برطانیہ میں چار جولائی 2024 کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں جن میں توقع ہے کہ لیبر پارٹی آسانی سے فتح حاصل کر لے گی اور اس کے سربراہ کیئر سٹارمر ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ میں موجودہ وزیرِ اعظم رشی سونک کی جگہ لے لیں گے۔
نہ صرف رائے عامہ کے حالیہ جائزوں میں لیبر پارٹی کہیں آگے ہے، بلکہ اس کی یہ برتری پچھلے ڈیڑھ سال سے قائم ہے۔ اس سے قبل پچھلے چار انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی مسلسل جیتتی رہی ہے۔ آخری بار لیبر پارٹی نے 2007 میں ٹونی بلیئر کی قیادت میں الیکشن جیتا تھا۔
لیکن اب 61 سالہ کیئر سٹارمر نے لیبر پارٹی کو کنزرویٹیو پارٹی کے مقابلے پر ایک قابل اعتماد متبادل کے طور پر پیش کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔
دی انڈپینڈنٹ پر شائع ہونے والے رائے عامہ کے تازہ ترین ہفتہ وار جائزے کے مطابق لیبر کو 42 فیصد کے ساتھ واضح برتری حاصل ہے، جب کہ کنزرویٹوز کی حمایت صرف 19 فیصد ہے۔
یہ بات غیر معمولی ہے کہ 17 سال کے عرصے کے بعد لیبر پارٹی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے قریب پہنچ گئی ہے، اس لیے سٹارمر کی قیادت کا موازنہ 1990 کی دہائی میں ٹونی بلیئر سے کیا جا رہا ہے۔ دونوں نے اپنے پارٹی کو سیاسی گورکھ دھندے سے نکال کر دوبارہ زندہ کیا تاکہ اسے کاروبار دوست بنایا جائے، اور ٹیکس بڑھانے یا سوشلسٹ طرز پر دولت کی تقسیم کی بجائے اقتصادی مواقع پیدا کرنے پر زیادہ توجہ دی جائے۔
لیبر پارٹی 1900 میں قائم ہوئی تھی اور اس کی سیاسی پوزیشن سینٹر لیفٹ ہے۔ حالیہ انتخابات میں اس کے منشور کے بنیادی نکات میں ٹیکس بڑھانے کی بجائے دولت کی پیداوار اور صنعت کاری کی نئی پالیسیاں وضع کرنا ہے۔
اس سے قبل لیبر پارٹی 1997 تا 2010 ٹونی بلیئر کی قیادت میں برطانیہ پر حکومت کر چکی ہے۔ لیکن اس کے بعد اسے مسلسل شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس وقت پارلیمان میں اس کی نشستوں کی تعداد 205 ہے۔
دوسری جانب کنزرویٹو پارٹی اپنی دو سو سالہ تاریخ میں 160 برس سے زیادہ عرصے تک اقتدار میں رہی ہے اور اسے دنیا کی کامیاب ترین سیاسی جماعتوں میں سے ایک قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس وقت اس کے پاس 344 نشستیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 1997 کی نیو لیبر اور آج کی لیبر پارٹی کے درمیان گہرا فرق ہے۔ ٹونی بلیئر نے عالمی معیشت کے داعی کے طور پر مہم چلائی، جو یقین رکھتے تھے کہ حکومت کو کاروباری معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
اس کے مقابلے پر سٹارمر کہیں زیادہ فعال نقطہ نظر رکھتے ہیں، اور یہ دلیل دیتے ہیں کہ مزدور طبقے کے لوگوں کے لیے روزگار کی سلامتی کو یقینی بنانے میں ریاست کا مضبوط کردار اہم ہے۔
لیبر کا منصوبہ ہے کہ ’گریٹ برٹش انرجی‘ کے نام سے ایک نئی سرکاری کمپنی بنائی جائے تاکہ ماحول دوست توانائی میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔
لیبر کا سب سے اہم ایجنڈا سکیورٹی ہے۔ وہ معیشت سے لے کر امیگریشن اور قومی سلامتی تک ہر معاملے میں سکیورٹی فراہم کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں۔
