پاکستان ان تہذیبوں پر معرض وجود میں آیا جن کا سلسلہ ہزاروں سال پرانا ہے۔
پاکستان میں یوں تو بہت سے قدیمی مقامات موجود ہیں لیکن چھ مقامات کو عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا گیا ہے جن میں موئن جو دڑو، تخت بائی کے آثار، ٹیکسلا، شاہی قلعہ، شالامار باغ، قلعہ روہتاس، مکلی شامل ہیں۔
تاہم پاکستان کا ثقافتی ورثہ، باقیات، نوادرات اور آثار قدیمہ انحطاط سمیت حکومتی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ اب شدید بارشوں اور سیلاب نے بہت سی قدیمی سائٹس کو جزوی نقصان دیا ہے۔
پاکستان بہت سی تہذیبوں کا مسکن رہا جن کے آثار اب بھی یہاں ملتے ہیں خاص کر گندھارا تہذیب کے آثار بکثرت موجود ہیں۔
یہ ایک قدیمی ریاست تھی جس کا ذکر وید اور بدھ مت کی کتابوں میں بھی ملتا ہے یہ چھٹی سے گیارہویں صدی قبل میسح میں قائم تھی اور موجودہ کے پی، پنجاب پوٹھوہار تک پھیلی ہوئی تھی۔
230 قبل مسیح میں جب اشوکا یہاں آیا تو یہاں کے لوگ نے بڑی تعداد میں بدھ مت مذہب قبول کرلیا۔ یہ ایک جدید تہذیب تھی جہاں پر خانقاہیں عبادت گاہیں تعلیمی ادارے اور تجارتی مرکز موجود تھے۔
یونانی ایرانی اور مقامی کلچر کے سنگم سے اس کا فن تعمیر وجود میں آیا۔ گندھارا آرٹ کے تحت ملنے والے مجسمے اور برتنوں پر کندہ کاری سنگ تراشی میں اپنی مثال آپ ہے۔
گندھارا تہذیب کے چالیس مقامات پاکستان میں موجود ہیں جن میں اسلام آباد میں بین فقیراں سٹوپا موجود ہے وہ بدھ مت دور کے غاروں سے دو کلومیٹر دور ہے اور یہ اس ہی طرز تعمیر پر قائم ہے جیسی تعمیر دوسری سے تیسری صدی میں ہوتی تھی۔
تاہم شاید ہی سیاحوں کو اس جگہ کے بارے میں پتہ ہو۔ اس کے ساتھ سپہولا سٹوپا جمرود، گور گٹھری کمپلیس پشاور، پشاور میوزیم، بدلپور سٹوپا ہری پور، جہان آباد بدھا سوات، سوات میوزیم، مانسہرہ راکس، بھاملا سٹوپا ہری پور، جولیاں سٹوپا ہری پور، شنگردار سٹوپا سوات، گہلی گیے راکس کارونگ سوات، بٹکارا ایک اور دو مینگورہ، بٹکارہ تھری مینگورہ، املوک درہ سوات، شہباز گڑھی راکس مردان، تخت بائی کے آثار مردان، رانی گھاٹ بونیر، جمال گڑھی مردان، غاروں کا شہر بیلا لسبیلہ، سری بہلول مردان، سدہیران جو داڑو ٹندو محمد خان، نیشل میوزیم کراچی، جوہی ٹاون سٹوپا دادو، بدھسٹ سٹوپا مونیجو داڑو، مینکالا سٹوپا، جندال ٹیپمل ٹکیسلا، جنان والی ڈھیری ٹیکسلا، پیپلاں سٹوپا، سرسخ سٹی ٹیکسلا، سرکپ سٹی ٹیکسلا، دھرمارجکا سٹوپا، منتھل راکس اسکردو، پھیر ماونڈ ٹیکسلا، کارگھا بدھا گلگت، تھل پان راکس کراونگ چلاس، شیتل راکس کارونگ شامل ہیں۔
گندھارا تہذہب کی 19 نشانیاں کے پی میں، پانچ سندھ میں، ایک بلوچستان میں، دس پنجاب میں، چار گلگت میں اور ایک اسلام آباد میں ہے۔
بہت سے سیاح دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے کے پی اور بلوچستان میں ان آثار کو دیکھنے سے گریز کرتے ہیں۔
تاہم اب امن و امان ہے جایا جاسکتا ہے لیکن بہت سے آثار کے قریب اچھے قیام طعام کی سہولیات موجود نہیں اور بہت سے مقامات پر کوئی خاص انتظام بھی نہیں کہ سیاح اس جگہ کے بارے میں جان سکیں۔
نہ ہی اس حوالے سے اب تک کوئی سروے کیا گیا ہے کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب نے کن کن جگہوں کونقصان دیا ہے۔ ان علاقوں میں بدھ مت تہذیب کے فن تعمیر، گوتم بدھ کے مجسمے، سٹوپا اور منظم شہری تہذیب موجود ہے لیکن مذہبی سیاحت نہ ہونے کے برابر ہے۔
ڈاکٹر ندیم عمر تارڑ آثارقدیمہ کے ماہر تاریخ دان ہیں ان کے مطابق اسلام آباد میں بھی انڈس ویلی تہذیب کے آثار موجود ہیں۔
’اسلام آباد کے سیکٹر آئی الیون مرکز میں ایک پورا ماؤںڈ موجود ہے جس میں انڈس ویلی ہڑپا اور بدھ مت کے آثار موجود ہیں۔ وہاں پانچ ہزار پرانی تاریخ کے آثار ملے ہیں۔‘
’تاہم اتنظامیہ وہاں سب کو بلڈوز کرکے تعمیرات میں مصروف ہے۔ اسلام آباد بھی اتنا ہی قدیم ہے جتنے ملک کے دیگر حصے پرانی تہذیب کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔‘
’بدھ مت سے منسلک مارگلہ ہلز میں واچ ٹاور موجود ہے جس کو آثار قدیمہ نے سٹوپا غلطی سے قرار دے رکھا ہے۔ اسی طرح شاہ اللہ دتہ کے غار اور منسلک علاقہ اتنا پرانا ہے کہ پہلے یہاں سمندر ہوتا تھا اور کھدائی کے دوران یہاں سمندری فوسل ملے۔ یہ تمام جگہ بہت قدیم ہے اور یہ جگہ بدھ مت کی مذہبی سیاحت کے لیے استعمال ہوسکتی ہے۔‘
’سرائے خربوزہ میں قدیمی سرائے موجود ہے وہ بھی عدم توجہ کا شکار ہیں۔ اسی طرح ہندوؤں کے مندر ہیں جو اٹھارویں صدی کے ہیں۔‘
’سید پور گاؤں ہندوؤں کی ایک قدیمی جگہ تھی لیکن سی ڈی اے نے اس کو تباہ کر کے کمرشل کردیا۔‘
’اب وہاں کھانے پینے کے سپاٹس بن گئے ہیں۔ وہاں پانی کے چشموں کا سنگم ہوتا تھا جو ایک مقدس جگہ تھی۔ ایسی جگہوں پر صرف تزئین و آرائش ہوتی ہے، نئی تعمیرات کی اجازت نہیں دی جاتی۔‘
’لوئرڈنڈی بدھ مت کی سائٹس تھیں جن کو تباہ کردیا گیا۔ 1971 سے پہلے پاکستان میں بدھ مت کی بہت بڑی آبادی موجود تھی۔‘
’راجہ تری دیو رائے یہاں مقیم رہے انہیں وفاقی وزیر کا درجہ دیا گیا انہوں نے بہت کام کیے اور ڈپلیومیٹک انکیلو میں بدھسٹ ٹیپمل بنایا۔‘
’اسلام آباد قدیم ٹیکسلا کا حصہ ہے ہمیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک بدھا ڈے منانا چاہیے تاکہ یہاں پر زیادہ سے زیادہ مذہبی سیاح آئیں۔ ان جگہوں پر میلوں کا انعقاد کیا جائے۔ یادگاری اشیا بنائی جائیں۔‘
یوسف اختر سیاحت کے شوقین ہیں اور ’سیاح‘ کے نام سے ٹریول مینجمٹ کمپنی چلا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’نائن الیون سے پہلے یہاں بہت سیاحت ہوتی تھی اس کے بعد حالات یکسر تبدیل ہوگئے۔ غیر ملکی سیاحوں کو ہم نے بہت سے تفریحی اور تاریخی مقامات دکھانا ہوتے ہیں زیادہ تر گندھارا تہذیب کے آثار سوات میں ہیں۔‘
’ہم نے سیاحوں کو صرف ٹیکسلا نہیں وزٹ کرانا ہوتا۔ اب بھی بہت سے ملک اپنے سیاحوں کو پاکستان آنے کی ٹریول ایڈوائزری جاری کرتے ہیں جیسے آج بھی جاپانی سیاح کو پشاور جانے کی ٹریول ایڈوائزری نہیں ہے۔‘
’تاہم پی ٹی آئی کی حکومت اور عمران خان نے سیاحت کے لیے بہت کام کیا جس میں ای ویزہ نے پاکستان میں سیاحت کے حالات کو تبدیل کردیا اب سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں۔‘
’ان کے دور میں سری لنکا کے راہب ان مقامات کو دیکھنے آئے اور تھائی لینڈ سے بھی راہب آئے۔ پرانی نسل بدھ مت میں گہری دلچسپی لیتی ہے۔ نئی نسل کا اتنا رجحان نہیں ہے۔ اب امن وامان اچھا ہے تو ہم گندھارا ٹرپ کو بھی متعارف کروائیں گے ابھی ہم ’سیاح‘ کے پلیٹ فارم سے پولینڈ کے سیاحوں کو گریٹ پاکستان ٹور کروا رہے ہیں۔‘
اگر اسلام آباد میں موجود بین فقیرا سٹوپا کی بات کریں تو شاید ہی لوگ اس واقف ہوں۔
یہ ایک تاریخی جگہ ہے جو گندھارا تہذیب کا آئینہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بین فقیرا سٹوپا گندھارا تہذیب کی نشانی ہے اور شاہ اللہ دتہ کے غاروں کے قریب قائم ہے۔
اس جگہ وہ تاریخی مقام نظر آتا ہے جو راجہ اشوک نے تعمیر کروایا تھا۔ جب یہ جگہ دریافت ہوئی تو یہاں سے کچھ سکے بھی ملے تھے جن کا تعلق بھی گندھارا تہذیب سے تھا۔ وہ میوزیم کی زینت بنا دیے گئے۔
سٹوپا گندھارا تہذیب کا مقدس مقام ہے جس کے گرد عبادت گزار طواف کیا کرتے تھے اور عبادت کرتے تھے۔
ڈاکٹرطارق رحیم ’سادھوکی ری ٹریٹ‘ کے مالک ہیں۔ وہ شاہ اللہ دتہ کے اطراف میں کیپمنگ اور ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ان کا یکہنا ہے کہ ‘ہم سٹوپا کے اطراف کیپمنگ کرتے ہیں اور لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ گروپس کی صورت میں ہمارے ساتھ چلیں۔ ہم جب یہاں سیاحوں کو لے کر جاتے ہیں تو انہیں گندھارا تہذیب کی کہانیاں سناتے ہیں۔ یہ جگہ ڈھائی ہزار سال پرانی ہے۔‘
’جب ہم بین فقیرا سٹوپا پر جاتے ہیں تو ایک طرف ٹیکسلا اور دوسری طرف اسلام آباد نظر آتا ہے۔ رات کو یہ منظر بہت رومانوی لگتا ہے تاہم یہ جگہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔‘
پاکستان بدھ مت کی نشانیوں سے بھرا پڑا ہے تاہم مذہبی سیاحت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر حکومت سکھوں کے تاریخی مقامات کے ساتھ اس طرف بھی توجہ دے تو بدھسٹ آبادی کی بڑی تعداد پاکستان آئے گی۔ اس وقت پاکستان میں بدھ مت مذہب اور آبادی تقریبا معدوم ہوگئی ہے۔