رشی سونک کو گذشتہ سال جب شاہ چارلس کی جانب سے حکومت بنانے کی دعوت دی گئی تھی تو انہیں سامنے پڑے سخت چیلنجز کے بارے میں کوئی مغالطہ نہیں تھا۔ ان کا پہلا چیلنج ایک ماہ قبل مختصر مدت تک اس عہدے پر رہنے والی لز ٹرس اور ان کے وزیر خزانہ کواسی کوارٹینگ کی ’معاشی پالیسی‘ کے بعد جنم لینی والی تباہی کے بعد سرکاری مالیاتی نظام میں نظم و ضبط بحال کرنا تھا۔
لز ٹرس اور ان کے ایمرجنسی چانسلر جیریمی ہنٹ نے کچھ انتہائی نقصان دہ اقدامات کو واپس لے لیا تھا لیکن موجودہ وزیر خزانہ جیریمی ہنٹ اور رشی سونک کو اس وقت صورت حال کو مستحکم کرنے کے لیے موسم خزاں کے نئے بجٹ کے لیے تیاری کرنی تھی۔
رشی سونک کی پہلے سال کی کامیابیوں اور غلطیوں کا اندازہ لگانے کی کسی بھی کوشش کا آغاز مارکیٹس میں استحکام لانے کی ان کی کامیابی سے ہونا چاہیے۔ لیبر پارٹی نے اس معاشی افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ پیغام بیچا کہ لز ٹروس نے ’معیشت کو تباہ‘ کرکے ملک کو دیرپا نقصان پہنچایا ہے لیکن سود کی شرح ویسے بھی پوری دنیا میں بڑھ رہی تھی اور ہنٹ اور سونک کی ٹیم نے اس صورت حال کے نتائج کو محدود کرنے کے لیے اچھا کام کیا۔
رشی سونک نے اور کیا بہتر کام کیے؟
بطور برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک کے یورپی یونین کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کیا خاص طور پر یورپی کمیشن کے صدر ارسلا وان ڈیر لیین کے ساتھ اس کی دوستی نے انہیں تین کامیابیاں حاصل کرنے میں مدد کی۔
وہ شمالی آئرلینڈ کے پروٹوکول کو دوبارہ تحریر کرانے میں کامیاب رہے، جس کے بارے میں یورپی بلاک کا اصرار تھا کہ اسے دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا، تاکہ بورس جانسن اور لارڈ فراسٹ کے مذاکرات سے رہ جانے والے بہت سے مسائل کو حل کیا جا سکے۔
ابھی تک رشی سونک نے ’ونڈسر فریم ورک‘ کو جس طرح برانڈ کیا اس کا نتیجہ شمالی آئرلینڈ کی سپر مارکیٹوں میں کچھ مصنوعات پر ’ناٹ فار ای یو‘ کے لیبل کا موجود ہونا ہے لیکن وہ بیلفاسٹ میں ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی کو دوبارہ علاقائی حکومت میں شامل کرنے میں ناکام رہے۔
اس کے بعد سونک نے فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تاکہ فرانسیسی ساحلوں کی نگرانی کو تیز کیا جائے تاکہ انگلش چینل کو عبور کرنے والی چھوٹی کشتیوں کی تعداد کو کم کیا جا سکے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اس معاہدے سے کتنا فرق پڑا ہے تاہم یہ تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں تھوڑی کم ہے۔
آخر کار برطانیہ یورپی یونین کے سائنسی تعاون کے پروگران ’ہورائزن‘ میں دوبارہ شامل ہوا ہے جو بلاشبہ دونوں فریقوں کے مفاد میں ہے۔
کون سے کام اچھے نہیں ہوئے؟
جنوری میں ایک ناسمجھی والے سیاسی عمل میں رشی سونک نے آئندہ سال کے لیے اپنی پانچ ترجیحات طے کیں جو محض چند ناکامیوں کی طرف توجہ مبذول کرانے میں ہی کامیاب ہوئیں۔ یہ 12 مہینے ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں لیکن ان کی جانب سے کیے گئے پانچ وعدے ان کے لیے مصیبت کا باعث بننے والے ہیں۔ ان میں مہنگائی کو نصف کرنے کا ان کا وعدہ، اگر اسے پورا بھی کر دیا جاتا ہے، تو بھی یہ محض شماریاتی اعدادوشمار ہوں گے (یعنی دسمبر میں 5.3 فیصد افراط زر) اور یہ باور کراتا ہے کہ افراط زر کی شرح توقع سے کتنی زیادہ ہے۔
ترقی کی ریل کی رفتار مدھم پڑ رہی ہے۔ قرضہ اب بھی بڑھ رہا ہے۔ نیشنل ہیلتھ سروس میں ویٹنگ لسٹس بدستور بحران کی جانب گامزن ہے۔ ڈاکٹروں کی ہڑتال سے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں لیکن وزیر اعظم کا ان پر الزام لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور (پناہ گزینوں) کی کشتیوں کو بھی نہیں روکا جا سکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس دوران دیگر عوامی خدمات بھی مخدوش حالت میں ہیں۔ سوشل کیئر کا نظام غیر مستحکم ہے۔ فوجداری انصاف کا نظام عدالتی بوجھ اور جیلوں میں بھیڑ کی وجہ سے دب گیا ہے۔ ہڑتالوں نے ریلوے نظام تباہ کر دیا ہے۔
روشن مستقبل کے لیے طویل المدتی فیصلوں کا کیا ہو گا؟
رشی سونک نے رواں ماہ اپنی پارٹی کانفرنس میں اس موضوع کو یہ دعویٰ کرتے ہوئے تبدیل کرنے کی کوشش کی کہ انہوں نے طویل مدت کے لیے مشکل فیصلے لیے ہیں جن میں ان کے پیشرو ناکام رہے۔ کاربن کے اخراج کے حوالے سے نیٹ زیرو اہداف کو دوبارہ ترتیب دینا اور ہائی سپیڈ ٹرین کے منصوبے ایس ایچ ٹو کے اگلے مرحلے کو ختم کرنا سمجھداری یا پھر عزائم کی کمی کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ کیا سوچتے ہیں۔ تاہم جب لوگ ووٹ ڈالنے آتے ہیں تو ان دونوں میں سے زیادہ فرق کرنے کا امکان نہیں رہتا۔
اور تمباکو نوشی پر پابندی اور اے لیول میں کچھ تبدیلیاں ہیں جنہیں نافذ ہونے میں برسوں لگیں گے۔
رائے عامہ کے جائزے کیا کہتے ہیں؟
رشی سونک کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد رائے عامہ کے جائزوں میں کنزرویٹو پارٹی، لیبر سے 26 پوائنٹ پیچھے تھی۔ یہ فرق اب 18 پوائنٹس کے قرئب پہنچ چکا ہے۔
لیکن رشی سونک کی ذاتی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ انہوں نے لیبر پارٹی یا اپوزیشن لیڈر سر کیئر سٹارمر کے برعکس معقول طور پر اچھی شروعات کی تاہم وہ کنزرویٹو پارٹی میں باقی لوگوں سے کچھ آگے ہیں۔
برطانوی اعداد وشمار اکھٹا کرنے والی تنظیم ’یو گوؤ‘ (YouGov) کے مطابق ایک سال پہلے 25 فیصد شہریوں کو توقع تھی کہ وہ ایک اچھے یا عظیم وزیر اعظم بننے کے اہل ہیں لیکن اب ایسا سوچنے والوں کی تعداد صرف 11 فیصد رہ گئی ہے۔ انہیں خراب یا بھیانک قرار دینے والوں کی تعداد 29 فیصد سے بڑھ کر 50 فیصد ہو گئی ہے۔
پھر بھی اگر انتخابات اگلے سال 24 اکتوبر یا اس کے بعد ہوتے ہیں تو وہ آج اپنی وزارت عظمیٰ کی نصف مدت گزار چکے ہیں اس کے باوجود اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے یہ کافی وقت ہے۔
© The Independent