پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور اس سال بھی سموگ کی لپیٹ میں ہے۔
محکمہ موسمیات کی آفیشل ویب سائٹ پر جاری کردہ موسم کی پیش گوئی کہتی ہے کہ اس ہفتے بھی پیر سے بدھ کے دوران موسم خشک رہے گا اور بارش کا امکان نہیں جبکہ صبح کے اوقات میں سموگ اور دھند چھائی رہے گی۔
حکومت پنجاب نے سموگ کے پیش نظر سمارٹ لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا لیکن چھٹی کا دن ہونے کے باوجود اتوار کو بھی لاہور دھند کی لپیٹ میں رہا اور ائیر کوالٹی انڈکس پر 406 ریکارڈ کیا گیا جو کہ انتہائی مضر صحت ہے۔
پیر کی صبح چھ بجے لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس 338 ریکارڈ کیا گیا (یہ انڈیکس ہر تھوڑی دیر بعد تبدیل ہوتا ہے) اور آئی کیو ائیر کے مطابق لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر تھا۔
حکومت پنجاب نے ہفتہ اور اتوار کو شہر میں سمارٹ لاک ڈاؤن لگایا لیکن بظاہر اس کا کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیا۔ اس صورت حال کے پیش نظر نگراں پنجاب حکومت نے صوبے کے ان اضلاع جہاں سموگ زیادہ ہے وہاں چہرے پر ماسک پہننے کو 20 سے 26 نومبر تک لازمی قرار دیا ہے اور اس حوالے سے ایک نوٹفیکیشن بھی جاری کیا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی اتوار کو سماجی رابطے کی سائٹ ایکس (سابق ٹویٹر) پر یہ نوٹفیکشن شیئر کیا اور لکھا: 'بگڑتے ہوئے ہوا کے ماحولیاتی معیار کے پیش نظر، پنجاب حکومت نے صوبے کے سموگ سے متاثرہ اضلاع میں تمام شہریوں کے لیے چہرے کے ماسک پہننا لازمی ہوگا۔ صحت کو ترجیح دینا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ براہ کرم ہدایات پر عمل کریں۔'
In response to deteriorating Air Quality, the Punjab Government announces a 1-week mandate for wearing of face masks for all citizens in smog effected districts of Punjab. Prioritising health is our collective responsibility. Please adhere to the guidelines for a safer community. pic.twitter.com/qe3jBdUjvY
— Mohsin Naqvi (@MohsinnaqviC42) November 19, 2023
ای بائیکس
پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی نے بھی سموگ کے تدارک کے لیے 20 نومبر یعنی پیر کو عملے میں برقی موٹر سائیکلیں تقسیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پی ایچ اے کے ترجمان احمد سعد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عملے میں کل 100 برقی موٹر سائیکلیں تقسیم کی جائیں گی جن میں سے 25 پہلے فیز میں آج (پیر کو) عملے کے حوالے کر دی جائیں گی۔
ان کے مطابق پی ایچ اے پہلا حکومتی ادارہ ہے جس نے فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے۔ ’ان موٹر سائیکلوں سے نہ صرف ایندھن کے اخراجات میں کمی آئے گی بلکہ ماحول دوست اقدامات کو فروغ ملے گا۔‘
احمد سعد نے بتایا کہ برقی موٹر سائیکلوں کی بیٹریوں کا ایمیشن ریٹ صفر ہے جو کہ پی ایچ اے کے صحت مند ماحول کے عزم کا اظہار ہے۔
میو ہسپتال کے ڈاکٹر سلمان کاظمی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سموگ کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ ہسپتالوں بھی آرہے ہیں اور نجی کلینکس پر بھی۔ ’ان میں زیادہ تر لوگ سانس خراب ہونے اور سانس میں سیٹیاں بجنے کی شکایت لے کر آ رہے ہیں یا کچھ کو (resistant flue and cough) ہوا ہے جو بغیر سٹی رائڈز کے یا کسی ایسی دوائی جو معمول میں استمال نہیں کی جاتی اس کے بغیر ٹھیک ہی نہیں ہو رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ اس لیے طول پکڑ رہا ہے کیونکہ ماضی کی حکومتوں نے اس سلسلے میں کبھی کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں کی۔
انڈیا، دبئی یا چین میں وہ تواتر کے ساتھ مصنوعی بارش برساتے ہیں کیونکہ یہ اس مسئلے کا ایک اچھا حل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پنجاب کی نگراں حکومت نے مصنوعی بارش کا منصوبہ تو بنایا ہے لیکن شاید یہاں ابھی بادل دور دور تک نہیں ہیں جس کی وجہ سے اس منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگ ماسک ضرور پہنیں، چھوٹے بچوں کو موٹر سائیکلوں پر سفر نہ کروائیں۔ وہ مر یض جو ضعیف ہیں، دمے کے مرض میں مبتلا ہیں، حاملہ خواتین اور یا وہ جو سگریٹ بہت زیادہ پیتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ ہر حال میں سموگ سے بچیں اور صبح اور شام کے وقت گھروں کے اندر رہیں۔
ہوا صاف کرنے کے آلات
حکومت کی جانب سے مختلف اقدامات تو جاری ہیں لیکن سموگ سے متاثر ہونے والے ہر طبقے کے باشعور شہری بھی اپنی مدد آپ کے تحت خود کو بچانے کی کوشش میں لگے ہیں۔
مارکیٹ میں مختلف ائیر پیوری فائرز بھی دستیاب ہیں جو ایک کمرے کے لیے بھی استعمال ہو سکتے ہیں جبکہ کچھ بڑے حجم کے ہیں جو ایک ہال کی فضا کو قدرے بہتر بنا سکتے ہیں۔
لاہور کے ایک معروف سٹور کے مینیجر محمد سہیل نے بتایا کہ جن دنوں میں سموگ زیادہ ہوتی ہیں ان دنوں میں ہوا صاف کرنے والے پیوری فائیرز کی فروخت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
'’دن میں تین سے چار پیوری فایئرز فروخت ہو جاتے ہیں۔
سہیل کے مطابق ان کے پاس موجود ائیر پیوری فئیرز کی قیمت 38 ہزار روپے سے دو لاکھ روپے تک بھی ہے لیکن یہ منحصر ہے کہ آپ کو کتنے حجم کے کمرے کے لیے چاہیے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایئر پیوری فایئرز میں فلٹر لگتے ہیں جنہیں کچھ عرصے بعد تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ فلٹرز کا ایک پیک جس کے اندر چار پلٹر ہوتے ہیں اس کی کم سے کم قیمت 20 ہزار روپے ہے۔
غریب آدمی کے لیے یہ خرچہ برداشت کرنا یقینا ممکن نہیں دکھائی دیتا۔ انڈپینڈنٹ اردو نے کچھ ایسے لوگوں سے بات کی جو ایئر پیوری فایئرز استعمال کرنے کی سکت نہیں رکھتے، ان سے پوچھا کہ وہ سموگ سے بچنے کے لیے کیا کرتے ہیں؟
آسیہ بی بی لاہور کی رہائشی ہیں اور مختلف گھروں میں صفائی کا کام کرتی ہیں۔ جب ہم نے ان سے یہ پوچھا تو وہ ہنس پڑیں اور کہنے لگیں: 'میں نے تو کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ مجھے اس سے بچنا ہے۔ میں پڑھی لکھی نہیں ہوں نہ میرے پاس ٹی وی ہے کہ مجھے علم ہو۔ بس باجیاں بتاتی ہیں لیکن میں نے کبھی اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔'
قاری اعجاز چہرے پر کالا ماسک پہنے موٹر سائیکل پر سارا دن شہر کے مختلف علاقوں میں بچوں کو گھر گھر جا کر قرآن پڑھاتے ہیں۔
قاری اعجاز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: 'سموگ سے بچنے کے لیے میں تو ماسک ہر وقت پہن کر رکھتا ہوں باقی گھر میں بچے ہیں تو وہ بھی بس گھر سے سکول تک ہی جاتے ہیں ورنہ آج کل تو انہیں گھر کے اندر ہی قید کیا ہوا ہے۔ میں نے انہیں گھر سے باہر گلی میں بھی کھیلنے کی اجازت نہیں دی اس کے باوجود بچے مسلسل کھانسی کر رہے ہیں۔‘
اینٹی سموگ پودے؟
ہم نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بنے مختلف گروپس میں یہ سوال کیا کہ صارفین کس طرح اپنے گھر کی فضا کو بہتر بناتے ہیں اور سموگ سے اپنا بچاؤ کیسے کرتے ہیں؟
اس کے جواب میں کچھ صارفین نے بتایا کہ وہ کمرے میں ایئر پیوری فایئرز کا استعمال کرتے ہیں۔ ایک صارف ماریہ خان نے لکھا کہ کمروں کے اندر ایسے پودے رکھے جائیں ہیں جو ایئر پیوری فایئرز کا کام کرتے ہیں جن میں سنیک پلانٹ، سپائڈر پلانٹ، پیس للی،ایلو ویرا، انگلش آئی وی، ربر پلانت اور بیمبو وغیرہ شامل ہیں۔
ایک صارف سعدیہ نے گھر میں لگے ایئر کوالٹی چیک کرنے والے آلے کی تصویر شیر کی جس کے مطابق ان کے گھر کے تمام دروازے اور کھڑکیاں بند ہونے کے باوجود ایئر کوالٹی انڈکس 446 تھا۔
