سینیٹ میں مردم شماری پر تحفظات اور سوالات

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں جمعرات کو مردم شماری سے متعلق اٹھنے والے سوالات پر تمام شراکت داروں کی رائے لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

پاکستان میں آئندہ عام انتخابات سے قبل ڈیجیٹل مردم شماری کا عمل جاری ہے جس پر مختلف جماعتوں کی جانب سے اعتراضات سامنے آ رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں جمعرات کو مردم شماری سے متعلق اٹھنے والے سوالات پر تمام شراکت داروں کی رائے لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اس حوالے سے اگلے ہفتے سینیٹ کی کمیٹی آف دا ہول کا اجلاس طلب کیا ہے۔

اس وقت ملک میں آئندہ عام انتخابات سے قبل ڈیجیٹل مردم شماری کا عمل جاری ہے جس پر مختلف جماعتوں کی جانب سے اعتراضات سامنے آ رہے ہیں۔

جمعرا کو ہونے والے سینیٹ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہرامند تنگی نے مردم شماری کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے حکومت سے مردم شماری سے متعلق سوال کیا تھا کہ عام انتخابات سے قبل مردم شماری کا عمل کب تک مکمل ہوگا۔

’میرے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ 30 اپریل تک مردم شماری مکمل ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت ہم انتخابات کی باتیں سن رہے ہیں، تو کیا وہ انتخابات نئی مردم شماری پر ہوں گے؟‘

انہوں نے سوال اٹھایا کہ قبائلی علاقوں میں سال 2017 میں مردم شماری ہو چکی تھی۔ ’اب وہاں کے رہائشیوں کا مطالبہ ہے کہ اس سال وہ اپنے علاقوں میں موجود نہیں تھے، اس لیے ان کی آبادی کم دکھائی گئی ہے۔ ان کے یہ تحفظات ہیں، دوسرا مردم شماری مکمل ہی نہیں ہوئی تو ہم الیکشن کا مطالبہ کیسے کر رہے ہیں؟‘

جس پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ سال 2017 کی مردم شماری پر کافی اعتراضات آئے تھے۔ ’پارلیمان میں بیٹھی تمام سیاسی جماعتوں کا اجلاس ہوا جس میں یہ معاہدہ ہوا کہ 2018 کے انتخابات پروویژنل مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے۔‘

’ہمارے یہاں رائج نظام کے مطابق حلقہ بندیاں آبادی کے تناسب سے ہوتی ہیں۔ تمام جماعتوں نے اس معاہدہ پر دستخط کر دیے کہ 2023 کے انتخابات سے قبل مردم شماری ہوگی جو ڈیجیٹل ہوگی۔‘

انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں 2018 کے انتخابات کو آئین کے مطابق رکھنے کے لیے آرٹیکل 51 میں ترمیم بھی کی گئی۔ 

اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ سال 2018 کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی حکومت آئی اور وہ معاہدہ کا حصہ تھے۔ انہیں متعدد بار کہا گیا کہ مردم شماری کروائیں، آخرکار انہوں نے گذشتہ سال مردم شماری کروانے کا اعلان کیا اور موجودہ حکومت نے اس پر عمل کرتے ہوئے مردم شماری کے لیے 35 ارب روپے فنڈ رکھے۔ 

’نئی مردم شماری کو 30 اپریل سے پہلے پورا کرنا ہے۔ اس عمل کے پورا ہونے کے دوران کیا عام انتخابات ہو سکتے ہیں سے متعلق سوال ایک آئینی سوال ہے۔ مردم شماری کے نتائج آ جاتے ہیں پھر حلقہ بندیاں اور انتخابات اسی مردم شماری پر ہوں گے۔‘

’متنازعہ مردم شماری کو کوئی نہیں مانے گا‘

اعظم نذیر تارڑ کے جواب کے بعد متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے فیصل سبزواری نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ہونے والی مردم شماری پر سندھ اور خاص طور پر کراچی شہر، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو تحفظات تھے۔ اسی لیے اس وقت تمام جماعتوں نے کہا کہ اس کا آڈٹ کیا جائے۔ 

فیصل سبزواری نے کہا کہ ’اب سامنے آنے والی بات جو پریشان کن ہے کہ اب بھی 35 ارب روپے مختص کرنے اور ڈیجیٹل مردم شماری قرار دیے جانے کے بعد بھی اگر لوگوں کے ذہنوں میں خدشات پلنا شروع ہو جائیں، چیف سینسس کمشنر یہ کہیں کہ رہائشی بلاکس میں صرف سات فیصد اضافہ ہوا ہے اور house hold کی تعداد میں بھی اتنا اضافہ ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے وہ اپنے حساب سے نمبر نکال کر بیٹھے ہیں، اس طرح کی مردم شماری کو کوئی نہیں مانے گا۔‘ 

’ڈیجیٹل مردم شماری میں نادرا کو آن بورڈ لیا جائے، جتنے لوگ گِنے گئے اس گھر کے سربراہ کو بتایا جائے۔ مردم شماری صرف نشستوں نہیں وسائل کی تقسیم کا معاملہ ہے۔ شفاف اور قابل قبول بنانے کے لیے سب سیاسی جماعتوں کو سنا جائے، متنازعہ مردم شماری کو کوئی نہیں مانے گا۔ اربوں روپے لگا کر اگر متنازعہ مردم شماری کی گئی تو کیا فائدہ ہوگا؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سینیٹر ہدایت اللہ نے سوال کیا کہ مردم شماری کے بعد کیا آئینی ترمیم کی بھی ضرورت ہوگی؟ کیونکہ 25 آئینی ترمیم کے مطابق کہ نشستیں کم کر دی گئی ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ سینیٹ کے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے۔

’مردم شماری کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے تو کی جا سکتی ہے‘

وفاقی وزیر خزانہ اور سینیٹ میں قائد ایوان اسحاق ڈار نے کہا کہ اس وقت الیکٹرانک دنیا ہے اور نادرا بھی موجود ہے۔ ہم مردم شماری پر اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں جو پاکستان برداشت نہیں کر سکتا، اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آنی چاہیے۔ ماہر اس بات کو دیکھ سکتے ہیں کہ ان اخراجات کے بجائے آٹومیٹک طریقے سے مردم شماری کا سسٹم اپ ڈیٹ ہوتا رہے۔ 

’ماڈرن طریقہ سے مردم شماری کے لیے آئینی ترمیم کی اگر ضرورت ہے تو کی جا سکتی ہے۔ مردم شماری 1971 کی طرز پر کی جا رہی ہے۔ اگر انتخابات ابھی ہوتے ہیں تو پرانی حلقہ بندیوں پر ہوں گے۔ دو حکومتیں اب بن جائیں تو کیا اکتوبر میں شفاف انتخابات ہوں گے؟‘

بعد ازاں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے مردم شماری کے حوالے سے تمام شراکت داروں کو بلاتے ہوئے اگلے ہفتے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اس سے متعلق اگر کوئی قانون سازی کرنی ہو تو وہ بھی کر لیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست