محبوب کا دل جیتنے کے لیے عاشق کا اس کے قدموں میں پھول بچھانا تو کوئی انوکھی بات نہیں، کمال یہ ہے کہ محبوب اپنے محبوب کے استقبال کے لیے تاحد نظر رنگا رنگ پھولوں کا قالین بچھا دے اور ہر قدم، اودے، پیلے، نیلے اور عنابی پھولوں کی پتیاں گہرے سبز قالین پر بکھری دکھائی دیں۔
برف پوش چوٹیوں سے قطرہ قطرہ پگھل کر آنے والا شفاف پانی مخمور سانپ کی طرح اس مرغزار میں لوٹ پوٹ ہوتا نظر آئے۔ بادل اوس کے مشکیزے بھر بھر کر نیچے گہری وادیوں سے بلند ہوں اور گھڑی دو گھڑی میں اس سبزہ زار کو جل تھل کر کے اگلی وادیوں کا رخ کر لیں۔ ہوا کے دوش پر بادل جب اڑ کر اگلی منزلوں کا رخ کرتے ہیں تو پیچھے نیلگوں آسمان کی چھتری تلے منظر اور بھی اجلا ہو جاتا ہے۔
سوات کی تحصیل بحرین سے قریبا 25 کلومیٹر دور وادی مانکیال میں 10 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع چوکیل بانڈہ ایک ایسا خطہ ارضی ہے جہاں فطرت نے حسن کے تمام دلفریب رنگ اپنے دامن میں سمو رکھے ہیں۔ مانکیال کے بلند و بالا پہاڑ چاروں اطراف اس چمن زار کی حفاظت پر مامور دکھائی دیتے ہیں۔ ان پہاڑوں کی چوٹیاں سارا سال برف میں ڈھکی رہتی ہیں اور ان سے منعکس ہو کر پورا منظر قوس قزح میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
پنجاب کے میدانی علاقوں میں جیسے جیسے دھوپ کی تمازت بڑھنا شروع ہوتی ہے تو یہ حدت آہستہ آہستہ سوات کی پہاڑیوں کا رخ کرتی ہے اور یوں پہاڑوں کی چوٹیوں سے متصل ان چراگاہوں میں بہار جلوہ افروز ہو جاتی ہے۔
چوکیل بانڈہ کے کناروں پر بنے لکڑی، پتھر اور مٹی کے گھر اس منظر کو مزید دیدہ زیب بنا دیتے ہیں۔ آوارگان فطرت جب چوکیل میں بہار کے ابتدائی دنوں میں پہنچتے ہیں تو سامنے سبز گھاس میں ڈھکے ٹیلوں پر ان گھروں میں ابھی اس کے مکین نہیں پہنچے ہوتے کیوں کہ ابھی چوکیل بانڈہ میں برف کو پگھلے چند دن ہی ہوئے ہیں۔
اس چراہ گاہ کے بیس کیمپ یعنی کمرخوا گاوٴں میں بسنے والے گجر بکروال ابھی اس انتظار میں ہیں کہ چوکیل میں سبزہ قد نکال لے اور بہار اپنے جوبن پر آ جائے تو پھر وہ اپنے ریوڑوں کے ساتھ ان مکانوں میں آ کر آباد ہوں تاکہ ان کے جانور نرم گھاس اور انواع اقسام کی جڑی بوٹیوں کو خوراک بنا کر فربہ ہو جائیں اور پھر لذت کام و دہن کا باعث بن سکیں۔
سوات کی اس خوبصورت چراہ گاہ تک پہنچنے کے لیے صرف مضبوط ٹانگوں کا آسرا ہی کافی نہیں بلکہ پھولتی سانسوں کو سہارا دینے کے لیے ہمت اور حوصلے کی بلندی بھی درکار ہوتی ہے۔ عمودی دشوار گزار راستے پر ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوتا ہے کہ ایک لمحے کی لغزش آپ کا سفر کھوٹا کر سکتی ہے۔ اس راستے پر بادل مسافروں کے سنگ اٹھکیلیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
چوکیل کے لیے پیدل چلتے ہوئے جب پتھروں پر یک دم چیڑھ کے درخت سینہ تانے نظر آئیں تو مسافر کو لگتا ہے کہ شاید وہ منزل کے قریب ہیں لیکن بل کھاتا لہردار راستہ ہر گھڑی طویل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ راستہ ہر سال برف کے نیچے دب کر ختم ہو جاتا ہے اور پھر موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہی بھیڑ بکریوں اور مقامی افراد کے قدم اسی عمودی دیوار پر نئے راستے کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔
چوکیل بانڈہ کی سیاحت کے لیے بہترین ایام کون سے ہیں؟
چوکیل کے میدان تک رسائی مئی کے مہینے میں ممکن ہو جاتی ہے لیکن جون کے وسط میں اس سبزہ زار میں بہار اپنے جوبن پر ہوتی ہے اور یہی ایام اس سحر انگیز مرغزار کی سیاحت کے لیے بہترین ہیں۔ اس سال کمر خوا کے بکروال عید الضحیٰ کے ایک ہفتہ بعد چراہ گاہ میں اپنے ریوڑوں کے ساتھ پہنچیں گے سو ان دنوں چوکیل کا حسن اپنے عروج پر ہے۔
اسلام آباد سے چوکیل بانڈہ کیسے پہنچا جا سکتا ہے؟
اسلام آباد سے مانکیال تک کا سفر قریبا 300 کلومیٹر ہے جس پر سال کے 12 مہینے دن رات کسی بھی وقت سفر کیا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد سے بحرین اور وادی کالام کے لیے کوسٹر سروس دستیاب ہے جس کا اڈہ اسلام آباد کی سبزی منڈی کے بالمقابل پیرودھائی روڈ پر واقع ہے۔ یہاں سے عام طور پر رات نو بجے سے رات ایک بجے تک ہر گھنٹے بعد کوسٹر نکلتی ہے جس کے ذریعے پانچ گھنٹے میں مانکیال گاوٴں پہنچا جا سکتا ہے۔ سوات ایکسپریس وے سے ہوتے ہوئے چکدرہ، بری کوٹ، منگورہ، خوازہ خیلہ، مدین سے گزرتے علی الصبح مسافر بحرین پہنچ جاتے ہیں۔ بحرین سے کالام کا راستہ گذشتہ سال سیلاب کی وجہ سے مختلف مقامات پر خراب ہوا تھا لیکن ابھی کسی بھی قسم کی سواری پر یہ راستہ باآسانی طے کیا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد سے پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے جانے کے خواہشمند سیاحوں کے لیے آسانی اور سہولت اسی میں ہے کہ کالام کی کوسٹر میں بیٹھ کر کالام سے 18 کلومیٹر پہلے مانکیال میں اتر جائیں۔ اسلام آباد سے کالام کوسٹر کا فی کس کرایہ 1300 روپیہ ہے۔
اگر بوجوہ کالام کی کوسٹر میں نہ جا سکیں، تو بحرین کا آپشن بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں بحرین سے آگے 18 کلومیٹر کا سفر فیلڈر کار میں کیا جا سکتا ہے۔ یہ کار ہائر بھی کی جا سکتی ہے اور سواری کے حساب سے بھی جا سکتے ہیں۔
سیالکوٹ، گجرات، گجرانوالہ، وزیرآباد سمیت اطراف کے علاقوں سے سیاحوں کو اسلام آباد آنے کی ضرورت ہی نہیں۔ سیالکوٹ کے لاری اڈے سے مانکیال کے لیے کوسٹر سروس میسر ہے جو فی سواری 2600 روپیہ کرایے میں آپ کو مانکیال پہنچا دیتی ہے۔
اگر مسافر ذاتی سواری پر سفر کرنا چاہتے ہیں بذریعہ سوات ایکسپریس وے چکدرہ تک آرام دہ سفر دو گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے اور پھر آگے چکدرہ پل پار کر کے مالاکنڈ یونیورسٹی کے سامنے سے گزرنے والی سڑک کے ذریعے بحرین کی طرف سفر جاری رکھا جا سکتا ہے۔ یہ صاف ستھری سڑک شموزئی، کبل اور مٹہ سے گزرتے ہوئے بحرین نکلتی ہے۔ بحرین سے مانکیال تک سڑک بعض مقامات پر ٹوٹی پھوٹی ہے مگر ہرطرح کی گاڑی آسانی کے ساتھ مانکیال پہنچ جاتی ہے۔ یہاں سے آگے پھر جیپ اور ہائیکنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
مانکیال سے آگے چوکیل بانڈہ کے لیے جیپ ٹریک ہے۔ یہاں زیادہ تر ٹویوٹا ہائی لکس (ڈاٹسن) اور ڈبل کیبن گاڑیاں دستیاب ہیں جو چوکیل بانڈہ کے بیس کیمپ کمر خوا تک جا سکتی ہیں۔ مانکیال سے کمرخواہ تک قریباً دو گھنٹے کا جیپ ٹریک ہے۔
گذشتہ برس کے سیلاب میں سڑک بہہ جانے کے باعث ٹریک پر محض پتھر رہ گئے ہیں اور جیپ اچھلتی کودتی چیونٹی کی رفتار سے آگے بڑھتی ہے مگر پہاڑی ندی کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اور راستے میں بکھرے دلفریب مناظر کسی حد تک سفر کی تکلیف کم کر دیتے ہیں۔
مانکیال کے قریب جبہ اور ٹیپ بانڈہ قابل ذکر سیاحتی مقامات ہیں اور ان دونوں مقامات کا فاصلہ بھی چوکیل بانڈہ کے برابر ہے۔
مقامی آبادی زیادہ تر خانہ بدوش
مانکیال سے کمر خوا تک راستے میں کئی گاؤں آباد ہیں جن میں بڈئی اور سیرئی قابل ذکر ہیں۔ ان دیہات میں زیادہ تر گجر برادری آباد ہے جن کا ذریعہ معاش زراعت اور مال مویشی ہیں۔ یہاں کے باشندے گرمیوں کے پانچ چھ ماہ اسی علاقے میں گزارتے ہیں اور سردیاں آتے ہی اپنی مال مویشی کے ہمراہ پنجاب کے میدانوں کا رخ کرتے ہیں۔ ان علاقوں سے سردیوں کے موسم میں نقل مکانی کرنے والے زیادہ تر افراد گجرات اور سیالکوٹ جاتے ہیں۔
کمرخوا سے اوپر چوکیل بانڈہ تک رسائی کے لیے دو مختلف راستے ہیں۔ دونوں کی مسافت اور دشواری میں زیادہ فرق نہیں۔ دونوں راستوں پر دو سے تین گھنٹے کی ہائیکنگ ہے جو نو آموز ٹریکرز کے لیے نسبتاً مشکل ہے مگر ناممکن ہرگز نہیں۔ اس کے علاوہ چوکیل کا تیسرا ٹریک سیرئی گاؤں سے بھی جاتا ہے مگر یہ راستہ نسبتاً لمبا اور زیادہ مشکل ہے۔
چوکیل بانڈہ کی ٹریکنگ خواتین اور بچے بھی کر سکتے ہیں لیکن بنیادی شرط عزم و ہمت کے ساتھ مضبوط ٹانگوں کا میسر ہونا ہے۔ اس راستے پر خچر یا گھوڑے کے ذریعے سامان تو لے جایا جا سکتا ہے اس پر سوار ہو کر چوکیل تک پہنچنا ممکن نہیں۔ چوکیل بانڈہ مسافروں کے لیے ہر لحاظ سے محفوظ ہے۔ جنگلی جانور گرمیوں کے موسم میں اس علاقے سے اوپر بلند پہاڑوں کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اس پوری وادی میں پرامن اور صلح جو لوگ آباد ہیں اور یہاں چوری چکاری کا تصور محال ہے۔
چوکیل بانڈہ کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے لیے وہاں رات گزارنا بہت ضروری ہے، کیونکہ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک اس مرغزار کے رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی بادل اتنے گہرے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے اور تھوڑی دیر بعد دھوپ اتنی اجلی کہ پھولوں کے رنگ کھل کر سامنے آ جائیں۔
چوکیل بانڈہ میں دن کے اوقات میں موسم انتہائی خوشگوار رہتا ہے۔ ہوا کے دوش پر بادل پہنچ جائیں تو قابل برداشت خنکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن جوں ہی سورج پہاڑوں کی آغوش میں چھپ جاتا ہے پارہ گرنے لگتا ہے اور اندھیرا پھیلنے تک آگ کے الاوٴ کے بغیر باہر بیٹھنا ممکن نہیں رہتا۔
چوکیل بانڈہ کی سیاحت کے لیے درکار سامان
چوکیل بانڈہ میں قیام و طعام کے لیے کوئی ہوٹل نہیں، سو اس علاقے کی سیاحت کے شوقین افراد کو اشیائے خورونوش اور شب بسری کے لیے کیمپنگ کا سامان ہمرا رکھنا ہو گا۔ مانکیال، سیری اور کمرخوا سے پورٹر کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ایک پورٹر 15 سے 20 کلو تک سامان کمرخوا سے چوکیل تک لے جانے اور واپس کمر خوا لانے کا معاوضہ چار سے پانچ ہزار تک لیتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چوکیل کی سیر کو آنے والے کو اپنے سامان میں گرم جیکٹ، اونی جرابیں، زیر جامہ، برساتی، واٹر پروف جوتے، سن بلاک، سلیپنگ بیگ، واٹر پروف چٹائی اور دہری تہہ والے کیمپ ضرور رکھنا چاہیے۔ دہری تہہ والا کیمپ بارش کی صورت میں پانی کو اندر نہیں آنے دے گا اور آپ رات سکون سے گزار سکیں گے۔
کھانے کے لیے اگر ممکن ہو تو کین میں محفوظ پکے ہوئے کھانوں کو ساتھ رکھیں تا کہ آپ وہاں آرام سے کھانا گرم کر کے کھا سکیں۔ سیاحوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے سامان کو سفری بیگز میں سمیٹ کر رکھیں تا کہ پورٹر اسے اٹھا کر آسانی سے پیدل چل سکیں۔
بنیادی ادویات بھی اپنے سفری بیگ میں رکھیں تا کہ سفر کے دوران تھکاوٹ یا موسم کی شدت کی وجہ سے طبیعت کی خرابی کی صورت میں سہولت رہے۔
چوکیل بانڈہ میں رات کے آخری پہر درجہ حرارت منفی ہو جاتا ہے، لیکن کیمپ کے باہر اگر چودھویں کا چاند آسمان پر پوری آب و تاب سے چمک رہا ہو اور مرغزار کے رنگا رنگ پھول نرم چاندنی میں نہائے دکھائی دیں تو کون خیمے میں دبک کر سوئے گا۔
غرو ب آفتاب سے پہلے عموماً بارش کا ہونا معمول ہے جو چاندنی کے حسن کو نکھار دیتی ہے۔ رات کی تاریکی میں سامنے برف پوش چوٹیوں سے مہتاب کی کرنیں ٹکرا کر جب چار سو پھیل رہی ہوتی ہیں تو سیاحوں کے لیے اس منظر کا افسوں انگیز حسن، یاداشت میں عمر بھر کے لیے محفوظ ہو جاتا ہے۔