سعدیہ کا کہنا تھا کہ یہ صرف ان کے مکان کی نہیں بلکہ پورے شہر کی صورت حال ہے۔ 'یہ تیسری سردیاں ہیں جب میرے بچے این 95 ماسک پہننے کے باوجود مختلف الرجیز کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ سب سے بڑی وجہ ہے کہ ہم لاہور شہر چھوڑ کر کسی اور شہر میں جانے کا سوچ رہے ہیں۔‘
سعدیہ کا کہنا تھا کہ مکان کے اندر ائر پیوری فایئر پلانٹس لگانے کا فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ 2.5 پارٹیکیولیٹ میٹر پودوں سے صاف نہیں ہوتا اس کے لیے ایچ ای پی اے والے فلٹرز والا ایئر پیوری فایئر ہی استعمال کرنا ہوگا۔‘'
یمنہ صدیقی کاماننا ہے کہ جس درجے کی سموگ ہے اس میں گھر کی تمام کھڑکیاں بند رکھنے سے بھی یہ پودے کچھ نہیں کر پائیں گے۔
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ باٹنی کے پروفیسر ڈاکٹر شکیل احمد سے رابطہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایسے پودوں کے حوالے سے کوئی ٹھوس بات فی الحال نہیں کی جا سکتی لیکن میں نے اس سال اپنے کچھ طالب علموں کو ان اور آؤٹ ڈور ایسے پودے جو فضا سے آلودگی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہوں پر تحقیق کا کام دیا ہے۔ میں اس تحقیق کی نگرانی کر رہا ہوں کہ اس کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں لیکن فی الحال کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔'
انڈپینڈنٹ اردو نے سوشل میڈیا انفلونسر عائشہ ناصر سے بھی بات کی۔ عائشہ نے جو کہ ایک ڈاکٹر بھی ہیں سماجی رابطوں کی مختلف سائٹس پر 'سکیئری امی' کے نام سے ماؤں کی ایک کمیونٹی بنا رکھی ہے۔
عائشہ ہر سال اس کمیونٹی کے ذریعے سموگ کے تدارک اور اس سے خود اور بچوں کو کیسے بچانا ہے کے حوالے سے چرچہ کرتی ہیں اور مختلف سکولوں اور تعلیمی اداروں میں جا کر اس بارے میں آگاہی بھی دیتی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ ناصر کا کہنا تھا: 'ایسے پودے جو فضا کی آلودگی کو کم کر سکیں جیسے سنیک پلانٹس وغیرہ تو اس کا کوئی بھی حتمی ثبوت موجود نہں ہے لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان سے فائدہ ہوتا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک سموگ کا تعلق ہے تو وہ انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے اور لاہور تو ویسے بھی اپنی فضائی آلودگی کے اعتبار سے دنیا کے سب سے خطرناک شہروں کی فہرست میں شامل ہے۔
احتیاطی تدابیر
باہر جاتےہوئے آپ احتیاطی تدابیر کر سکتے ہیں کہ آپ ماسک پہنیں اور آنکھوں پر عینک لگائیں لیکن کوئی بھی تدبیر سو فیصد کام نہیں کرتی۔ ہاں ایئر فلٹر والے ماسک پہنیں تاکہ آپ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ اپنے پھیپھڑوں کو کچھ حد تک بچا رہے ہیں۔
اسی طرح گھروں کے اندر ایئر پیوری فایئرز استعمال ہو سکتے ہیں لیکن وہ صرف ایک کمرے کے لیے ہوگا۔ اس لیے وہ وہاں لگا سکتے ہیں جہاں رات میں آپ اور بچے سو رہے ہوں لیکن اس میں بھی آپ کو مسلسل اس کے فلٹرز تبدیل کرنا پڑتے ہیں۔
'بہتر حل یہی ہے کہ ہم سموگ کو کنٹرول کریں جس کے لیے بڑے پیمانے پر اداروں اور حکومتی سطح پر ہمیں اقدامات کرنا ہوں گے۔'
کم سے کم وسائل میں سموگ سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
میو ہسپتال کی ماہر امرض چشم ڈاکٹر سدرہ لطیف نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ جن کے پاس سموگ سے بچنے کے لیے بہت زیادہ وسائل نہیں ہیں وہ گھروں سے کم سے کم باہر نکلیں، خاص طور پر علی الصبح اور دیر رات کو کیونکہ اس وقت سموگ زیادہ ہوتی ہے۔
کمروں کے دروازے بند رکھیں اور ہو سکے تو کھڑکیوں کے آگے کوئی پردہ لگا دیں۔ باہر سے آتے ہیں اپنا منہ اچھی طرح دھوئیں۔
باہر نکلتے ہوئے آنکھوں پر کوئی چشمہ بھی لگایا جا سکتا ہے تاکہ آنکھیں محفوظ رہ سکیں اور اگر ماسک نہیں لے سکتے تو کوئی بھی دوپٹہ یا کپڑا تہہ کر کے اپنے چہرے پر ناک تک لپیٹ لیں اس سے بھی بچت ہو سکتی ہے۔