پانچ سال عسکریت پسندوں کے تشدد سے ہنسنا بھول گیا: شہباز تاثیر

شہباز تاثیر کا کہنا ہے کہ وہ ملک نہیں چھوڑنا چاہتے اور بلا خوف جینے کے لیے پرعزم ہیں۔

شہباز تاثیر 19 جولائی، 2023 کو لاہور میں اپنی کتاب کے ہمراہ (اے ایف پی/ آمنہ یاسین)

تقریباً پانچ سال تک عسکریت پسندوں کی قید میں رہنے والے شہباز تاثیر کا کہنا ہے کہ وہ اغوا کاروں کے تشدد کی وجہ سے ہنسنا بھول گئے تھے لیکن اب وہ بلاخوف زندگی گزارنے کے لیے پرعزم ہیں۔

ایک ممتاز کاروباری اور سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے کی حیثیت سے اگست 2011 میں شہباز کا اغوا پاکستان کے ہائی پروفائل افراد کے اغوا میں سے ایک تھا۔

اے ایف پی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں 39 سالہ شہباز نے بتایا، ’مجھے یاد ہے یہ احساس کتنا اجنبی تھا۔ میں ایک طویل عرصے تک نہیں ہنسا۔‘

گذشتہ سال نومبر میں ان کی کتاب ’لاسٹ ٹو دی ورلڈ‘ کی رونمائی ایک ایسے وقت میں ہوئی جب افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے دو سال بعد  افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد پر تشدد اور بھتہ خوری میں اضافہ ہو رہا ہے۔

شہباز کو لاہور میں ان کے گھر کے قریب سے اس وقت اغوا کیا گیا جب چند ماہ قبل اس وقت کے گورنر پنجاب اور ان کے والد سلمان تاثیر کو توہین مذہب کے قوانین میں تبدیلیوں کی مبینہ حمایت کرنے پر ان کے ہی ایک محافظ نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔

شہباز تاثیر کو اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) نے اغوا کیا تھا، جسے پاکستان میں متعدد ہائی پروفائل حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ ان میں 2014 میں کراچی ہوائی اڈے پر حملہ بھی شامل ہے جس میں درجنوں افراد مارے گئے تھے۔

شہباز کو کیٹامائن کا نشہ دے کر برقعے میں لاہور اور شمالی وزیرستان کے قصبے میر علی کے درمیان سڑک ہر چیک پوسٹوں کی موجودگی میں سمگل کیا جاتا رہا۔

پاکستان کی ملٹری انٹیلی جنس کا خیال ہے کہ آئی ایم یو خطے کے انتہائی سفاکانہ پرتشدد گروہوں میں سے ایک ہے، جس نے بھاری تاوان اور تقریباً 30 زیر حراست افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ شہباز کا کہنا ہے کہ مطالبات پورے نہیں ہو سکے۔

شہباز کی کتاب میں ان کے سب سے بڑے اغوا کار محمد علی کو ایک اداس شخص کے طور پر پیش کیا گیا، جس کے حکم پر ان کے ناخن کھینچ کر نکال دیے گئے اور منہ سلائی سے بند کر دیا گیا۔

’انہوں نے مجھے انتہائی ہولناک طریقے سے تشدد کا نشانہ بنانا اور ویڈیوز ریکارڈ کرنا شروع کر دیں۔‘

یہ ویڈیوز ان کے اہل خانہ کو بھیجی گئیں، جسے شہباز نے ’انتہائی غیر انسانی اور انتہائی ذلت آمیز‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا، ’آپ کسی ایک شخص کو اذیت نہیں دے رہے، آپ بہت سے لوگوں کو متاثر کر رہے ہیں۔‘

پرآسائش زندگی گزارنے والے شہباز کو فرش پر زنجیروں سے جکڑ کر چھ ماہ سے زائد عرصے تک صرف بکری کی چربی اور روٹی کھلائی گئی۔

ان کا کہنا تھا، ’میں خود کو انسان محسوس نہیں کرتا تھا اور انسانی جذبات کو بھی محسوس نہیں کرتا تھا، بلکہ ان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مجھے اپنے جانور ہونے کا احساس ہوتا تھا۔‘

2015 میں ازبک گروپ کا افغان طالبان کے ساتھ تصادم ہوا، جنہوں نے تاثیر کے اغوا کاروں کو شکست دینے کے بعد انہیں اپنی تحویل میں لے لیا۔

چند ماہ بعد فروری 2016 میں، انہیں اس وقت رہا کر دیا گیا جب ان کے طالبان اغوا کاروں کو پتہ چلا کہ قبل ازیں ان کے ایک سینیئر رہنما نے ان کی رہائی کے لیے ازبک عسکریت پسندوں سے مذاکرات کی کوشش میں پاکستانی حکومت کی مدد کی تھی۔

ایک ہفتہ سفر کے بعد وہ افغان صوبے اروزگان سے جنوب مغربی پاکستان کے ایک قصبے میں داخل ہوئے جہاں سے وہ سڑک کے کنارے واقع ایک ڈھابے سے اپنی والدہ کو فون کرنے میں کامیاب رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

'سب سے پہلے میں نے ایک پے فون مانگا تو (مالک) نے کہا پے فون دو، تین سال سے متروک ہیں۔‘

اتفاق سے شہباز کی رہائی اسی دن ہوئی جب ان کے والد کے قاتل کو 29 فروری، 2016 کو پھانسی دی گئی تھی۔

شہباز کہتے ہیں: ’میں ان میں سے کچھ انتہا پسند گروہوں کو دیکھتا ہوں... اب وہ سیاسی پارٹیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ یہ میرے لیے پریشان کن ہے۔

’میں نہیں چاہتا کہ (میرے بچے) ایک عدم روادار معاشرے میں پروان چڑھیں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ سوالات پوچھ سکیں... قتل ہوئے بغیر۔‘

ان کا کہنا ہے کہ سوچ اور مذہبی تنوع برداشت کرنے والا معاشرہ بننے کے لیے پاکستان کو ابھی ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔

تاہم، ان کا کہنا ہے کہ ملک کے کچھ سب سے بڑے مسائل کی جڑ– ’عسکریت پسندی، انتہا پسندی اور مذہبی انتہا پسند گروہ‘ – بہت کم  طاقت رکھتے اور اقلیت میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی قدامت پسند لوگ ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ انتہا پسند ہیں۔

’ہم نے عسکریت پسندی اور انتہا پسند عسکریت پسندی کی وجہ سے نقصان اٹھایا جو دنیا کے بہت کم ممالک میں ہوتا ہے‘

ان کا کہنا ہے کہ وہ ملک نہیں چھوڑنا چاہتے اور بلا خوف جینے کے لیے پرعزم ہیں۔

’زندگی آپ کو صرف ایک بار ملتی ہے اور آپ کو اپنی مرضی سے جینا چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان