انڈین اداکار اتل تواری اور صحافی شیواندر سنگھ کے مطابق انڈیا اور پاکستان کے لوگ دونوں ملکوں میں تقسیم کی لکیر کے باوجود ایک دوسرے کے لیے محبت رکھتے ہیں اور ’ایسا کرنے سے انہیں کوئی نہیں روک‘ سکتا۔
لاہور الحمرا آرٹس کونسل میں جاری تین روزہ فیض فیسٹیول میں ہر سال مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے کئی انڈین شہری شریک ہوتے ہیں۔
اس مرتبہ مختلف سیشنز میں بطور مہمان مدعو انڈیا کے سینیئر اداکار، فلم رائٹر اتل تواری اور آن لائن پنجاب پورٹل کے ایڈیٹر انچیف اندر شیو سنگھ بھی شریک ہوئے۔
اتل تواری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’لاہور کا کوئی مقابلہ نہیں۔ ایسا خوبصورت، خوشنما اور خوش باش لوگ میں نے کہیں اورنہیں دیکھے۔ اس لیے لاہور آنا ہر بار اچھا لگتا ہے۔
’خاص طور پر فیض کے لیے آنا اور بھی اچھا لگتا ہے۔ کیونکہ فیض ایسے شاعر تھے جو صرف لاہور یا پاکستان کے نہیں بلکہ پوری دنیا کے تھے۔ جہاں جہاں بھی ظلم وجبر ہو مظلوموں کے لیے کھڑے رہنے والے شاعر کا نام فیض ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومتیں بانٹتی ہیں۔ عوام تو جوڑتے ہیں۔ عوام نے تو الگ نہیں کیا عوام نے نہیں کہا تھا کہ ہم الگ ہوں گے۔ لیکن اب جب دو ملک ہو گئے ہیں پھر بھی دونوں ممالک کے عوام ایک ہی ہیں۔ جس طرح ہمیں لاہور یا پاکستان میں محبت دی جاتی ہے اسی طرح ہم پاکستانیوں کو پیار دیتے ہیں۔ کبھی لاہور کے لوگ لکھنؤ آکر دیکھیں ہم بھی ایسے ہی محبت نچھاور کریں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’حکومتوں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں، حکومتیں سمجھتی ہیں ہم ہی ہم ہیں باقی سارے کم ہیں۔ لہذا حکومتوں کو چھوڑ دیں۔ کچھ دیر کے لیے ووت تو شاید ہم دیتے ہیں لیکن حکومتیں ہم نہیں بناتے۔
’حکومتیں کچھ ان سے اوپر بیٹھے لوگ بناتے ہیں۔ ملکوں کے نقشوں پر لکیر بھی وہی کھنچواتے ہیں، لیکن ہم لوگ ان لکیروں کو مٹاتے ہیں اور وہاں کی آوازیں یہاں اور یہاں کی وہاں سنائی دیتی ہیں۔ فیض انڈیا میں اتنے معروف ہیں کہ یہاں سے اندازہ لگائیں چند دن پہلے لکھنؤ میں کانفرنس ہوئی وہاں ہر طرف فیض ہی سنائی دے رہا تھا۔‘
انڈین اداکار کے بقول، ’ہم مشورہ دینے والے استاد نہیں۔ دیکھیے میری فلم تھری ایڈیٹس میں مشورہ ہے کہ دل سے کام کرو نا کہ دماغ سے۔ نا کہ رٹو طوطہ بن جاؤ کہ جو سب کہہ رہے ہیں وہ تم بھی کہنے لگو۔ نفرتیں پھیلانے کے بجائے محبتیں پھیلانا چاہیے۔ جس طرح فیض کہتے ہیں میرا پیغام ہے محبت جہاں تک پہنچے۔‘
انڈین صحافی شیو اندر سنگھ نے اندپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈین اور پاکستانی پنجاب میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ ایک بار پہلے بھی آ چکا ہوں۔ یہ محسوس نہیں ہوتا کہ میں نئی جگہ آیا ہوں۔ دونوں طرف ایک جیسا ہے۔ جیسے دہلی ویسے ہی لاہور۔ دونوں جگہ ترقی کے ساتھ تھوڑی گندگی بھی نظر آجاتی ہے۔ لیکن لاہور جاگتا ہوا شہر ہے۔
’یہاں لوگ سوتے نہیں ہیں۔ میں بھی یہاں آکر جاگتا رہتا ہوں اور لاہور بھی جاگتا دکھائی دیتا ہے۔ نطام کو جاننے کے لیے ایک ماہ کا وقت چاہیے۔ سی ایم پنجاب مریم نواز کو انڈین پنجاب میں لوگ جاننے لگے ہیں۔ صرف مریم نہیں بلکہ تمام پارٹیوں سے درخواست ہے کہ وہ پنجابی زبان اور ثقافت کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں۔‘
انڈیا اور پاکستان کے درمیان ادیبوں، شاعروں اور کھلاڑیوں سمیت دوسرے شعبوں کے افراد کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔ ہر سال سکھ یاتری بھی بڑی تعداد میں انڈیا سے لاہور آتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان سے بھی لوگ انڈیا جاتے رہتے ہیں۔