پاکستان میں عام انتخابات سے پہلے حکومت تحلیل ہونے سے صرف دو ہفتے قبل اتوار کو باجوڑ میں ایک سیاسی ریلی کے دوران خودکش حملہ ہوا۔
اس (دھماکے) سے قبل مئی میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں مظاہرے اور فسادات ہوئے جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ اس سے قبل عمران خان پر جان لیوا حملہ ہوا جس سے ان کی (ٹانگ کی) رگ متاثر ہوئی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس سال کے اوائل میں اہم صوبائی انتخابات سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر ملتوی کر دیے تھے۔ اس تناظر میں آئندہ انتخابات کے موقع پر مزید سیاسی تشدد کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کو امید ہے کہ ان انتخابات سے وہ گہری سیاسی غیر یقینی کی صورت حال ختم ہو جائے گی جو عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ووٹ سے اقتدار سے ہٹانے کے بعد سے پیدا ہوئی تھی۔ نئی حکومت جنوبی ایشیا کے بدترین معاشی بحران سے نمٹنے کے مینڈیٹ کے ساتھ برسر اقتدار آئے گی۔ یہ معاشی بحران گذشتہ سال کے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے مزید بڑھ گیا تھا۔
ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے گذشتہ 16 ماہ گزر جانے کے بعد 'اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ انتخابات ہوں گے کیونکہ حکومت نے مستعفی ہونے اور نگران حکومت کی راہ ہموار کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ غیریقینی صورت حال کے طویل عرصے کے بعد ہم نومبر میں انتخابات کی توقع کر سکتے ہیں۔'
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: 'سیاسی بحران کی ایک بڑی وجہ انتخابات کی تاریخ کے بارے میں غیریقینی صورت حال رہی ہے۔ اب انتخابات کے شیڈول سے بحران میں چاہے وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو کمی آئے گی۔‘
امریکہ میں 2008 سے 2011 تک پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ہڈسن انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ حسین حقانی کا کہنا ہے کہ اتوار کو ہونے والے حملے نے دہشت گردی کے خوف کی یادیں تازہ کر دی ہیں۔ اس حملے میں وزیر اعظم شہباز شریف کے حکمراں اتحاد کی ایک اہم جماعت کی جانب سے منعقد ایک انتخابی ریلی کو نشانہ بنایا گیا اور 56 افراد مارے گئے۔
انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی پر 2008 اور 2013 میں ہوئے حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، 'دہشت گرد گروہ جن کو پسند نہیں کرتے ان کی ریلیوں کو نشانہ بنا کر ان کی انتخابی مہم چلانے کی صلاحیت کو محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔'
حسین حقانی مزید کہتے ہیں ’تاریخی طور پر اسلامی دہشت گرد گروہوں نے عمران خان کی (جماعت) پی ٹی آئی کو کچھ نہیں کہا ہے لیکن اس رہنما کو انتخابات سے قبل اپنے الگ ہی مسائل کا سامنا ہے۔‘
عمران خان کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال نومبر میں انہیں قتل کرنے کی کوشش کی گئی جس میں وہ زخمی ہوئے جس کے بعد بھی متعدد کوششیں ہوئیں اور ان کی جان کو اب بھی خطرہ ہے۔
موجودہ حالات یہ ہیں کہ انہیں اور ان کی پی ٹی آئی کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار نہیں دیا گیا۔ لیکن اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے عمران خان کو تقریبا 170 مجرمانہ الزامات کی وجہ سے جن میں بدعنوانی سے لے کر غداری اور قتل تک کے مقدمات شامل ہیں تقریبا روزانہ عدالت جانا پڑتا ہے۔
انہوں نے اس سے قبل دی انڈپینڈنٹ کو بتایا تھا کہ تمام الزامات سیاسی ہیں اور انہیں عام انتخابات میں حصہ لینے اور جیتنے سے نہیں روک سکتے، لیکن حقیقت میں حکام کے دباؤ نے انہیں بھاری نقصان پہنچایا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مئی کے مظاہروں کے بعد پی ٹی آئی کے ہزاروں حامیوں اور پارٹی ارکان کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں حکومت کے خلاف غیرمعمولی نڈر مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کی طاقتور فوج کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں عمران خان کی پارٹی کے بہت سارے پارٹی چھڑرنے پر مجبور ہوگئے، سابق وزرائے اعلیٰ، سابق گورنرز اور کئی سابق وزرا سمیت پارٹی کے سو سے زائد سینیئر اور جونیئر عہدیدار پی ٹی آئی چھوڑ چکے ہیں۔
حسین حقانی کا کہنا ہے، 'عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان کا مؤقف رہا ہے کہ وہ ملک کے مقبول ترین رہنما ہیں اور فوج کو ان کی جگہ لینے والی حکومت کو نظر انداز کرتے ہوئے ان سے بات کرنی چاہیے۔
’وہ تشدد کا استعمال کرنے سے (فوج سے) ہارے ہیں اور یہ تاثر پیدا کیا ہے کہ اگر انہیں اقتدار میں واپس نہیں لایا گیا یا انہیں گرفتار کیا گیا تو پاکستان نہیں چل سکے گا۔ اب عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی کو ان کی پارٹی کے ارکان کی جانب سے فوجی تنصیبات پر حملے ان کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن کی بنیاد بن گئے ہیں، جس کے خلاف لگتا ہے پارٹی مزاحمت نہیں کر سکتی۔'
وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے یہ سمجھتے ہوئے خان کے ساتھ سیاسی حریف کے طور پر نمٹنا اولین ترجیح بنا لیا ہے کہ اگر انہیں آزادانہ طور پر انتخابات لڑنے کی اجازت دی گئی تو وہ اب بھی بھاری حمایت حاصل کرسکتے ہیں۔
کوگل مین نے کہا: ’ان پر لگائے گئے تمام الزامات کو دیکھتے ہوئے، جن میں سے بہت سے جھوٹے، سیاسی الزامات ہیں – اس بات کا کافی امکان ہے کہ ضمانت کے ختم ہونے کے بعد انہیں دوبارہ گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ اور ان کے لیے گرفتاری سے بچنا مشکل ہو گا کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ وہ ملک نہیں چھوڑیں گے اور اپنی حفاظت کی خاطر وہ لاہور میں اپنے گھر سے باہر نہیں نکلتے۔'
انہوں نے مزید کہا، 'لیکن ہمیں چاہیے کہ گرفتاری کی ناگزیریت کو بڑھا چڑھا کر بیان نہ کریں۔'
وہ کہتے ہیں کہ ان کے سیاسی اثر و رسوخ کو نمایاں طور پر کم کرکے انہیں ختم کرنے کا حربہ کافی موثر ثابت ہوا ہے۔ ’ہو سکتا ہے عمران خان رہا کر دیئے جائیں لیکن ان کے پاس متحرک ہونے کا امکان بہت کم رہ گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ نتیجہ ایسا ہی ہے جیسا کہ دوبارہ گرفتاری سے مل سکتا ہے۔‘
اگر پی ٹی آئی انتخابات سے پہلے ایک بار پھر مضبوط ہوتی دکھائی دیتی ہے تو عمران خان کو الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے، جس طرح نواز شریف کو 2017 میں نااہل قرار دے کر عمران خان کی جیت کی راہ ہموار کی گئی تھی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک اور ممکنہ صورت حال میں، خان کی پارٹی کو مئی کے فسادات کی پشت پناہی کرنے پر ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا سکتا ہے اور انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
چیتھم ہاؤس میں ایشیا پیسفک پروگرام کی ایسوسی ایٹ فرزانہ شیخ کہتی ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انتخابات کسی نہ کسی طرح 'مضبوط اپوزیشن کی غیرموجودگی' میں ہوں گے اور انتخابات سے ایک منقسم پارلیمنٹ ابھرے گی۔
انہوں نے دی انڈیپنڈنٹ کو بتایا: 'میرا شمار بھی اس اکثریت میں ہوگا جو پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال کے بارے میں انتہائی فکرمند ہیں۔ یہ انتہائی غیر یقینی ہے۔'
وہ کہتی ہیں، ' کسی پارٹی پر پابندی لگانا پارلیمانی جمہوریت کے لیے اچھا نہیں۔'
کوگل مین کا کہنا ہے '(پی ٹی آئی پر) مکمل پابندی اس کے لیے موت کی گھنٹی ہوگی' لیکن اس وقت تک عمران خان کو انتخابات لڑنے کا پورا حق حاصل ہے۔
'سرکاری عہدیداروں نے پابندی کے امکان کی طرف اشارہ کیا ہے، لیکن اس طرح کے اقدام کو ممکنہ طور پر عدالتوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
’بہرحال پی ٹی آئی عمران خان کے گرد گھومتی ہے۔ اور اگر ان کا اپنا سیاسی اثر و رسوخ کم ہو گیا، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کتنے مقبول ہیں۔ انہیں اور پی ٹی آئی انتخابی طور پر اہم بننے کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ عمران خان جیل کی کوٹھری سے انتخابات لڑنے کی کوشش کر سکتے ہیں، 'لیکن چونکہ پارٹی کے بہت سے سینیئر رہنما جیل میں ہیں، سیاست سے باہر ہیں، یا کسی دوسری پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں اور عمران خان کو بہت زیادہ الزامات کا سامنا ہے اور انہیں اپنی جان کا خطرہ ہے، اس لیے ان کے لیے انتخابی مہم چلانا مشکل ہو جائے گا۔'
ان کا کہنا ہے کہ 'ان (عمران خان) کی آخری امید یہ ہوگی کہ وہ پی ٹی آئی کے بہت سے ووٹروں پر انحصار کریں اور ایک ایسی حکومت کو ووٹ کے ذریعے نکالیں جو انتہائی غیرمقبول ہو چکی ہے۔'
وہ مزید کہتے ہیں کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے حالیہ مہینوں میں ان کے انتخابی امکانات کافی حد تک کم ہو گئے ہیں۔ پھر بھی وہ بہت مقبول ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ اس (مقبولیت) کا مطلب سیاسی اثر و رسوخ ہو۔‘
© The Independent