پرائیویٹ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر طارق میاں کے مطابق صوبہ پنجاب میں 10 ہزار سے زیادہ نجی ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کو 50 سے 60 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دی جا رہی ہے۔
پرائیویٹ ڈاکٹروں کو تنخواہوں کی کم ادائیگی پر محکمہ صحت پنجاب نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل اور ہیلتھ کیئر کمیشن کو مراسلے لکھے ہیں، جن میں کہا گیا کہ پرائیویٹ ہسپتالوں کو ڈاکٹروں کو سرکاری تنخواہوں کے مطابق معاوضہ ادا کرنے کا پابند بنایا جائے۔
لیکن سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس اقدام کے بعد نجی ہسپتالوں کے مالکان قانون کے مطابق ڈاکٹروں کو تنخواہیں ادا کریں گے یا نہیں؟
اس حوالے سے ترجمان محکمہ صحت احتشام حیدر نے انڈپینڈںٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’فی الحال ہم نے دونوں متعلقہ اداروں کو مراسلے بھجوائے ہیں۔ اگر عمل درآمد نہ ہوا تو آگے کی حکمت عملی بھی تیار کی جارہی ہے۔‘
سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کی تنخواہ میں فرق
ڈاکٹر طارق میاں نے انڈپینڈںٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پنجاب سمیت ملک بھر میں سینکڑوں پرائیویٹ ہسپتال ہیں، جہاں علاج کی مد میں کروڑوں روپے کمائی کی جاتی ہے۔ لیکن 10 ہزار سے زیادہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں صرف پنجاب میں ڈاکٹرز کام کر رہے ہیں۔ مگر انہیں تنخواہیں سرکاری ہسپتالوں کے مقابلے میں 60 فیصد کم ادا کی جاتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہاؤس جاب مکمل کرنے کے بعد سرکاری ہسپتالوں اور اداروں میں بھرتی ہونے والے ڈاکٹروں کی کم از کم تنخواہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے ہوتی ہے، جب کہ دیگر مراعات علیحدہ ملتی ہیں۔ لیکن پرائیویٹ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ پرائیوٹ انتظامیہ 50 سے 60 ہزار روپے تک ماہانہ تنخواہ ادا کی جاتی ہے۔‘
احتشام حیدر کے بقول: ’سرکاری ہسپتالوں کی نسبت پرائیویٹ ہسپتال ڈاکٹروں کو انتہائی کم تنخواہیں ادا کر رہے ہیں، جس کی شکایات پر وزیر صحت عمران نذیر کی ہدایت پر متعلقہ محکموں کو کارروائی کے لیے نوٹس بھجوائے گئے ہیں۔‘
ڈاکٹروں کو یکساں مواقعے کیسے ممکن ہیں؟
ڈاکٹر طارق میاں کے بقول: ’ملک میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت (2008 سے 2013 تک) کے دوران میڈیکل کالجز بنانے کے شرائط کی پرواہ کیے بغیر لائسنز جاری کیے گئے۔ اس وجہ سے ملک میں ہر سال پرائیویٹ میڈیکل کالجز 13ہزار سے زیادہ ڈاکٹر بنا رہے ہیں۔ ہر کالج ایک ڈاکٹر بنانے کی مد میں ڈیڑھ کروڑ روپے تک فیس وصول کرتا ہے۔
’اسی طرح سرکاری میڈیکل کالجز سے بھی ہزاروں ڈاکٹر نکل رہے ہیں، جب کہ نوکریوں کے مواقع اس تعداد کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں ڈاکٹروں کو پرائیویٹ ہسپتال کم تنخواہ دے کر کام چلاتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر طارق میاں کا کہنا تھا کہ ’ایران سمیت دنیا میں ہسپتال بنانے اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے علاقوں کو تقسیم کیا جاتا ہے۔ ہر میڈیکل گریجویٹ کے لیے چار سے پانچ سال دیہی علاقوں میں پریکٹس کرنا لازمی ہوتا ہے پھر شہروں میں پریکٹس کی اجازت دی جاتی ہے۔
’لیکن ہمارے ہاں ترجیحاً شہری علاقوں میں ہسپتال بنائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے کسی شہر میں درجنوں ہسپتال ہیں اور دور کہیں ایک بھی بڑا ہسپتال نہیں۔ جب علاقوں کی سطح پر برابر سہولیات دی جائیں تو ڈاکٹروں کی کھپت بھی زیادہ ہو گی۔ اس طرح لوگوں کو صحت کی سہولیات بھی بہتر میسر ہو سکیں گی۔‘
ترجمان محکمہ صحت کے مطابق: ’پنجاب میں کوشش کی جا رہی ہے کہ شہروں کے علاوہ دیہی علاقوں میں بھی صحت کی سہولیات بہتر کی جائیں۔ اگر پی ایم ڈی سی اور ہیلتھ کیئر کمیشن نے موثر کارروائی نہ کی تو ایک مؤثر کمیٹی بنا کر پرائیویٹ ہسپتالوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اس طرف بھی لائحہ عمل بنایا جا رہا ہے کہ تمام علاقوں میں ڈاکٹروں کی تعداد مناسب حد تک کی جائے۔‘
نجی ہسپتال کا مؤقف
لاہور کے نجی ہسپتال کے ایڈمن افسر ڈاکٹر سلمان صابر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نجی ہسپتالوں کی انتظامیہ تمام اخراجات خود اٹھاتی ہے۔ حکومت سے باقاعدہ منظوری کے بعد ہسپتال بنایا جاتا ہے۔ متعلقہ محکموں کی تمام شرائط پوری کرنے کے بعد اجازت ملتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک ڈاکٹروں کی تنخواہوں کا تعلق ہے تو ہر ڈاکٹر کو ان کی مرضی کے مطابق تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔ کئی ڈاکٹر ایسے ہیں جن کی تنخواہیں سرکاری ہسپتالوں کے مقابلے میں زیادہ بھی ہوتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ جو نئے ڈاکٹر رکھے جاتے ہیں انہیں ان کے تجربے کے مطابق تنخواہ دی جاتی ہے۔
’لہذا ہر ڈاکٹر کے لیے دیگر شعبوں کی طرح ان کی قابلیت کے مطابق ہی تنخواہ اور مراعات طے کی جاتی ہیں۔‘