یہ وعدہ کیئر سٹارمر کے ایک ایسی دنیا کے نظریے کا عکاسی ہے جو 2009 کے مالی بحران کے بعد سے اقتصادی طور پر زیادہ غیر مستحکم ہو چکی ہے اور یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے جغرافیائی سیاسی طور پر زیادہ خطرناک چیلنجوں کا سامنا ہے۔
سٹارمر نے گذشتہ ہفتے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنے اس وژن کا اعادہ کیا: ’کسی بھی اچھی حکومت کی بنیاد معاشی سلامتی، سرحدی سلامتی، اور قومی سلامتی ہے۔ یہ وہ ستون ہیں جن پر ہمارا منشور اور ہمارے پہلے اقدامات کی تعمیر ہو گی۔‘
امریکی سیاست سے موازنہ
یونیورسٹی آف ناٹنگھم میں سیاسی تاریخ کے پروفیسر سٹیون فیلڈنگ نے نیو یارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سٹارمر اور بلیئر کے درمیان اسی طرح کا فرق ہے جو سابق امریکی صدر کلنٹن اور موجودہ صدر بائیڈن میں ہے۔
کلنٹن آزادانہ تجارت اور عالمی معیشت کا پرچار کرتے تھے جب کہ بائیڈن امریکہ کے وسیع انفراسٹرکچر میں بڑے پیمانے پر ٹریڈ ڈیلز سے پہلو بچایا ہے۔
انہوں نے کہا، ’بلیئر عالمگیر لبرل تھے۔ وہ آزاد تجارت، معاشی ترقی، متحرک ہونا بہتر، خلل برا، جیسے پالیسیاں چاہتے تھے۔ سٹارمر کا نقطۂ نظر بہت مختلف ہے۔ وہ سمجھتے ہیں تبدیلی کو کنٹرول کیا جائے۔‘
سٹارمر اور بائیڈن دونوں کو ایک ایسی معیشت ملی ہے جو ابھی تک پورے طریقے سے کرونا کی وبا کے اثر سے نکل نہیں پائی۔ اس معاملے میں برطانیہ امریکہ سے پیچھے ہے اور اس کا محکمۂ صحت این ایچ ایس پچھلے 14 برس کے دوران کنزرویٹیو حکومتوں کی مالی سختیوں کے باعث بری حالت میں ہے۔
آنے والی لیبر حکومت سخت مالی پابندیوں کے تحت کام کرے گی۔ لیکن سوال اٹھتا ہے کہ کیا سٹارمر این ایچ ایس اور دیگر عوامی سہولیات میں وعدے کے مطابق سرمایہ کاری کی ادائیگی کے لیے ٹیکس بڑھائیں گے یا نہیں۔
دوسری جانب انہوں نے ’محنت کش لوگوں‘ پر ٹیکس نہ بڑھانے کا وعدہ کیا ہے۔
لیکن لیبر سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ تیل اور گیس کمپنیوں، پرائیویٹ ایکویٹی فرموں اور برطانیہ میں رہنے والے امیر غیر ملکیوں پر ٹیکس بڑھائے گی۔ اس کے علاوہ توقع ہے کہ وہ نجی سکولوں کے لیے ٹیکس کی چھوٹ بھی ختم کرے گی، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس سے ساڑھے چھ ہزار سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی تنخواہیں ادا کی جائیں گی۔
لیبر کی برتری کی وجوہات
عوامی سرویز میں لیبر پارٹی کی برتری کی وجوہات کا خلاصہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے:
1. عوامی جذبات اور تبدیلی کی مانگ
کنزرویٹو پارٹی پچھلے 14 سال سے برسرِ اقتدار ہے۔ اس دوران لوگ ایک ہی جماعت کو اقتدار میں دیکھ دیکھ کر نالاں ہو جاتے ہیں اور تبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ موجودہ حالات میں بھی ایسا ہی نظر آ رہا ہے کہ برطانوی عوام تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ اسی بات کو کیش کرتے ہوئے سٹارمر نے اپنا انتخابی سلوگن ہی ’تبدیلی‘ رکھا ہے۔
2. لیبر کی قیادت
موثر قیادت اور مہم کی حکمت عملی انتخابات میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لیبر پارٹی کی قیادت میں ایک سرگرم، فعال اور قابل اعتماد رہنما کا ہونا ضروری ہے۔ ٹونی بلیئر نے 1997 میں ایک جدید اور متحرک رہنما کی تصویر پیش کی تھی جس سے انہیں ووٹ حاصل ہوئے۔ موجودہ انتخابات میں کیئر سٹارمر نے بھی ایک متحرک رہنما کے طور پر اپنا تصور پیش کیا ہے۔
3. عوام دوست پالیسیاں
لیبر پارٹی نے صحت، تعلیم، سماجی بہبود، اور محنت کش طبقے کے حقوق پر زور دیا ہے اور بظاہر ووٹروں کو یہ چیز پسند آ رہی ہے۔
لیبر نے اپنے منشور میں کئی ایسی پالیسیوں کا وعدہ کیا ہے جن کا تعلق عام لوگوں سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر برطانوی محکمۂ صحت این ایچ ایس کو بہتر بنانے، تعلیمی معیار کو بلند کرنے، اور غربت کے خاتمے جیسے مسائل پر کام کریں گے۔ یہ ساری پالیسیاں ایسی ہیں جو ووٹروں کی توجہ حاصل کر سکتی ہیں۔ لیبر کی پالیسیاں ووٹرز کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں۔
یاد رہے کہ یہ لیبر پارٹی ہی تھی جس نے 1945 کے بعد این ایچ ایس قائم کی تھی، جو ایک بڑی کامیابی تھی۔
4. اقتصادی حالات
اقتصادی بحران یا اقتصادی بدحالی کے دوران ووٹرز لیبر پارٹی کی طرف رجوع کر سکتے ہیں اگر انہیں یقین ہو کہ لیبر کی پالیسیاں ان کے مسائل کو حل کریں گی۔ 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد اقتصادی اصلاحات پر زور دینا لیبر پارٹی کی مہم کا حصہ رہا ہے۔
5 محتاط رویہ
کیئر سٹارمر کسی بھی متنازع موضوع کو چھیڑنے سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔ وہ بریکزٹ کے تلخ بحث کو دوبارہ کھولنے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہے، حالانکہ ماضی میں وہ کہہ چکے ہیں کہ اس معاملے پر دوبارہ ریفرینڈم ہونا چاہیے۔
ناتجربہ کاری
لیبر پارٹی پہلی بار 1924 میں اقتدار میں آئی تھی جب ریمزی میکڈونلڈ وزیرِ اعظم بنے تھے۔
ان میں اور لیبر کے موجودہ رہنما کیئر سٹارمر میں ایک چیز مشترک ہے، اور وہ ہے ناتجربہ کاری۔ 1924 میں پہلی بار اقتدار میں آنے کے بعد لیبر پارٹی ظاہر ہے حکومت چلانے کے لحاظ سے ناتجربہ کار تھی، لیکن یہی بات 2024 میں بھی نظر آ رہی ہے۔
14 سال اقتدار سے باہر رہنے کے بعد اس کی شیڈو کابینہ کے بیشتر ارکان کے پاس کبھی اصل وزارت نہیں رہی۔
کوئی بھی برطانوی حکومت 125 وزرا کو تعینات کر سکتی ہے، جن میں سے 95 کا پارلیمنٹیرین ہونا ضروری ہے۔ لندن کی کوینز میری یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے محقق ٹونی میک نلی کے مطابق لیبر پارٹی کے اتنی تعداد میں تجربہ کار عہدے دار ڈھونڈنا مشکل ہو گا۔
انہوں نے دی کنورسیشن پر ایک تحریر میں لکھا: ’نئی حکومت کو فوری طور پر اپنے نئے کردار کو قبول کرنے کی ضرورت ہو گی اور وہ بڑی اکثریت، وزرا اور ارکان پارلیمنٹ دونوں کی ناتجربہ کار بنیاد اور وراثت اور وراثت کے ہوتے ہوئے ایسا کرے گی جو 1997 کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکل دکھائی دیتی ہے۔
’اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ زیادہ مسئلہ نہ بنے، صورت حال کو یقینی طور پر محتاط سیاسی اور پارٹی مینیجمنٹ کی ضرورت ہے، لیکن یہ ناممکن نہیں ہے۔‘