’ایک دن ہمارے گاؤں کے قریب ایک علاقے سے کچھ لوگ آئے اور انہوں نے اپنے گاؤں میں ایک مدرسے کے قیام کی درخواست کی۔ میں گیا اور وہاں لوگوں کو اکٹھا کرکے ان کے سامنے تعلیم کے فوائد بیان کیے۔ میں ابھی بات کر ہی رہا تھا کہ ایک مولوی آئے جن کو ’چترالی ملا‘ کہتے تھے۔‘
یہ واقعہ عدم تشدد کے پیروکار کے طور پر مشہور شخصیت خان عبدالغفار خان نے اپنی آپ بیتی ’میری زندگی اور جدوجہد‘ میں لکھا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’چترالی ملا نے کہا کہ جو تعلیم خان عبدالغفار خان نے شروع کی ہے میں اس کو نہیں مانتا۔ انہوں نے کہا کہ بھلا یہ کیسی تعلیم ہے جس کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ’ایک کتا بھونکتا ہے‘ اور ’دس از آ فگ‘ (یہ ایک انجیر ہے)۔‘
واضح رہے کہ چارسدہ میں بھی ایک چترال نامی چھوٹا سا قصبہ واقع ہے اور چترالی ملا کا تعلق وہیں سے تھا۔
’مولوی نے کہا کہ یا تو ان کی بات مانوں یا بندوق پر فیصلہ ہو جائے۔ میں نے کہا کہ آپ کو تو معلوم ہی ہے میں بندوقوں والا نہیں ہوں، البتہ جب آپ یہاں سے جائیں تو اتمانزو سے ہوتے ہوئے جائیں۔ وہاں میرے ایک چچا زاد ہیں وہ بھی آپ کی طرح بندوق کا شوق رکھتے ہیں۔ آپ کو اپنی اوقات کا پتہ لگ جائے گا۔‘
باچا خان اسی تسلسل میں لکھتے ہیں کہ مولویوں کی طرف سے ان کے سکولوں کی مخالفت کا یہ محض ایک بہانہ تھا۔ ہمارے مدرسوں میں مسجدوں کی نسبت دینی تعلیم پر بھی اچھی خاصی توجہ دی جاتی تھی۔ ان کو ڈر اسی بات کا تھا کہ اگر لوگ جاگ گئے تو ان کا منجن نہیں بکے گا۔ ان سے اچھے تو خان خوانین تھے جنہوں نے مخالفت تو دور کی بات، الٹا مدرسوں کے قیام میں ہماری بھرپور مدد کی۔‘
خان عبدالغفار خان کی تحریک کے سو سال
عبدالغفار خان کو عرف عام میں باچا خان کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ انہوں نے پشتونوں میں بیداری اور شعور پیدا کرنے کی خاطر 1921 میں جس سوشل تحریک ’انجمن اصلاح الافاغنہ‘ کا آغاز کیا تھا، جنوری 2021 میں اس کو سو سال پورے ہو گئے ہیں۔ اسی مہینے چونکہ وہ دنیا سے رخصت بھی ہوئے تھے، لہٰذا اس سال جنوری میں ان کی برسی اور ان کی سوشل تحریک کے حوالے سے وزیرستان سے چترال تک مختلف ادبی، سماجی و ثقافتی پروگرام ترتیب دیے گئے جن کا سلسلہ 31 جنوری تک جاری رہے گا۔
باچا خان نے کم عمری سے ہی پشتون معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور وہ معاشرتی اصلاحات شروع کیں، جس کی وجہ سے وہ فرنگیوں کے غیظ و غضب کا نشانہ بنے اور قید کی صعوبتیں برداشت کیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنی سوانح عمری ’میری زندگی اور جدوجہد‘ میں باچا خان مذکورہ سکول کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’میں مشن سکول میں اپنے ہیڈ ماسٹر وگرم اور ان کے بھائی ڈاکٹر وگرم سے بہت متاثر تھا، کیونکہ انہوں نے اپنی قوم کی خاطر بڑی قربانیاں دی تھیں۔ میرا بھی یہ خیال تھا کہ اپنی قوم اور وطن کی خدمت کر سکوں۔ ان دنوں پشتون معاشرے میں لاعلمی اور شعور کی کمی کی وجہ سے حالات بہت ابتر تھے۔ نہ تو حکومت کی جانب سے کوئی بندوبست تھا اور نہ قوم کی جانب سے تعلیم کے لیے کوئی انتظام۔ گاؤں میں جو پرائمری سکول تھے بھی ان کی مولوی لوگ مخالفت کر رہے تھے اور کسی کو اس میں تعلیم نہیں حاصل کرنے دے رہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ میں مدرسے (سکول) بنانا چاہ رہا تھا۔‘
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ خود خان عبدالغفار خان کے بعض مولویوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے اور ایسا بھی نہیں تھا کہ تمام مولوی مدرسوں یعنی سکول سسٹم کے مخالف تھے۔ ہاں البتہ پشتون معاشرے کے تاریخی حوالوں کے مطابق، مولویوں کی اکثریت مساجد میں صرف دینی تعلیم کے حق میں تھی۔
باچا خان اپنی سوانح عمری میں مدرسوں کا جب ذکر کرتے ہیں تو اس کا مطلب وہ سکول سسٹم تھا جہاں عصری اور دینی دونوں طرح کے علوم پڑھائے جاتے ہوں، لہذا وہ مزید لکھتے ہیں کہ 1910 میں انہوں نے مولوی عبدالعزیز صاحب کے ساتھ مل کر چارسدہ کے اتمانزو علاقے میں ایک مدرسہ بنایا اور باقی علاقوں میں مدرسے بنانے کی غرض سے دورے شروع کیے۔
باچا خان لکھتے ہیں کہ انہوں نے عوام کی توجہ علم کی جانب گامزن کی اور پشتونوں کے دلوں میں علم کی ضرورت کا احساس بیدار کیا۔
اصلاحی پروگرام
خان عبدالغفار خان کے حوالے سے دوست و دشمن اس حقیقت کے معترف ہیں کہ وہ پشتونوں کے ایک ایسے رہنما تھے، جنہوں نے معاشرتی اصلاحات کے نام پر ہر شعبے میں کام کیا۔ جن لوگوں کو ان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عوامی نیشنل پارٹی کے بانی تھے اور جن کی پالیسی فرنگیوں سے نفرت پھیلانا اور ان کی مخالفت کرنا تھی۔
لیکن سچ تو یہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی ان کی تحریک کے دہائیوں بعد سیاسی ضرورت کے تحت بنی تھی۔ جب کہ انہوں نے قوم اور وطن کی خاطر سماجی فلاح و بہبود کے کام بیسویں صدی کی آغاز میں اپنے لڑکپن سے ہی شروع کیے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے 1921 سے سوشل تحریک ’انجمن اصلاح الا فاغنہ‘ کا آغاز کیا اور اس کے نتیجے میں معاشرے کی فلاح کی خاطر جو اقدامات اٹھائے اور جتنا کام کیا اس وجہ سے آج ان کی سیاسی جماعت سے اختلاف رکھنے والے بھی باچا خان کو اپنا قومی رہنما مانتے ہیں۔ علاوہ ازیں، ان کا نظریہ انگریزوں سے نفرت کرنا نہیں بلکہ انگریزوں کی غلط پالیسیوں سے نفرت تھی۔
ان کی سوانح عمری میں انہوں نے انگریزوں کے ساتھ اپنی انسیت اور دوستی کے بعض قصے بھی لکھے ہیں جو مذکورہ بالا اس جملے کو تقویت بخشتے ہیں کہ وہ صرف ان کی غلط پالیسیوں کے مخالف تھے۔
باچا خان کے بیٹے خان عبدالولی خان اپنی کتاب ’باچا خان اور خدائی خدمتگاری‘ میں لکھتے ہیں کہ ان کے والد پختونوں میں پائی جانے والی غلط رسومات کے خلاف بھی بات کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: ’شادی بیاہ، ختنہ، یا پھر منگنی وغیرہ کے موقع پر بے تحاشا اخراجات سے عوام کو منع کرتے اور میت کے گھر کی خیراتوں اور دیگر غیر اسلامی روایات و رسومات کے خلاف بھی مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ وہ پختونوں کے طرز زندگی میں لباس، خوراک، اور رہن سہن ہر لحاظ سے سادگی لانے کے خواہاں تھے۔ سب سے کہتے تھے کہ جو تم کھاتے ہو وہی مہمانوں کو پیش کرو۔ کیونکہ ان کا مشاہدہ تھا کہ اکثر صاحب حیثیت لوگ محض اس وجہ سے کنگال ہوئے کہ وہ شادی، منگنی، اور دیگر غمی و خوشی کے مواقع کے علاوہ مہمان نوازی پر بےتحاشا رقم لٹاتے تھے۔ وہ لوگوں پر زور دیا کرتے تھے کہ تجارت کا پیشہ اپنائیں، کیونکہ پشتونوں کو تجارت ہندوؤں اور بنیوں کا کام لگتا تھا۔ انہوں نے پہلے اپنے دو بیٹوں کو اتمانزئی کے آزاد سکول میں داخل کروایا تو اس کے بعد دوسروں نے بھی ویسا کرنا شروع کیا۔‘
باچا خان اپنی آپ بیتی میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ پختونوں کے بارے میں ہندوؤں کے دلوں میں بہت سی غلط فہمیاں انگریزوں نے پیدا کر رکھی تھیں۔
’ایک دن میرے ایک ہندو دوست نے پوچھا: ’آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں، ناراض تو نہیں ہوں گے؟‘
میں نے جواب دیا: ’ہر گز نہیں۔‘
ہندو دوست نے کہا: ’میں نے سنا ہے کہ پٹھان انسانی خون پیتے ہیں؟‘
میں نے جواب دیا: ’ہاں پیتے ہیں۔‘
وہ چلایا: ’باپ رے باپ!‘ اس نے پھر پوچھا: ’کیوں پیتے ہیں؟‘
میں نے جواب دیا: ’اس لیے کہ یہ بہت لذیذ ہوتا ہے۔‘
وہ پھر چلایا: ’باپ رے باپ۔‘
میں نے اب ذرا سنجیدہ لہجے میں اس سے پوچھا کہ ’دوست، یہ بات تمہارے دماغ میں پیدا کیسے ہوئی؟ کیا تم کبھی پٹھانوں کے دیش گئے ہو، تم نے کبھی ان کو دیکھا ہے، کبھی ان سے واسطہ بھی پڑا ہے۔‘
اس نے جواب دیا: ’نہیں۔‘
میں نے اس سے پھر پوچھا: ’تم پھر کیسے اس نتیجے پر پہنچ گئے؟‘
اس کا جواب تھا کہ اس نے کسی کتاب میں پڑھا ہے۔
باچا خان کے بارے میں صوابی کے مانیری گاؤں سے تعلق رکھنے والے 70 سالہ نعیم خان لالا جتنی ڈاکومینٹڈ اور ’اَن ڈاکومینٹڈ‘ معلومات رکھتے ہیں شاید ہی کوئی اور اس قدر زبانی تفصیل رکھتا ہو۔
ان کے والد فردوس خان باچا خان کے قریبی دوست، سیاسی مشیر اور ان کی تحریک کے سب سے کم عمر خدمتگار تھے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں باچا خان کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے نعیم لالا نے بتایا کہ ان کے نزدیک باچا خان کی سوشل تحریک کے 100 سال نہیں بلکہ 102 سال ہو گئے ہیں۔
’باچا خان کو پہلی مرتبہ 1919 میں جیل ہوئی، جہاں وہ چھ مہینے قید رہے، لہٰذا ان کی تحریک کا باضابطہ اور باقاعدہ آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’لمبے قد، غیر معمولی لمبے ہاتھوں والے عبدالغفار خان جہاں جاتے ایک نمایاں شخصیت نظر آتے۔ عام عوام انہیں ایک بزرگ مانتے تھے۔ خصوصاً خواتین ان کی بہت قدر کیا کرتی تھیں ۔ وہ صوابی جب بھی آتے تو ہمارے حجرے ہی تشریف لایا کرتے تھے اور اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ جب بھی انہیں سیاسی مشاورت کی ضرورت ہوتی ہے وہ فردوس خان(میرے والد) کے پاس مانیری جاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ مشہور پشتو ٹپہ میں ’فخر افغان‘ یعنی پشتون قوم کے فخر کا لقب بھی عبد الغفار خان کے لیے استعمال ہوا ہے۔
کہ د زلمو نہ پورا نہ شوہ
فخر افغانہ جنیکئی بہ دے گٹی نہ
ترجمہ: اگر مردوں نے آپ کو مایوس کیا۔ فخر افغان! ہم خواتین کو آپ ساتھ پائیں گے۔
گھریلو پس منظر
خان عبد الغفار خان، چارسدہ کے گاؤں اتمانزئی میں ایک بزرگ بہرام خان کے ہاں 1890میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم پشاور کے مشن ہائی سکول سے حاصل کی تھی۔ ان کی اولاد میں غنی خان (نامور شاعر اور فلسفی)، خان عبدالولی خان (سیاستدان)، خان عبدالعلی خان (ایجوکیشنسٹ) مہر تاج خان، سردارو خان شامل تھے۔
انہوں نے اپنی زندگی کے 37سال جیل میں گزارے۔