عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، باچا خان، ولی خان اور ان کے خاندان کے وارث اور چارسدہ میں ولی باغ کی سیاست کا ذکر ’خدائی خدمت گار تحریک‘ کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے اور اسی وجہ سے ہم بھی سب سے پہلے خدائی خدمت گار تحریک سے ہی آغاز کرتے ہیں۔
خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان، جنہیں فرنٹیئر گاندھی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، 1929 میں خدائی خدمت گار تحریک کے نام سے ایک تحریک کا آغاز کرتے ہیں جو اس وقت کے صوبہ سرحد میں اتنی مقبول ہوتی ہے کہ 1937 کے انتخابات میں شمال مغربی سرحدی صوبے میں مسلم لیگ اس کے خلاف کوئی امیدوار کھڑا نہیں کر سکتی۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے جریدے میں شائع قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد کے شعبہ تاریخ کے حمایت اللہ یعقوبی کے تحقیقی مقالے کے مطابق خدائی خدمات گار تحریک کو تب عوام میں پذیرائی ملی جب 1930 میں آل انڈیا کانگریس نے برطانوی راج کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کی اور خدائی خدمت گار تحریک کی جانب سے انہیں حمایت ملی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی تحقیقی مقالے میں محقق پروفسیر وقار علی شاہ کی زبانی لکھا گیا: ’یہ تحریک پختونوں کے لیے پختون کلچر اور شناخت دوبارہ حاصل کرنے کا نام تھا۔ چھوٹے خوانین کے لیے یہ تحریک سیاسی اصلاحات کی تحریک تھی تاکہ انہیں حکومت میں حصہ مل سکے جب کہ برطانوی راج کے کٹر مخالف ہونے کے باعث علما کے لیے بھی اس تحریک میں کشش موجود تھی اور غریبوں کے لیے یہ تحریک غاصبوں سے جان چھڑانے کی تحریک تھی۔‘
یہ تحریک اتنی مقبول ہوئی کہ 1937 کے انتخابات میں کانگریس نے 50 میں سے 19 نشستیں جیت لیں۔ برطانوی راج کی حمایت سے خان عبدالقیوم خان کو صوبے کا گورنر بنا دیا گیا، تاہم کچھ عرصے بعد ہی انہیں عہدے سے ہٹا کر کانگریس کی حمایت سے اتحادی حکومت بنائی گئی اور باچا خان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کو وزیراعلیٰ منتخب کیا گیا۔
1940 کی سول نافرمانی کی تحریک کے دوران کانگریس اور خدائی خدمت گار تحریک کمزور پڑ گئیں لیکن 1946 کے انتخابات میں کانگریس نے ایک مرتبہ پھر 50 میں سے 19 نشستیں جیت لیں، جن میں اقلیتوں کے لیے مختص 11 نشستیں بھی شامل تھیں جبکہ مسلم لیگ سرحد میں محض 17 نشستیں جیت پائی۔
تاہم 1946 میں جب تقسیمِ ہند کی باتیں شروع ہوئیں تو کانگریس کے پلیٹ فارم سے اس کی مخالفت ہوئی۔ کانگریس رہنما جواہر لال نہرو کے صوبہ سرحد کے دورے نے یہاں جماعت کی مقبولیت کو متاثر کیا اور مسلم لیگ نے اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کو ہندو حمایت یافتہ قرار دیتے ہوئے اس کے استعفے کا مطالبہ کیا۔
تاہم کانگریس کی حکومت استعفیٰ دینے کے لیے تیار نہیں تھی اور یوں برطانوی وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے سرحد میں ریفرنڈم کو اس صورت حال کا حل پیش کیا، جس میں عوام ہندوستان یا پاکستان سے الحاق سے متعلق حق رائے دہی کا استعمال کریں۔
نہرو اور کانگریس نے ریفرنڈم کی تجویز قبول کر لی لیکن باچا خان نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ اگر بنگال اور پنجاب نے الحاق کا فیصلہ کرنے کا اختیار منتخب اسمبلیوں کو دیا ہے تو صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کیوں کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے ریفرنڈم میں پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ تیسرے آپشن ’آزاد پختونستان‘ کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔
تحقیقی مقالے کے مطابق اس وقت بنوں کے علاقے میں باچا خان نے اعلان کیا کہ وہ ریفرنڈم کا بائیکاٹ کرتے ہیں اور کانگریس اس میں حصہ نہیں لے گی جب کہ ڈاکٹر خان صاحب نے ریفرنڈم میں سرحد کے لوگوں کی پاکستان کی حمایت کی صورت میں حکومت چھوڑنے کا وعدہ کیا لیکن ایسا ہوا نہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام
کانگریس اور خدائی خدمت گار تحریک کے بانی باچا خان کی مخالفت کے باوجود 1947 میں تقسیم ہند پر عمل ہوا اور انڈیا اور پاکستان وجود میں آئے۔
1948 میں باچا خان نے دی پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت کی بنیاد رکھ دی۔
تحقیقی مقالے کے مطابق باچا خان نے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں بتایا کہ اب پاکستان بن گیا ہے اور اس سے پہلے ہمارے اور مسلم لیگ کے مابین اختلافات تھے لیکن پاکستان بننے کے بعد اب اس ریاست کی ترقی کے لیے مل کر کام کریں۔
اسمبلی میں وزیراعظم لیاقت علی خان کے پختونستان کے مطالبے کے سوال کے جواب میں باچا خان نے بتایا تھا کہ وہ صرف صوبہ سرحد کا نام پختونستان رکھنا چاہتے تھے اور اب انہوں نے پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھا لیا ہے۔
اس کے بعد اسمبلی میں باچا خان نے قائداعظم کو چارسدہ کے سردریاب میں خدائی خدمت گار کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کرنے کی دعوت دی لیکن وہ دورہ نہ ہو سکا اور بعد میں 1948 میں کراچی میں ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر باچا خان نے پیپلز پارٹی پاکستان کے نام سے سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی، جس کا انہیں صدر اور جی ایم سید کو جنرل سیکریٹری چنا گیا۔
باچا خان نے صوبہ سرحد لوٹ کر صوبے کے مختلف علاقوں تک پارٹی کا پیغام پہنچایا اور لوگوں کو بتایا کہ ان کی پارٹی کا جھنڈا سرخ ہو گا، خدائی خدمت گار اس کی عسکری شاخ ہو گی اور اس کے لوگ سرخ یونیفارم پہنیں گے۔
اپنی تقریروں میں وہ مسلم لیگ کے بیانیے کے مخالفت کرتے تھے جس کے باعث انہیں 15 جون 1948 کو گرفتار کر لیا گیا اور صوبائی حکومت نے خدائی خدمت گار تحریک اور اس کے میگزین ’پختون‘ پر پابندی لگا دی۔
نیشنل عوامی پارٹی کا قیام اور ولی خان کی سیاست
لائبریری آف کانگریس کے جریدے ’پاکستان: دی کنٹری سٹڈی‘کے مطابق ولی خان نے 1956 میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) میں شمولیت اختیار کی، جس کی سربراہی بنگالی سوشلسٹ رہنما مولانا عبدالحمید بھاشانی کر رہے تھے۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان میں 2015 میں چھپنے والے حمایت اللہ یعقوبی کے تحقیقی مقالے کے مطابق نیپ میں اس وقت سرحد کی خدائی خدمت گار تحریک، بلوچستان کی رور پختون اوستمن گل تحریک، سندھ کے عوامی محاذ اور سندھ ہاری کمیٹی اور پنجاب کی آزاد پاکستان پارٹی کے رہنما شامل ہوئے۔
تحقیقی مقالے کے مطابق: ’نیپ میں شامل رہنما انڈین نیشنل کانگریس کے اتحادی تھے اور تقسیمِ ہند سے پہلے بٹوارے کی مخالفت کرتے تھے اور ان پر سویت یونین، انڈیا اور افغانستان کے ساتھ وفاداری کے الزامات بھی لگائے جاتے تھے۔‘
خادم حسین عوامی نیشنل پارٹی کی تاریخ پر عبور رکھتے ہیں اور اے این پی کے کلچرل ونگ کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 1956 میں نیشنل عوامی پارٹی کے بننے کے بعد ولی خان نے باقاعدہ طور پر سیاست میں کوششیں شروع کیں۔
خادم حسین نے بتایا: ’1948 میں باچا خان اور خدائی خدمت گار تحریک کے رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا اور کچھ سال بعد رہائی کے بعد نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ نیشنل عوامی پارٹی میں صرف ایک خاندان کے افراد موجود نہیں تھے بلکہ اس وقت کے بائیں بازو کے رہنما بھی شامل تھے اور اپنی سیاسی کوششیں کر رہے تھے۔‘
نیپ بننے کی وجوہات کے بارے میں ایچ ای سی کے مقالے میں لکھا گیا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ عوامی لیگ میں اس وقت کے وزیراعظم حسین شہید سہروردی اور مشرق پاکستان کے رہنما عبدالحمید بھاشانی کے درمیان نظریاتی اختلافات تھے۔
نیپ میں بائیں بازو کے نظریاتی لوگ جیسے مشرقی پاکستان کے عبدالحمید بھاشانی، پروفیسر مظفر احمد اور علی احد جبکہ میاں افتخارالدین اور محمود علی قصوری پنجاب سے اور عبدالغفار خان (باچا خان) اور افضل بنگش صوبہ سرحد سے شامل تھے۔
اسی طرح بلوچستان سے نیپ کے رہنماؤں میں غوث بخش بزنجو، پرنس عبدالکریم اور عبدالصمد اچکزئی جبکہ سندھ سے جی ایم سید، قصور گردیزی اور حیدر بخش جتوئی شامل تھے اور اس وقت نیپ 1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام سے قبل بائیں بازو کے سوچ رکھنے والے رہنماؤں کی نمائندہ جماعت تھی۔
1965 میں نیپ ماسکو اور کمیونسٹ چین کے حمایت یافتہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔
ولی خان ماسکو کے حمایت یافتہ دھڑے کے صدر بن گئے اور 1970 تک پارٹی اتنی مضبوط ہو گئی کہ انتخابات میں اس وقت کے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں جمیعت علمائے اسلام سے اتحاد کر کے حکومت بنائی، جو لمبا عرصہ نہ چل سکی کیونکہ ولی خان کو گرفتار کر کے پابند سلاسل کر دیا گیا اور اسی دوران سپریم کورٹ نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی فائنڈنگ کہ، نیپ ریاست پاکستان کے خلاف سازش میں ملوث ہے، کی بنیاد پر جماعت پر پابندی لگا دی گئی۔
عوامی نیشنل پارٹی کا قیام
جنرل ضیا الحق کے زمانے میں ولی خان کے خلاف چارجز ختم کیے گئے اور نیپ پر سے پابندی بھی ہٹائی گئی۔ بعدازاں ولی خان نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور1986 میں بائیں بازوں کی چھوٹی جماعتوں بشمول نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور عوامی تحریک کو ضم کر کے عوامی نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی۔
خادم حسین کے مطابق 1990 میں اس پارٹی کی قیادت تبدیل ہوئی اور ولی خان سے اسفندیار ولی خان کو منتقل کی گئی۔
’لیکن یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس پارٹی کی قیادت اس زمانے میں ولی خان خاندان سے باہر کے افراد نے بھی کی تھی۔‘
انہوں نے بتایا: ’اس دوران اجمل خٹک اور ارباب سکندر خان خلیل سمیت مختلف افراد اے این پی کے مرکزی صدور رہ چکے ہیں اور اسی تسلسل کو لے کر پارٹی کے معاملات چلتے رہے۔‘
عوامی نیشنل پارٹی اور انتخابات
اے این پی کے بننے کے بعد 1990 کے عام انتخابات میں اس جماعت نے قومی اسمبلی کی چھ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ 1993 کے انتخابات میں صرف تین نشستیں جیت سکی۔
خادم حسین کے مطابق اے این پی نے 2008 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے علاوہ قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے بھی امیدوار میدان میں اتارے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد بھی کیا۔
انہوں نے بتایا: ’پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی کی اتحادی حکومت نے 18 ویں ترمیم منظور کر کے اختیارات صوبوں کو متنقل کیے، جو ایک بڑی کامیابی تھی جس کے تحت اس کو اپنا نام دے کر پختونخوا کی شناخت کا مسئلہ بھی حل کیا اور صوبے کو وہاں تک پہنچایا، جو باچا خان اور ولی خان چاہتے تھے۔‘
ولی باغ کی چوتھی پشت کی قیادت میں جماعت نے 2013 اور2018 کے انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا اور کچھ نشستیں بھی جیتی اور اب آٹھ فروری کے انتخابات کے لیے بھی اس پارٹی نے امیداور میدان میں اتار ہوئے ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