کیا سموگ روکنے کے لیے مصنوعی بارش کا تجربہ کامیاب ہو سکتا ہے؟

مصنوعی بارش جسے ’کلاوڈ سیڈنگ‘ بھی کہا جاتا ہے اس پر کس طرح عمل کیا جاسکتا ہے اور یہ تجربہ جو دنیا کے کئی ممالک میں پہلے سے کامیابی سے جاری ہے پاکستان میں بھی قابل عمل ہوسکتا ہے یا نہیں؟

سموگ سے بڑھتی فضائی آلودگی حکومتوں کے لیے چیلنج بن چکی ہے جس پر قابو پانے کے لیے مصنوعی بارش جیسے اقدامات زیر غور ہیں، تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تجربہ پاکستان میں کامیاب ہوسکے گا؟

محکمہ ماحولیات کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور جمعے کو ایک بار پھر دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پہلے نمبر پر پہنچ گیا۔ شہر میں جمعرات اور جمعے کی شب کو ایئر کوالٹی انڈیکس مجموعی طور پر 343 ریکارڈ کیا گیا، جو فضائی آلودگی میں غیر معمولی اضافے کا عکاس ہے۔ 

انڈیا کا دارالحکومت نئی دہلی 256 ایئر کوالٹی انڈیکس کے ساتھ دوسرا آلودہ ترین شہر قرار دیا گیا، کراچی کا 179 ایئر کوالٹی انڈیکس کے ساتھ آلودگی کے حوالے سے تیسرا نمبر رہا۔ 

دہلی حکومت کے بعد پنجاب حکومت نے بھی پہلی بار لاہور میں مصنوعی بارش برسانے کے اقدامات کا حکم دے دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے سڑکوں پر پانی کا سپرے کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ 

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مصنوعی بارش جسے ’کلاوڈ سیڈنگ‘ بھی کہا جاتا ہے اس پر کس طرح عمل کیا جاسکتا ہے اور یہ تجربہ جو دنیا کے کئی ممالک میں پہلے سے کامیابی سے جاری ہے یہاں بھی قابل عمل ہوسکتا ہے یا نہیں؟ 

ماہرین کے مطابق دنیا میں 50 ممالک مصنوعی بارش سے کئی دہائیوں سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ لیکن پاکستان اور انڈیا میں پہلی بار اس تجربے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بارش برسانا ممکن ہے اس کے لیے آسان طریقے موجود ہیں جن پر خرچ بھی زیادہ نہیں ہوگا۔ 

مصنوعی بارش کا تجربہ کتنا ممکن ہے؟ 

پنجاب میں گذشتہ کئی سالوں سے صوبائی دارلحکومت لاہور سمیت وسطی پنجاب کے کئی شہروں میں اکتوبر سے دسمبر تک سموگ چھائی رہتی ہے۔ جس سے فضائی آلودگی اس قدر بڑھتی جارہی ہے کہ لاہور اکثر دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پہلے نمبر پر رہنے لگا ہے۔ 

سموگ پر قابو پانے کے لیے محکمہ ماحولیات سمیت دیگر متعلقہ اداروں کی جانب سے روایتی کارروائیاں جاری ہیں۔ لیکن فضائی آلودگی میں کمی نہ ہونے پر پنجاب حکومت نے پہلی بار مصنوعی بارش کا تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔  

صوبائی وزیر ماحولیات بلال افضل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی زیر صدارت سموگ تدارک سے متعلق جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں مصنوعی بارش کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہم ملکی تاریخ میں پہلی بار مصنوعی بارش کا تجربہ کرنے جارہے ہیں۔

’ماہرین کی رائے کے مطابق اس کے لیے 40 فیصد بادلوں کا ہونا لازمی ہے۔ لہذا 28 اور 29 نومبر کو بادلوں کے لاہور میں داخل ہونے پر مصنوعی بارش کا تجربہ کرنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ جب ماہرین اور متعلقہ حکام اس بارے میں حتمی پلان دیں گے تو وزیر اعلی تجربے کی منظوری دے دیں گے۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈین دارالحکومت دہلی کے وزیر ماحولیات گوپال رائے نے پچھلے ہفتے ایک بیان میں کہا کہ ’حکام کو دہلی میں مصنوعی بارش کرانے کے حوالے سے ہدایات دے دی گئی ہیں۔ اس منصوبے پر تقریباً 13 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔‘ 

گوپال رائے نے بتایا کہ ’انڈیا میں انجینیئرنگ کے معروف ادارے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) کانپورکے ماہرین کی ایک ٹیم نے مصنوعی بارش کے سلسلے میں تفصیلی تجویز پیش کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آئی آئی ٹی پہلے بھی مصنوعی بارش کے تجربات کرچکی ہے۔ لیکن اس نے یہ تجربات بارش کے موسم میں کیے تھے اور سردیوں کے لیے یہ ایک نیا تجربہ ہو گا۔‘ 

پنجاب کے صوبائی وزیر ماحولیات بلال افضل جمعے کو چینی قونصل جنرل سے لاہور میں ملاقات کی اور سموگ کے تدارک سے متعلق تکنیکی امداد فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔

اس کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے بھی سموگ پر قابو پانے سے متعلق کیس میں حکومت کو سخت اقدامات کا حکم دیا ہے۔ پنجاب حکومت نے وسطی پنجاب میں کل بروز ہفتہ تعلیمی ادارے بند رکھنے کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔ 

مصنوعی بارش کا کیا طریقہ ہے؟ 

جامعہ پنجاب لاہور کے شعبہ جغرافیہ کے سربراہ ڈاکٹر منور صابر کے مطابق وہ دو سال پہلے اپنے طور پر شمالی علاقہ جات میں اپنے طلبہ سے مل کر چھوٹے پیمانے پر مصنوعی بارش برسانے کا کامیاب تجربہ کر چکے ہیں۔ 

ان کے مطابق ’جسے مصنوعی بارش قرار دیا جاتا ہے وہ درحقیقت  ایک مخصوص تجربے سے حقیقی بارش برسائی جاتی ہے البتہ بادلوں کی موجودگی میں  قدرتی وقت سے پہلے ہی بارش برسانے کے لیے انسانی کوشش ہوتی ہے۔‘  

منور صابر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مصنوعی بارش کلاوڈ سیڈنگ (Cloud seeding) تکنیک کے ذریعے کرائی جاتی ہے۔

’اس کے لیے خصوصی ہوائی جہاز کے ذریعے دو سے چار ہزار فٹ کی بلندی سے دستیاب بادلوں کے اوپر سوڈیم کلورائیڈ، سلور آئیوڈائیڈ اور دیگر کیمیکل چھڑکے جاتے ہیں جو بادلوں میں برفیلے کرسٹلز بناتے ہیں اور بادلوں کو بھاری کر دیتے ہیں، جس کے بعد بارش ہونے لگتی ہے۔‘ 

’اس کے علاوہ نیچے سے لانچرز میں کیمیکل ڈال کر بھی بادلوں سے ٹکرایا جائے تو بارش ممکن ہے۔ وزیر اعلی پنجاب کی زیر صدارت اجلاس میں انہیں بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اس موقعے پر اتفاق ہوا کہ پنجاب حکومت کے پاس موجود جہاز جس میں پانی کی ٹینکی بھی لگی وہ پرانے ایئر پورٹ سے اڑایا جاسکتا ہے۔ جس سے اخراجات بھی کم ہوں گے۔‘ 

منور صابر کے بقول ’کئی ماہرین نے اپنی تجاویز دی ہیں جن پر عمل درآمد کے لیے حکمت عملی بنائی جارہی ہے۔ لیکن یہ تجربہ حکومت کی سنجیدگی سے کامیاب ہوسکتا ہے اور ہر بار سموگ کے خاتمے کے لیے مدد مل سکتی ہے۔‘ 

انہوں نے کہا کہ ’دنیا کے 50 سے زائد ملکوں میں کلاوڈ سیڈنگ کے پروگرام چل رہے ہیں۔ امریکہ، چین، تھائی لینڈ، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک خشک سالی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اس کا استعمال کر رہے ہیں۔‘ 

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات