خان عبدالغفار خان اگر ایک تاریخی غلطی نہ کرتے تو شاید لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے لیے اتنی جلد اپنا مشن مکمل نہ کر پاتے اور صوبہ سرحد ایک ایسے تنازعے کی شکل اختیار کر جاتا جس کے ہوتے ہوئے شاید تاج برطانیہ کا دو ریاستی نظریہ دھڑام سے گر جاتا۔ اگر سرحد کو آزاد ریاست کی حیثیت ملتی تو ہندوستان کی 580 سے زائد ریاستوں اور راجواڑوں میں سے کئی بڑی ریاستوں کو بھی یہ آپشن مل جاتا جس سے ہندوستان کی حیثیت بلقان کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں جیسی ہو جاتی۔
نریندر سنگھ سریلا جو 1948 سے 1985 تک بھارت کی وزارتِ خارجہ میں اہم عہدوں پر تعینات رہے اور کئی ایک کتابیں لکھیں ان کی ایک کتاب ’دی ان ٹولڈ سٹوری آف انڈین پارٹیشن ‘ 2005 میں چھپی تھی، جس میں انہوں نے تقسیم سے متعلق کئی تاریخی حقائق واشگاف کیے ہیں۔ کتاب کے صفحہ 299پر وہ لکھتے ہیں:
’تین جون 1947، ہندوستان سے برطانوی انخلا سے صرف دو دن پہلے لارڈ ماؤنٹ بیٹن وزیراعظم ایٹلی سے آخری ہدایات لے کر دلی پہنچتے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا دردِ سر یہ ہے کہ صوبہ سرحد کا مستقبل کیا ہو گا کیونکہ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا تقسیم کا عمل آگے نہیں چلے گا۔ دوسری طرف گاندھی 24 مئی کو ہندوستان کے مشرقی علاقوں میں ہونے والے فسادات سے واپس آ کر مسلسل تقسیم کے خلاف بول رہے ہیں۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم کا منصوبے کا اعلان کرنے سے صرف ایک روز پہلے یعنی دو جون کو گاندھی سے ملاقات کی۔
’لارڈ ماؤنٹ بیٹن لکھتے ہیں کہ جیسے ہی انہوں نے گاندھی کو اندر آتے دیکھا تو انہوں نے ہونٹوں پر انگلی رکھی ہوئی تھی جس کا مطلب ہے کہ آج انہوں نے چُپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر مجھے سکون ہوا۔ انہوں نے ایک کاغذ پر لکھا کہ مجھے افسوس ہے کہ میں آج بو ل نہیں سکتا تاہم مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے بولنے پر مجبور نہیں کریں گے۔‘
’انہوں نے دوسری چٹ پر لکھا کہ ’عبدالغفار خان نے مجھے کہا ہے کہ آپ گورنر سرحد سر اولف کیرو کو برخاست کر دیں، مجھے نہیں معلوم کہ خان صحیح کہہ رہا ہے یا غلط، تاہم وہ ایک سچا آدمی ہے۔ آپ جتنی جلدی یہ کر دیں اتنا بہتر ہے۔‘
ماؤنٹ بیٹ نے لندن جانے سے پہلے نہرو کو اس بات پر قائل کر لیا تھا کہ سرحد کا معاملہ تمام حل طلب معاملات حل کرنے کے بعد آخر میں دیکھا جائے گا، حالانکہ کانگریس کا یہ مطالبہ تھا کہ سرحد میں ریفرنڈم کا اعلان تین جون سے پہلے کیا جائے گا۔
تاہم لارڈ ماؤنٹ بیٹن ابھی لندن میں تھے کہ عبدالغفار خان نے پٹھانوں کے ایک قومی صوبے کی بجائے ایک آزاد ریاست پختونستان کا مطالبہ شروع کر دیا۔ مسلم لیگ کا مؤقف تھا کہ عبدالغفار خان ہندو لیڈروں کے ساتھ مل کر یہ منصوبہ بنا رہے ہیں تاکہ اسے فقیر ایپی جیسے قبائلی رہنماؤں کی حمایت بھی مل سکے۔ اس لیے جیسے ہی لارڈ ماؤنٹ بیٹن دلی پہنچے تو کانگریس کے رہنماؤں نے مطالبہ پیش کر دیا کہ سرحد کے ریفرینڈم میں پاکستان اور انڈیا میں شمولیت کے ساتھ ساتھ ایک تیسری ترجیح آزادی کی بھی رکھی جائے۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تین جون کا منصوبہ اعلان کرنے سے پہلے نہرو سے ملاقات کی اور کہا کہ مسلم لیگ اسے کسی صورت قبول نہیں کرے گی اور اگر ایسا مان لیا جائے تو یہ پالیسی نہرو ہی کی درخواست پر اختیار کی گئی کہ کسی ریاست کو تیسرا آپشن نہیں دیا جائے گا کیونکہ وہ ہندوستان کو بلقان نہیں بنانا چاہتے۔ حالانکہ بنگال سمیت کئی ریاستیں یہ مطالبہ کر رہی تھیں۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے نہرو کو قائل کرنے کے لیے مزید دو کارڈ کھیلے: پہلا یہ کہ گورنر سرحد کو برخاست کر دیا جائے گا اور دوسرا یہ کہ وہ ہندوستان کی ریاستوں کے بھارت میں ادغام کے سلسلے میں مددگار ہوں گے۔ یہ دوسرا نکتہ اتنا متاثر کن تھا کہ نہرو نے وی پی مینن کو سردار پٹیل کے پا س بھیج کر اس کی اہمیت بتائی۔
نہرو نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو قائل کیا کہ ماؤنٹ بیٹن کو برطانوی کابینہ نے یہ اختیار ہی نہیں دیا کہ تیسرا آپشن شامل کیا جائے اور اگر آپ ان کی بات نہیں مانیں گے تو وہ مستعفی ہو جائیں گے جس کے بعد تاریخ کے نازک ترین لمحات میں ہم اپنا اہم حمایتی اور دوست کھو دیں گے۔ اس لیے ہمیں تقسیم ہند کے منصوبے کے اعلان سے پہلے ڈاکٹر خان صاحب کو منانا ہو گا۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن پانچ جون 1947 کو ڈاکٹر خان سے ملے اور کہا کہ وہ آزادی کے آپشن پر کوئی بھی مدد نہیں کر سکتے کیونکہ یہ کانگریس ہی کا مطالبہ تھا کہ ہندوستان کو بلقان کی ریاستوں کی طرح تقسیم نہ کیا جائے۔ جو صوبہ 30 لاکھ لوگوں پر مشتمل ہو اسے مرکز (پاکستان) کسی صورت نظرانداز نہیں کرے گا۔ آپ تنہا نہیں ہوں گے۔ ریفرنڈم میری اور فوج کی نگرانی میں ہو گا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ سرحد بھار ت میں شامل ہو تو ایسا ریفرنڈم کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر خان صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا اور فیصلہ کیا کہ وہ اپنے حمایتیوں سے کہیں گے کہ ریفرنڈم میں ان کی پارٹی کو ووٹ دینے کا مطلب پختونستان کو ووٹ دینے کے ہی مترادف ہو گا مگر یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی کیونکہ سرحدی گاندھی عبدالغفار خان نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ریفرنڈم کی شفافیت پر انہیں یقین نہیں تھا اور دوسرا انہیں خدشہ تھا کہ اس صورت میں پٹھانوں کا آپس میں فساد ہو جائے گا اور گاندھی کا پیرو کار ہونے کے ناطے وہ خون خرابے سے اجتناب چاہتے تھے۔ چنانچہ ریفرنڈم میں خان عبدالغفار خان کے ماننے والوں نے کوئی مداخلت نہیں کی۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے وعدے کے مطابق گورنر کو تبدیل کر دیا اور ان کی جگہ گورنر رابرٹ لاک ہرٹ کو گورنر تعینات کر دیا۔ کانگریس نے اپنے ووٹروں سے ریفرنڈم میں حصہ نہ لینے کی ہدایت کی۔ جب 20جولائی کو ریفرنڈم کے نتائج آئے تو ان کے مطابق رجسٹرڈ ووٹروں میں سے 289,244 نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا۔ یعنی پول کیے ووٹوں میں سے تقریباً 99 فیصد نے پاکستان میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا۔
دوسری جانب خان عبدالغفار کا کہنا تھا کہ تمام رجسٹرڈ ووٹوں میں یہ شرح 51.49 فیصد بنتی ہے اور اگر وہ بائیکاٹ نہ کرتے تو صوبہ سرحد انڈیا کا حصہ ہوتا۔ گورنر لاک ہرٹ نے بھی ماؤنٹ بیٹن کو ریفرنڈم سے پہلے جو رپورٹ بھیجی اس میں بھی لکھا کہ قبائلی رہنما بھی ریفرنڈم پر تقسیم کا شکار ہیں۔ خیبر ایجنسی کے آفریدی قبائل مسلم لیگ کے ساتھ ہیں جبکہ کئی قبائل ابھی بھی ڈاکٹر خان صاحب کے ساتھ ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز میں پاکستان سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر وقار شاہ نے اس موضوع پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالے لکھے ہیں۔ انہوں نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس نے اس لیے اس وقت کے صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کو تسلیم کر لیا تھا کیونکہ اگر وہ یہاں ڈاکٹر خان صاحب کا ساتھ دیتے تو انہیں مغربی بنگال سے ہاتھ دھونے پڑتے، کیونکہ اس وقت متحدہ بنگال کے وزیر اعلیٰ حسین شہید سہروردی، کانگریس بنگال کے سربراہ شنکر راؤ اور سبھاش چندر بوس کے بھائی سرد چندر بوس سمیت بنگال کے تینوں اہم رہنما بنگال کی تقسیم کے خلاف تھے۔ اس لیے جواہر لال نہرو نے مغربی بنگال اور کلکتہ لینے کے لیے سرحد میں ریفرنڈم کو تسلیم کر لیا حالانکہ انڈین ایکٹ 1935 جسے بعد میں انڈیپنڈنس ایکٹ کا نام دے دیا گیا اس کے تحت جب 1946 کے الیکشن ہوئے تو اس میں دو آپشن ہی تھے یعنی پاکستان یا ہندوستان۔
اس پر کانگریس نے 50 میں سے 31 نشستیں جیت لی تھیں جبکہ جمعیت علمائے ہند کے دو اراکین نے بھی کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ مسلم لیگ کے حصے میں 17 نشستیں آئی تھیں۔ اس کا مطلب ہے کہ سرحد کا فیصلہ ہندوستان کے حق میں تھا، لیکن بعد میں جب مسلم لیگ نے ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کیے اور سول نافرمانی کی تحریک شروع کی تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے سرحد میں آ کر کہا کہ اب زمینی حقائق مختلف ہو چکے ہیں اس لیے سرحد کے مستقبل کا فیصلہ صوبائی اسمبلی نہیں بلکہ ریفرنڈم سے ہو گا۔
باچا خان نے اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کر دیا کیونکہ یہ انڈیپنڈنس ایکٹ کی خلاف ورزی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ کانگریس ان کے ساتھ کھڑی ہو گی لیکن نہرو نے سرحد کی بجائے مغربی بنگال پر اکتفا کر لیا۔ پھر تاج برطانیہ بھی کانگریس کے دباؤ پر ہندوستان میں بالقانائزیشن کے خلاف تھا اس لیے سرحد میں مسلمانوں کی اکثریت بھی تھی، جغرافیائی طور پر بھی پاکستان کے ساتھ تھا اس لیے سرحد کو پاکستان کے ساتھ رکھا گیا۔