پارلیمنٹ کی راہداری کے مطابق قومی اسمبلی کا الوداعی اجلاس چند روز میں طلب کیا جا رہا ہے، جو اگست کے پہلے ہفتہ تک ایوان زیریں کی تحلیل تک جاری رہے گا۔
انتخابی اصلاحات سے متعلق چند اہم تجاویز، جن کی سفارش چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان نے گذشتہ ماہ وزارت پارلیمانی امور کے ذریعے وفاق کو بھجوائی تھیں، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں زیر التوا تمام تجاویز اور ترامیم پر بحث کے ذریعے اصلاحات کے قابلِ عمل اور جامع ترامیم پر کام مکمل ہو چکا ہے اور اس کو بل کی صورت میں قومی اسمبلی کے فلور پر اسی ماہ کے آخر تک پیش کر دیا جائے گا۔
سردار ایاز صادق کی سربراہی میں قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے وزارت قانون و انصاف اور پارلیمانی امور سیکریٹریٹ کو کہا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے حوالہ سے تمام پرانی تجاویز کو فوری طور پر واپس لے کر انتخابی اصلاحات کمیٹی کو فراہم کریں۔
گذشتہ حکومت نے الیکشن کمیشن کو اعتماد میں لیے بغیر 28 ایسی ترامیم کی تجویز قومی اسمبلی میں بل کی صورت میں بھجوائی تھی، جنہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ناقابلِ عمل قرار دے کر اسے آئینی طور پر مسترد کر دیا تھا، کیونکہ بہت سی ایسی ترامیم تھیں، جو آئین کے آرٹیکل 219 سے متصادم تھیں اور انتخابی اندراج، ووٹر لسٹ کی تیاری اور مکمل کرنے کے اختیارات نادرا کو تفویض کر دیے تھے، جو آئین کے آرٹیکل 219 سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔
اب سردار ایاز صادق کی سربراہی میں انتخابی اصلاحات کا بل نئی ترامیم کی صورت میں قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں پیش کرنے کی تیاری ہو رہی ہے اور حکومت کا واضح موقف ہے کہ انتخابی اصلاحات کے باعث عام انتخابات تاخیر کا شکار نہیں ہوں گے۔
البتہ آئندہ انتخابات کس مردم شماری کے تحت ہوں گے یہ ابھی واضح نہیں ہے۔
اس وقت تک 2014 کی مردم شماری ہی قابلِ عمل ہے اور 2023 کی مردم شماری کی منظوری تک اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اگر انتحابات سے قبل نئی مردم شماری کو قانونی حیثیت مل گئی تو الیکشن کی تاریخ میں تبدیلی ناگزیر ہو جائے گی۔
انتخابی اصلاحات کی سفارشات کی روشنی میں انتخابی قوانین میں ترامیم کرنے کے لیے تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ اراکین کی رائے سے ہی قانون سازی ممکن ہو سکے گی اور تمام فریقین کے ساتھ مل کر مطلوبہ دستاویز کی تیاری کی کوشش جاری ہے تاکہ اس سلسلے میں پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پر قومی اسمبلی سات اگست تک دونوں ایوانوں سے منظوری حاصل کر لیں اور دونوں ایوانوں کی منظوری کے بعد بل پر صدر مملکت کی منظوری سے ہی قانون سازی مکمل ہو سکے گی۔
اگر متنازع بل پر صدر مملکت نے منظوری دینے سے معذرت کر لی اور بل پر دستخط کیے بغیر ایوان میں دوبارہ بھجوا دیا تو بل قانونی حیثیت اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا اور 12 اگست کو قومی اسمبلی آئینی مدت پوری ہونے پر تحلیل ہو جائے گی۔
بادی النظر میں حکومت کی جانب سے انتخابی اصلاحات میں ترامیم کی منظوری، جس سے صدر مملکت شاکی ہوں تو منظوری مشکل ہو ی اور بعد ازاں نگران حکومت انتخابی اصلاحات میں ترامیم کی مجاز نہیں ہو سکتی۔
حالات، واقعات حکومتی اراکین کے بیانات اور الیکشن کمیشن کے مضبوط عزم اور تیاریوں کو دیکھتے ہوئے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عام انتخابات تاخیر کا شکار نہیں ہوں گے اور اپنی مقررہ مدت کے دوران منعقد ہو جائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میڈیا اور دیگر حلقوں سے انتخابات کے شیڈول کو متنازع بنانے اور قومی اسمبلی کی مدت میں توسیع کے جو اشارے دیے جا رہے ہیں وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔
ان حلقوں کو الیکشن کمیشن کے مضبوط موقف کا اندازہ ہی نہیں ہے، جس نے 30 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کو آٹھ اکتوبر تک موخر کرنے میں ریاست کا مفاد مدنظر رکھا تھا۔
سپریم کورٹ نے چار اپریل کو الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر انتخابی کمیشن کے اختیارات کو سلب کرنے کی کوشش کی تھی، جسے الیکشن کمیشن نے دو مئی کو سپریم کورٹ میں نظرِثانی کی درخواست جمع کروا کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کر دیا تھا۔
الیکشن کمیشن توہین الیکشن کمیشن، توشہ خانہ کیس، ممنوعہ فنڈنگ کیس کے بارے میں ہفتہ رواں میں اہم فیصلے کرنے کی طرف جا رہا ہے۔
اسی دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف توشہ خانہ کیس کو قابلِ سماعت قرار دے دیا ہے اور کیس کی سماعت 12 جولائی کو شروع کرنے کے لیے عمران خان کو عدالت میں ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔
توشہ خانہ کیس کی قانونی اور آئینی حیثیت کو بھی مدِنظر رکھا جائے کیونکہ الیکشن کمیشن کی مدعیت میں یہ مقدمہ درج کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 43(1) اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 137 اور 147، 173 اور 174، اور 190 کو مدنظر رکھا گیا تھا اور قومی اسمبلی کے سپیکر کے ریفرنس پر فیصلہ دیا تھا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین کو ادراک ہے کہ اس مقدمے میں ان کو سزا ملنے کا امکان ہے، اسی لیے انہوں نے سپریم کورٹ کے حکم امتناع کے لیے اپیل دائر کر دی ہے۔
12 اگست کو قومی اسمبلی کی تحلیل اور اس کے ساتھ سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد فوری طور پر نگران وزیراعظم اور نگران وزرائے اعلیٰ کی تقرری آئین کے آرٹیکل 224 اور 224 (اے) کے تحت مکمل ہو جائے گی اور الیکشن کمیشن فوری طور پر الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 57 کے تحت الیکشن شیڈول جاری کر دے گا۔
قومی اسمبلی کی تحلیل سے قبل جو مفروضے اور بیانات جاری کیے جا رہے ہیں، محض وسوسے، اور ذاتی پسند کے خیالات ہیں، کیونکہ الیکشن کمیشن مضبوط چٹان کی طرح کھڑا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