنیا کو فروخت کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
فیفا ورلڈ کپ کے دوران سکیورٹی کے لیے پاکستان کے 4500 فوجی بھی قطر گئے۔
خلیجی ملک قطر کی اپنی آبادی 30 لاکھ سے کم ہے، جبکہ یہاں 22 لاکھ سے زیادہ غیر ملکی کام کی غرض سے مقیم ہیں، جن میں سے تقریباً دو لاکھ پاکستانی بھی شامل ہیں۔
قطر میں گذشتہ 12 سالوں میں ورلڈ کپ کے لیے جو تعمیراتی ڈھانچہ بنایا گیا اس پر 220 ارب ڈالر کی لاگت آئی، جس میں بڑی رقم دوحہ میٹرو اور حماد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر پر صرف ہوئی، جبکہ فٹ بال سٹیڈیمز بنانے پر تقریباً 10 ارب ڈالر کی لاگت آئی۔
اس طرح قطر کے اس تعمیراتی ڈھانچے میں پاکستانی ورک فورس کا بنیادی کردار رہا۔
گلف ریسرچ سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق غیر ملکی کارکنوں میں سب سے بڑی تعداد (تقریباً ساڑھے چھ لاکھ) انڈین شہریوں کی ہے، دوسرے نمبر پر نیپال اور بنگلہ دیش ہیں، جبکہ پاکستان اس فہرست میں دو لاکھ ورکرز کے ساتھ ساتویں نمبر پر ہے۔
قطر نے ورلڈ کپ کے تناظر میں مزید دو لاکھ پاکستانیوں کو اپنے ہاں نوکریاں دینے کا اعلان کیا، جس میں سے اب تک صرف 46 ہزار لوگ ہی خلیجی ملک جا پائے ہیں، باقی ڈیڑھ لاکھ کو قطر کا ویزہ ہی جاری نہیں ہو سکا۔
قطر کے ویزے کیوں جاری نہیں ہوئے؟
اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن پاکستان کے سابق چیئرمین اور ایگزیکٹیو ممبر ایف پی سی سی آئی سرفراز ظہور چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 2019 تک پاکستان میں روانگی سے قبل طبعی معائنہ گلف کوآپریشن کونسل کے تحت ہوتا تھا، جس کے پاکستان میں 57 مراکز موجود ہیں، جہاں سے ورک ویزہ کے حامل لوگوں کو میڈیکل فٹنس سرٹیفکیٹ جاری ہوتے تھے۔
قطر بھی اسی کونسل کا ممبر تھا، لیکن 2019 میں قطر نے پاکستان کے لیے اپنا الگ سیٹ اپ بنا لیا۔
سابق حکومت کے دور میں اسلام آباد اور کراچی میں قطر کے دو ویزہ سینٹر قائم کیے گئے، جن کی ویزہ درخواتیں پراسیس کرنے کی صلاحیت صرف 180 ہے، جو ورلڈ کپ کے حوالے سے زیادہ ویزوں کی ضرورت پیش آنے پر ناکافی ثابت ہوا۔
اس لیے قطر سے پاکستانیوں کے لیے جو ویزے اورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کے ذریعے قطر سے آئے، وہ پراسیس ہی نہیں ہو پائے اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ پاکستانی قطر میں نوکریوں سے محروم رہ گئے۔
سرفراز ظہور چیمہ نے مزید بتایا کہ پاکستانی حکومت کو اس سلسلے میں پیش بندی کے پیش نظر یہاں موجود قطر ویزہ سینٹرز کو توسیع دینے کے لیے دوحہ سے مذاکرات کرنے چاہیے تھے، لیکن یہاں اوورسیز پاکستانیوں کی متعلقہ وزارت نے اس سلسلے میں کوئی کام نہیں کیا۔
’بلکہ وزارت میں ڈائریکٹر جنرل بیورو آف امیگریشن کی جو سب سے اہم پوسٹ ہے، وہ گذشتہ کئی ماہ سے خالی پڑی ہے، جس کی وجہ سے مسائل کا انبار لگا ہوا ہے۔‘
مسئلہ ہے کیا؟
سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ان مسائل کو وزارت کا بیورو آف امیگریشن دیکھتا ہے لیکن اس بیورو کے ڈی جی کی پوسٹ خالی پڑی ہے، جبکہ ایڈیشنل ڈی جی کی پوسٹ پر دس سال سے کوئی تعیناتی ہی نہیں ہو سکی اور ڈائریکٹر بھی کوئی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وزارت میں ترقیوں کا عمل ہی رکا ہوا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا: ’یہ درست ہے کہ قطر ویزہ سینٹر غیر معمولی حالات کے تحت ویزہ پراسیس کی صلاحیت نہیں رکھتا، شاید انہیں پتہ ہے کہ ورلڈ کپ کی وجہ سے سینٹر پر اضافی بوجھ پڑا تھا جو اب ختم ہو جائے گا۔‘
قطر سے دو لاکھ ویزے ملنے کے تاثر کو رد کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ دوحہ نے 2016 میں پاکستان کو ورلڈ کپ کے لیے ایک لاکھ ویزوں کا وعدہ کیا تھا، تاہم وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ کے دوران اسلام آباد نے ایک لاکھ مزید کا مطالبہ رکھا۔
اس حوالے سے سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کے جوائنٹ سیکریٹری محمد زبیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اسلام آباد قطر سے مزید دو ویزہ سینٹرز کے قیام کی بات کر رہا ہے، جس پر جلد عمل درآمد کی امید ہے۔
بیرون ملک پاکستانی ورک فورس
بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق 1971 سے ستمبر 2022 تک ایک کروڑ 22 لاکھ پاکستانی بیرون ملک گئے، جن میں سب سے زیادہ (تقریباً 62 لاکھ) سعودی عرب، 40 لاکھ 65 ہزار متحدہ عرب امارات جبکہ عمان، قطر، بحرین اور کویت میں مجموعی طور پر 15 لاکھ 88 ہزار پاکستانی جا چکے ہیں۔
ان بیرون ملک پاکستانیوں میں سے 42 فیصد غیر ہنر مند کارکن ہیں۔
اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین سرفراز ظہور چیمہ کے مطابق کرونا کے بعد پوری دنیا کو لیبر کی کمی کا سامنا ہے، تاہم پاکستان میں تربیت یافتہ ہنر مند افراد کی شدید کمی ہے، جس کی وجہ سے جاپان، جنوبی کوریا اور رومانیہ میں موجود طلب کے پیمانوں کو پورا نہیں کیا جا سکا۔
’اب بھی یورپ میں 20 لاکھ کارکنوں کی ضرورت ہے، جبکہ صرف جرمنی کو 22 لاکھ ورکرز درکار ہیں، مگر وہاں کے اداروں کو جن تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے وہ ہمارے پاس موجود نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ قطر میں فٹ بال ورلڈ کپ کے بعد جو سرمایہ کاری ہونے والی ہے اس کا تخمینہ 66 ارب ڈالر ہے اور وہاں مزید پاکستانی ہنر مندوں کی کھپت ہو سکتی ہے۔
ان کے خیال میں اگر حکومت نجی شعبے کے ساتھ مل کر لائحہ عمل تشکیل دے تو پاکستان اپنی افرادی قوت کے ذریعے ملک میں زرمبادلہ کی کمی کو با آسانی پورا کر سکتا ہے۔