صوبائی انتخابات کے معاملے پر پاکستان کی وزارت دفاع نے بزریعہ وفاقی حکومت سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ ’عدالت چار اپریل کا حکم واپس لے اور پورے ملک میں انتخابات اکتوبر میں ایک ساتھ کرنے کی ہدایات جاری کرے۔‘
درخواست میں کہا گیا کہ افواج پاکستان اور خفیہ اداروں کی سکیورٹی جائزے کے مطابق وہ اکتوبر کے آغاز میں انتخابات کی سکیورٹی ڈیوٹی کر سکیں گے جب پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن ہوں گے۔
درخواست میں کہا گیا کہ پنجاب اور سندھ میں سکیورٹی صورتحال پرامن ہے لیکن بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز جبکہ پنجاب اور سندھ میں انٹیلیجنس کی بنیاد پر آپریشنز جاری ہیں۔ اس وقت افواج پاکستان، رینجرز اور ایف سی اہلکاروں کو وہاں سے ہٹایا نہیں جا سکتا، اگر ابھی دستوں کو وہاں سے ہٹایا گیا تو دیگر صوبوں میں بھی سکیورٹی کی صورتحال مخدوش ہو سکتی ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن ڈیوٹی کے لیے دستوں کی تیاری کے لیے وقت بھی درکار ہے۔
عدالت کو درخواست میں آگاہ کیا گیا کہ ’الیکشن کمیشن کو خیبر پختونخوا اور پنجاب میں انتخابات کی سکیورٹی کے لیے کُل 46 لاکھ چھ ہزار 508 پولیس اہلکار درکار ہیں َلیکن کمیشن کو بتایا گیا ہے کہ صرف آٹھ لاکھ 10 ہزار 50 پولیس اہلکار اس وقت الیکشن ڈیوٹی کے لیے میسر ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اہلکاروں کی کُل تعداد پوری کرنے کے لیے افواج پاکستان اور رینجرز سے 38 لاکھ پانچ ہزار 485 اہلکاروں کی ضرورت ہو گی۔
اسی طرح خیبر پختونخواہ میں انتخابات کی سکیورٹی کے لیے 14 لاکھ دو ہزار 820 سکیورٹی اہلکار درکار ہیں اور 56 ہزار 495 کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پاکستان آرمی، رینجرز اور ایف سی سے اہلکار تعینات ہوں گے۔‘
موقف اپنایا گیا ہے کہ ’موجودہ بھڑکے ہوئے سیاسی ماحول میں حساس پولنگ سٹیشنز کی تعداد میں اضافہ ہو گا اور صرف پولیس کے لیے حالات کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہو گا۔‘
منگل کو الیکشن کمیشن کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع ہوئی تھی جس میں سٹیٹ بینک سے فنڈز کا اجرا نہ ہونے کے بارے میں عدالت کو آگاہ کیا گیا تھا اس کے علاوہ وزارت دفاع نے بھی سربمہر رپورٹ عدالت میں جمع کرائی تھی۔
چار اپریل کے عدالت کے حکم نامے میں وفاقی حکومت سے انتخابات کی سکیورٹی سے متعلق رپورٹ 17 اپریل تک طلب کی گئی تھی کہ انتخابات کی سکیورٹی کے لیے افواج پاکستان/ رینجرز تعینات کیے جائیں۔
حکم نامے میں مزید لکھا تھا کہ ’وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن، وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک مل کر اس عدالت کے حکم پر مقررہ وقت میں عمل درآمد کریں۔ فنڈز کے اجرا اور سکیورٹی معاملات میں الیکشن کمیشن کو معاونت نہ ملی تو عدالت مناسب حکم جاری کرے گی۔‘