لاہور اور نئی دہلی کے درمیان ہر روز مقابلہ ہوتا ہے اور یہ مقابلہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پہلے نمبر پر آنے کا ہے۔
کبھی لاہور پہلے نمبر پر آتا ہے اور کبھی نئی دہلی۔ دونوں جانب اس سموگ کی وجوہات یکساں ہیں، جن کی تان صرف ایک نقطے پر آ کر ٹوٹتی ہے کہ دونوں جانب ’بیڈ گورننس‘ ہے، وگرنہ دنیا میں ان سے بڑے شہر بھی موجود ہیں، زیادہ صنعتی و زرعی ترقی بھی ہے اور ان شہروں سے کہیں زیادہ گاڑیاں بھی ہیں۔
سموگ سے جان خلاصی کے تمام طریقے یا تو طویل المعیاد ہیں یا پھر ان پر لاگت زیادہ آتی ہے۔ پنجاب حکومت گذشتہ کچھ دنوں سے لاہور میں مصنوعی بارش کروانے کے منصوبے پر غور کر رہی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے ان ماہرین سے گفتگو کی ہے جو ماضی میں پاکستان میں مصنوعی بارش کے تجربات سے منسلک رہے ہیں تاکہ یہ جانا جا سکے کہ مصنوعی بارش کروانا کتنا ممکن اور کتنا سود مند ہے اور لاہور کی سموگ کے خاتمے کے لیے مصنوعی بارش ایک آپشن ہے بھی یا نہیں؟
پاکستان میں پہلی بار مصنوعی بارش کا تجربہ کب کیا گیا؟
1999 سے 2003 تک بلوچستان سمیت پاکستان کے جنوبی حصوں میں قحط سالی کی فضا تھی۔ پانی کے تمام ذخائر خشک ہونے کی وجہ سے جانور بڑی تعداد میں مرنے لگے، جس کی وجہ سے لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔
حکومت نے متاثرہ علاقوں میں ہنگامی کیمپ قائم کیے اور ساتھ ہی قحط سالی کے خاتمے کی غرض سے مصنوعی بارش برسانے کے لیے محکمہ موسمیات کو ٹاسک سونپ دیا۔
پاکستان کے محکمہ موسمیات کے زیر اہتمام کراچی میں انسٹی ٹیوٹ آف میٹرولوجی اینڈ جیو فزکس کام کر رہا ہے، جہاں سے محکمہ موسمیات کے افسران کو موسم کی پیش گوئی کے علاوہ مصنوعی بارش برسانے کے طریقوں کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے، اس لیے جب حکومت نے یہ ٹاسک دیا تو محکمہ موسمیات نے اس کی حامی بھر لی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس وقت ڈاکٹر قمر الزمان محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے پوری جانفشانی سے اس ناممکن کام کو محدود وسائل میں کر دکھایا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے ماہر موسمیات ڈاکٹر محمد حنیف، جو اس وقت اس ٹیم کا حصہ تھے، سے رابطہ کیا جنہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’02-2001 کے موسم گرما کی بات ہے جب محکمہ موسمیات نے آرمی ایوی ایشن کی مدد سے خشک سالی سے متاثرہ پاکستان کے مختلف حصوں، جن میں شمالی بلوچستان، چولستان، تھر اور پوٹھوہار شامل تھے، کے محدود حصوں میں مصنوعی بارش کے تجربات کیے تھے، جن میں سے بعض کے اچھے اور بعض کے کمزور نتائج برآمد ہوئے۔‘
محمد حنیف کے مطابق: ’اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب بادل آسمان پر موجود ہوں تو ان بادلوں پر سوڈیم کلورائیڈ اور دوسرے کیمیکلز کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے اور یہ عمل ان علاقوں میں جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے سرانجام دیا جاتا ہے۔
’اس مقصد کے لیے دو سے لے کر چھ چھ گھنٹوں کی پرواز کی ضرورت پڑتی ہے جس پر کثیر سرمائے کی لاگت آتی ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق جب آپ بادلوں پر کیمیکلز چھڑک کر انہیں برسنے پر مجبور کرتے ہیں تو اس سے فصلوں اور جانوروں کی صحت پر منفی اثرات پڑتے ہیں، چنانچہ محکمہ موسمیات نے ان تجربات کو روک دیا۔‘
تجربات روکنے کی ایک دلچسپ وجہ اور بھی ہے۔
محکمہ موسمیات کے ایک اور اعلیٰ افسر، جو اس عمل میں شریک رہے ہیں، نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بعض حیران کن انکشافات بھی کیے ہیں، جن کی وجہ سے محکمہ موسمیات اس عمل کو روکنے پر مجبور ہو گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں مجموعی طور پر مصنوعی بارش برسانے کے 48 تجربات کیے گئے، جن میں سے 32 کامیاب رہے، مگر پھر یہ سلسلہ اچانک روک دیا گیا، جس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ کچھ بااثر جاگیردار جو پارلیمنٹ کے رکن بھی تھے، انہوں نے مطالبہ کرنا شروع کر دیا کہ ان کے مخالفین کی زمینوں پر مصنوعی بارش کروائی جا رہی ہے اور وہ جو حکومت کا حصہ بھی ہیں، ان کی زمینوں کو اس سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
’ان کا مطالبہ پورا کرنا تکنیکی بنیادوں پر ممکن نہیں تھا کیونکہ جہاں پر بادل ہوگا، وہیں ’کلاؤڈ سیڈنگ‘ ہو سکے گی۔ جہاں بادل سرے سے موجود ہی نہ ہوں وہاں بارش کیسے برسائی جاتی؟ پھر دوسرا مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ کچھ بااثر علما نے نہ صرف میڈیا میں اس عمل کو خدائی معاملات میں دخل اندازی سے تعبیر کیا بلکہ ہمیں فون کرکے دھمکیاں بھی دی گئیں کہ یہ عمل فوری طور پر نہ روکا گیا تو اس کے نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔
’ایک طرف تو علما تھے، جو اس کی شدید مخالفت کر رہے تھے، دوسری جانب سانگھڑ سے خبر آئی کہ مصنوعی بارش سے وہاں کی ہندو برادری اتنی خوش ہے کہ اس نے محکمہ موسمیات کے اعلیٰ افسر کا بت بنا کر مندر میں رکھ دیا ہے اور اس کی پوجا بھی شروع کر دی گئی ہے۔
’چونکہ مجھے براہِ راست دھمکیاں ملی تھیں، اس لیے محکمے نے مجھے ایک دوسرے ملک ڈیپوٹیشن پر بھیج دیا۔ یوں یہ سلسلہ رک گیا۔‘
کیا لاہور کی سموگ کا حل مصنوعی بارش ہے؟
ڈاکٹر محمد حنیف کہتے ہیں کہ ’لاہور کی سموگ موسم سرما میں ہوتی ہے، جس میں مصنوعی بارش برسانے کے امکانات بہت محدود ہوتے ہیں کیونکہ مصنوعی بارش برسانے کے دو طریقے اب تک مؤثر مانے جاتے ہیں اور دونوں کے نتائج موسم بہار اور موسم گرما میں بہتر ملتے ہیں۔
’ان طریقوں میں پہلا طریقہ کلاؤڈ سیڈنگ کا ہے، جس میں بادلوں پر سوڈیم کلورائیڈ اور چند دوسرے کیمیکلز کا چھڑکاؤ کرکے انہیں برسایا جاتا ہے۔
’یہ پرانی ٹیکنالوجی ہے جو ماحول دوست نہ ہونے کی وجہ سے ترک کی جا چکی ہے اور اس کی جگہ ایک نئی ٹیکنالوجی نے لے لی ہے، جس کا مؤجد روس ہے۔ اسے کلاؤڈ آئیونائزیشن کہتے ہیں۔
’اس میں زمین سے ہائی پاور جنریٹر کے ذریعے منفی چارج پیدا کرکے ہلکے بادلوں کو بھاری بادلوں میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ ہوا میں مناسب نمی کی موجودگی میں اس عمل کے ذریعے با آسانی بارش برسائی جا سکتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ دنیا کے کئی ممالک میں اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے بارش برسائی جا رہی ہے اور پانی کے ذخائر میں اضافے کے لیے بھی اسے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ڈیموں کے کیچ منٹ ایریا میں بارش برسا کر انہیں بھرا جا سکتا ہے۔
پرانی اور جدید ٹیکنالوجی دونوں کے لیے پاکستان میں ساز گار موسم بہار اور گرما کے ہیں۔ موسم سرما میں اس کے حوصلہ افزا نتائج نکلنے کے امکانات محدود ہیں، اس لیے لاہور کی سموگ کے پس منظر میں مصنوعی بارش اس لیے سود مند نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ دراصل مصنوعی بارش نہیں ہے بلکہ اس کے لیے جدید ٹرم بارش کے امکانات میں اضافہ کی ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے۔
اگر آسمان پر بادل ہوں گے تو بارش کروائی جا سکتی ہے۔ موسم سرما میں بادل آتے ہی کم ہیں اور جب آتے ہیں تو خود ہی برس بھی جاتے ہیں، اس لیے لاہور میں سموگ سے چھٹکارے کے لیے یہ آپشن کارگر نہیں ہو سکتا۔