باجوڑ جرگہ: ’مردم شماری سے قبل انتخاب ہوئے تو بائیکاٹ ہوگا‘

ضلع باجوڑ کے ایک جرگے نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے ڈیجیٹل مردم شماری سے قبل انتخابات نہ کروانے کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر درخواست مسترد کر دی گئی تو قبائل الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے۔

14 مارچ 2023 کی اس تصویر میں خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں ادارہ برائے شماریات کے اہلکار ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے لوگوں کے کوائف اکٹھے کر رہے ہیں (اے ایف پی)

صوبہ خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ کے ایک جرگے نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے ڈیجیٹل مردم شماری سے قبل انتخابات نہ کروانے کی درخواست کی ہے، اور کہا ہے کہ اگر درخواست مسترد کر دی گئی تو قبائل الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے۔

سپریم کورٹ کے حکم پر خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کے لیے 28 مئی کی تاریخ دی گئی ہے۔

اتوار کو باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) کی سربراہی میں مختلف سیاسی جماعتوں اور عمائدین علاقہ کی جانب سے یہ جرگہ منعقد کیا گیا تھا، جس کے دوران الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ڈیجیٹل مردم شماری سے قبل الیکشن نہ کروائے۔

 باجوڑ میں جے یو آئی کے امیر اور سابق سینیٹر مولانا عبدالرشید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دراصل یہ نکتہ الیکشن کمیشن کے سامنے لانا سیاسی نہیں بلکہ سماجی مسئلہ ہے، جس کا مقصد اپنے بنیادی حقوق کا حصول ہے۔

مولانا عبدالرشید کے مطابق: ’صرف ہم نے ہی جرگہ منعقد نہیں کیا تھا بلکہ قبائلی اضلاع کے مختلف حصوں میں متفقہ طور پر اس مسئلے کو اٹھایا گیا، کیونکہ یہ قبائلیوں کا بنیادی مطالبہ ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’ہمارا ماننا ہے کہ اس سے قبل جو مردم شماری ہوئی ہے وہ زمینی حقائق کے مطابق نہیں تھی، جس کی وجہ سے ایک لمبی مدت تک پشتون اپنے حصے اور وسائل سے محروم رہے اور اب اگر دوبارہ مردم شماری پوری ہوئے بغیر الیکشن ہوئے تو نہ جانے پھر کتنے سال پشتون اپنے حقوق سے محروم رہیں گے۔‘

قبائلی جرگے میں باجوڑ سے شامل پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اخونزادہ چٹان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ حالات پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے لیے سب سے زیادہ موزوں نہیں ہیں اور ڈیجیٹل مردم شماری بھی پوری نہیں ہوئی، الیکشن کرنا کسی طور مناسب نہیں ہوگا۔

اخونزادہ چٹان کے مطابق: ’ہم یہ نہیں کہتے کہ انتخابات نہ ہوں۔ ضرور ہوں لیکن ہمارے کچھ تحفظات ہیں، جن میں سے ایک امن و امان کی صورت حال، ڈیجیٹل مردم شماری اور کچھ دوسرے نکات شامل ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’2017 کی مردم شماری میں باجوڑ کی آبادی کو تقریباً دس لاکھ بتایا گیا حالانکہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور پولیو ویکسین سروے کے مطابق یہ آبادی 17 لاکھ 27 ہزار ہے۔ اس فرق کی وجہ سے ہماری جو نشستیں قومی اسمبلی میں دو بنتی تھیں، وہ ایک رہ گئیں اور صوبائی اسمبلی میں ہمیں پانچ نشستیں مل سکتی تھیں، وہ تین رہ گئیں۔‘

پاکستان تحریک انصاف وقت موجودہ مسائل کا حل انتخابات میں دیکھ رہی ہے اور اس جماعت کے تمام ارکان، رہنما اور کارکنان ملک میں الیکشن کے لیے آواز اٹھاتے ہوئی نظر آرہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے حوالے سے اخونزادہ چٹان نے کہا کہ اگر دیکھا جائے تو یہ حالات تحریک انصاف کے لیے بھی موزوں نہیں ہیں کیونکہ حالات ان کے حق میں نہیں ہیں۔

’اب ان کے ساتھ وہ حمایت بھی نہیں رہی ہے۔ نہ ہی ان کے ساتھ عوام کی اکثریت ہے۔ نتیجہ ان کی ہار کی صورت میں سامنے آئے گا جو ایک نئے فساد اور بگاڑ کو جنم دے گا، لہذا بہتر ہوگا کہ پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں اور ایک حل نکالیں۔‘

اخونزادہ چٹان نے جرگے کے دوران اپنے ایک بیان میں کہا کہ 2017 کی مردم شماری کو پشتونوں سمیت سندھی اور بلوچی بھی رد کرچکے ہیں، کیونکہ یہ حقائق کے مطابق نہیں تھے۔

اگرچہ ایک جانب پیپلز پارٹی کے باجوڑ میں سیاسی رہنما نے موجودہ صورت حال میں انتخابات نہ کرنے پر زور دیا تو دوسری جانب پیپلز پارٹی کے موجودہ وزیر مملکت فیصل کریم کنڈی نے اتوار ہی کے دن مانسہرہ کے علاقے بفا میں بیان دیا کہ وہ اور ان کی جماعت انتخابات کے لیے تیار ہیں اور اپنے حریفوں کا بھرپور مقابلہ کریں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما کامران بنگش سے رابطہ کرکے پوچھا کہ ایک جانب پشتونوں کے حقوق کی بات ہو رہی ہے اور دوسری طرف وہ الیکشن کا انعقاد چاہتے ہیں، تو ایسی صورت میں ان کا جھکاؤ کس جانب ہوگا؟ جس پر سابق وزیر تعلیم کامران بنگش نے کہا کہ دراصل مردم شماری کا نکتہ اٹھانا پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی اسی کڑی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ ملک میں انتخابات ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔

’اگر اتنا ہی اپنے حقوق کا خیال تھا یا ہے تو جس وقت ہم صوبے کے حقوق اور ترقی کے لیے وفاق سے اپنا حصہ مانگ رہے تھے اور میں نے اس سلسلے میں تیمور جھگڑا کے ساتھ سات پریس کانفرنسز کیں، تب یہ ہمارا ساتھ کیوں نہیں دے رہے تھے۔ ان کی خاموشی تب کیوں تھی اور اب کیوں بول رہے ہیں، کیونکہ انتخابات کو روکنا ہی ان کا درپردہ مقصد ہے۔‘

کامران بنگش نے مزید کہا کہ حلقہ بندیاں کرانا وفاق کے ہاتھ میں ہے۔

’اگر وفاق پشتونوں کا حق اب تک نہیں دے رہا تو چاہے دو کی جگہ پانچ نیشنل اسمبلی کی نشستیں ہی کیوں نہ مل جائیں، حقوق نہیں ملیں گے اور پھر کیا جمہوریت اور کیا عوام کی حکمرانی رہے گی۔‘

پی ٹی آئی رہنما کامران بنگش نے واضح الفاظ میں کہا کہ مردم شماری سے الیکشن اور الیکشن سے مردم شماری کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔

باجوڑ میں ہونے والے جرگے کے بعض ارکان نے ان تحفظات کا بھی اظہار کیا کہ اگر صوبوں میں الیکشن ہوئے تو نگران حکومت کی نگرانی رہے گی، تاہم جس وقت قومی انتخابات ہوں گے، تب کون اس کی نگرانی کرے گا۔

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مرکزی ترجمان قرۃ العین سے بھی رائے جاننے کی کوشش کی، تاہم انہوں نے اس کا جواب دینے سے گریز کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان