قراقرم ہائی وے کو چھوڑ کر گلگت شہر کے اندر داخل ہوں یا پھر چیف کورٹ روڈ سے گزر کر غذر کی طرف نکل جائیں، شہر سے ایک راستہ دریا کنارے گاہکوچ کی طرف جاتا ہے۔
اس راستے کے اطراف میں تازہ پک چکی خوبانیوں کی مہک ہے اور کہیں دریائے گلگت سڑک کے کنارے کو چھو جاتا ہے۔ ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد وادئ یٰسین کی طرف مڑنے والے راستے کو نظرانداز کر کے گوپس کی طرف چلتے جائیں تو دریائے گلگت اپنا نام بدل کر دریائے غذر کہلاتا ہے۔
پھنڈر کی کشش کہیں رکنے ہی نہیں دیتی۔ ایک حادثے کے نتیجے میں جنم لینے والی خلطی جھیل بھی پاؤں کی زنجیر نہیں بن سکتی، وہی خلطی جھیل جو درجنوں گھر ڈبو کر وجود میں آئی تھی۔
پاکستان کا شمال عجوبوں سے بھرا پڑا ہے مگر پھنڈر کی وادی فطرت کی انگوٹھی میں جڑے نیلم کی طرح نمایاں ہے۔
دریائے غذر، پھنڈر کے مقام پر دوست ہو کر ساری طغیانی کھو دیتا ہے، جس کے کنارے پر بیٹھ کر پانی کو آسانی سے چھوا جا سکتا ہے۔ دریا میں رقص کرتی مچھلیاں بھی بے تکلف ہو کر سیاحوں سے آنکھیں ملاتی ہیں اور دریائے غذر اپنا روایتی خوف ترک کر کے لوگوں سے گفتگو کرتا ہے۔
ہم اس سڑک پر محو سفر تھے جو گلگت اور چترال کو آپس میں ملاتی تھی۔ یہ زیر تعمیر سڑک یوں تو شندور تک جاتی تھی مگر راستے میں بہت سی حسین وادیوں کو راہداری فراہم کرتی ہے۔ لنگر کے سبزہ زار میں یاک بکریوں کی مانند گھاس چرتے ہیں اور بے شمار ندیاں خیبرپختونخوا کی سرحد عبور کر کے گلگت بلتستان میں داخل ہوتی ہیں۔ ضلع چترال اور ضلع غذر کی سرحد حیرت کدوں کی سرزمین ہے۔
پھنڈر کی بلندی سے ذرا پہلے، بائیں جانب بہت گہرائی میں، جہاں دریائے غذر دوست ہوچکا تھا اور پھیل چکی وادی میں گھل مل گیا تھا، وہ منظر متقاضی تھا کہ ہم نیچے اترتے اور ایک شام، کم از کم ایک مکمل صبح اس وادی میں گزارتے۔ تمام موجود اور تمام غیر موجود رنگوں کو انگلیوں کی ٹھنڈی پوروں سے چھو کر دیکھتے اور انگلیاں فطرت کی حدت سے جل جاتیں۔
مگر ایسا ممکن نہ تھا۔ ہمارے بس میں ہوتا تو خلطی جھیل کے پانی میں ڈوب چکے گھروں میں گھس کر وہاں کے مکینوں کی محبت تلاش کرتے، جو تباہ ہوتے جاتے گھروں کو چھوڑتے وقت کہیں کسی شیلف میں رکھی رہ گئی تھی۔ پھنڈر جھیل پر کتنی شامیں قربان کی جا سکتی تھیں، مگر ہم مجبور تھے۔
معاشی اور عائلی زنجیروں میں جکڑے ہوئے آوارہ گرد تھے جو خراب تھے مگر پورے خراب بھی نہ تھے کہ ہم جنوں میں ہوش کے قائل تھے اور آوارگی برنگ تماشا ہمیں بری لگتی تھی۔ کتنے منظر ہم چلتے چلتے دیکھتے تھے اور پھر نئے منظر میں ڈھل جاتے تھے۔
ہم پھنڈر ٹاپ پر پہنچے تو ایک تعجب ہمارا منتظر تھا۔ مختلف عمارتوں کے بیچوں بیچ جو راستہ آگے بڑھتا تھا اور پھر ایک دم نیچے اتر جاتا تھا ہم وہیں پر تصویر ہوچکے تھے۔ ایسے ہی لمحے تھے جب میرے بچے اور شریک سفر قافلہ مجھے پاگل سمجھنے لگتا تھا۔ ایک نیلے رنگ کا بورڈ تعجب بھرا جملہ لیے ہوئے تھا۔ ’شندور ٹاپ 48 کلو میٹر‘
اس شندور ٹاپ کے لیے، پولو فیسٹیول کے لیے، شندور جھیل کے لیے ہم کن مشکل رستوں سے گزر کر پہنچتے تھے۔ ’سفر کیلاش کے‘ زمانوں میں ایون سٹاپ سے اپنی گاڑی اٹھا کر جب چترال کی جانب بڑھتے جاتے تھے تو کتنے لوگوں نے سمجھایا تھا کہ مت جاؤ ۔ ۔ ۔ عشق دریا ہے جو بچوں کو نگل جاتا ہے، مگر ہم سنتے کب تھے کسی کی۔
ہم جو قدرتی مناظر کو بھگوان سمجھ کر پوجتے تھے بھلا کیسے فراموش کر کے آگے نکل جاتے کہ دنیا بھر میں نام منوا چکا شندور ٹاپ چترال میں تھا اور ہم بھی چترال میں تھے۔ دشوار راہوں سے ہوتے ہوئے ایک طویل سفر کے بعد شندور کا دیدار نصیب ہوا تھا اور اب بغیر خواہش کے، بغیر تھکن کے احساس کے، وہی شندور 48 کلومیٹر کی دوری پر تھا۔
زمین گول تھی، واقعی گول، پھر تمام پہاڑوں کے سلسلے باہم اسی طرح ملتے تھے کہ آپ حیران رہ جائیں۔
’قیصر مجھے شندور ضرور لے جائیں۔‘ فوزیہ نے پہاڑی مطالبہ کر ڈالا۔
بچوں نے خواہش کی بازگشت تالیوں کی گونج سے بھر دی۔ پھنڈر تک اگر سیاہ جاپانی کار پہنچ سکتی تھی تو پھر غذر کا سفر مشکل نہ تھا، راستے دشمن نہ تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
راشد ڈوگر کار کے اندر سے اس بلندی کو تصویر کیے جاتا تھا۔ ہم پھنڈر ٹاپ سے نیچے اترے تو سامنے وسیع لینڈ سکیپ تھی۔ درختوں کے درمیان سے گزر کر ایک سڑک شندور کو جاتی تھی۔ وادی پھنڈر واقعی چھوٹا کشمیر تھی۔ دونوں اطراف میں کھیت تھے اور دائیں جانب کھیتوں کے پاس دریائے غذر بہتا تھا۔ وہ بہتا نہ تھا بلکہ فطرت کے فریم میں رنگ بھرتا تھا۔ بلند و بالا درختوں کی گھنی باڑ کے درمیان نیلوں نیل وجود، جس کو دیکھتے ہی ٹھنڈک کا احساس ہوتا تھا۔ دریائے غذر کے کنارے ایک بستی تھی مگر وہ اس لیے بھی بستی تھی کہ وہاں لوگ واقعی بستے تھے جن کے چہروں پر زندگی ناچتی تھی، وہ زندگی کے دن پورے نہیں کرتے تھے بلکہ واقعی زندگی جیتے تھے۔
ہم وادی پھنڈر کے وسیع لینڈ سکیپ کے درمیان سے گزرتی جاتی سڑک کے قریب بنی ایک عمارت کے پاس رک گئے، بورڈ پر کسی خوبصورت منظر کی تصویر نمایاں تھی۔ بورڈ پر جو عبارت درج تھی اس نے ہمیں حوصلہ دیا کہ یہاں شب بسری ممکن ہے۔ ہم کسی فلم کے کردار نہ تھے، کسی تصویر کے نقش بھی تو نہ تھے۔ تیز ہوا سے جھولتے درخت زندگی کا پتہ دیتے تھے۔ خواب، سراب، وہم اور خیال۔۔۔
ایک وادی جو خواب اور تعبیر کے درمیان معلق پل کی مانند جھولتی تھی۔ غذر شندور روڈ پر پیٹرول کی بوتلیں سجائے ایک جوان ہمارا پہلا ملاقاتی تھا، ’یہ ہوٹل ہے اور کمرے بھی ملیں گے۔‘
گاڑیاں غذر روڈ سے اتر کر ایک لان میں داخل ہوئیں جہاں چار کمروں پر مشتمل ہوٹل تھا جس کے سامنے لان تھا۔ دوسری جانب بھی ہال نما کمرے تھے جن میں قالین بچھے تھے اور زمین پر بستر بچھے تھے۔ باہر بورڈ پر ’مدینہ ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ پھنڈر ضلع غذر‘ کے الفاظ پڑھتے تھے تو یقین آتا تھا کہ ہم غذر میں تھے۔
پہلا ملاقاتی شخص دو ہزار روپے فی کمرا مانگ رہا تھا اور لاک ڈاؤن کے سبب آنے والی غریبی کی دہائی دیتا تھا۔ تین کمرے 15 سو فی کمرا کے حساب سے لے لیے گئے، جہاں ہر کمرا اپنا الگ باتھ روم رکھتا تھا، گیزر کی سہولت بھی تھی اس لیے ایک قطار میں بنے کمرے لے لیے گئے اور سامان بھی اتار لیا گیا۔
اسی قطار میں پہلا کمرا کچن تھا اور سائیڈ روم ڈائیننگ ہال، جو مشترکہ گپ شپ کارنر بھی تھا اور پھر وبا کے دنوں میں ہم دریائے غذر کی جانب جانے والے تھے۔ مدینہ ہوٹل پھنڈر سے نکل کر چند قدموں کے فاصلے پر دریائے غذر کی عبادت گاہ تھی جہاں ہم نے فطرت کے حسن کے سامنے سجدہ ریز ہونا تھا۔