کیئر سٹارمر کا مزدور گھرانے سے لیبر پارٹی کے سربراہ تک سیاسی سفر

رشی سونک کی جگہ برطانیہ کے اگلے وزیرِ اعظم بننے کے مضبوط امیدوار کیئر سٹارمر کی زندگی کے دس دلچسپ حقائق جنہوں نے ان کی شخصیت کی تعمیر کی۔

13 جون 2024 کو برطانیہ کی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کے رہنما کیئر سٹارمر مانچسٹر میں لیبر پارٹی کے انتخابی منشور کے اجرا کے موقع پر سٹیج پر تقریر کر رہے ہیں (اے ایف پی)

قومی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ برطانیہ میں چار جولائی 2024 کو ہونے والے انتخابات میں لیبر پارٹی فتح حاصل کر لے گی جس کے بعد پارٹی کے سربراہ کیئر سٹارمر رشی سونک کی جگہ برطانیہ کے اگلے وزیرِ اعظم بن جائیں گے۔

دی انڈپینڈنٹ پر شائع ہونے والے ووٹروں کے ایک سروے کے مطابق 42 فیصد لوگ لیبر پارٹی کی حمایت کر رہے ہیں جب کہ حکمران کنزرویٹو پارٹی کے حق میں صرف 19 فیصد لوگ ہیں۔ اس کے علاوہ 17 فیصد لوگ ریفارم پارٹی، 12 فیصد لب ڈیم اور پانچ فیصد گرینز کے حق میں ہیں۔ 

61 سالہ رہنما کیئر سٹارمر دو ستمبر 1962 کو جنوبی لندن کے شہر سدک (Southwark) میں پیدا ہوئے۔ اس کے بعد وہ سرے کاؤنٹی کے علاقے آکس ٹیڈ میں واقع ایک عام سے گھر میں پلے بڑھے۔ ان کے والد مختلف قسم کے آلات تیار کرتے تھے جب کہ ان کی والدہ نرس تھیں۔

انہوں نے ریگیٹ گرامر سکول، یونیورسٹی آف لیڈز اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔

وہ اپنے بارے میں اکثر کہتے ہیں کہ ان کا تعلق کسی امیر خاندان کے ساتھ نہیں ہے۔ ان کی والدہ قوت مدافعت کے نظام کی بیماری میں مبتلا ہو کر معذور ہو گئی تھیں۔ ریگیٹ گرام سکول میں ان کے 16 سال کی عمر کو پہنچنے تک ان کی سکول فیس مقامی کونسل ادا کرتی رہی۔ وہ یونیورسٹی تک پہنچنے والے اپنے خاندان کے پہلے فرد تھے۔

انہوں نے لیڈز اور آکسفورڈ میں قانون کی تعلیم حاصل کی اور 1987 میں بیرسٹر بن گئے۔ ان کی دلچسپی کا خصوصی شعبہ انسانی حقوق کے قوانین رہے۔ انہوں نے کام کے سلسلے میں کريبيئن اور افریقی ممالک کا دورہ کیا اور ایسے قیدیوں کی وکالت کی جنہیں سزائے موت کا سامنا تھا۔

2008 میں انہیں پبلک پراسیکیوشن کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا تھا جو انگلینڈ اور ویلز میں فوجداری مقدمات کی نگرانی کرنے والا اعلیٰ عہدہ ہے۔

اقتدار تک کا سفر

وہ 2015 میں شمالی لندن کے علاقوں ہالبرن اور سینٹ پینکراس سے برطانوی پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے۔ انہوں نے سابق لیبر لیڈر جیریمی کوربن کی اگلے بینچوں پر بیٹھنے والی ٹیم میں شیڈو بریگزٹ وزیر کی حیثیت سے کام کیا۔ اس دوران انہوں نے تجویز دی کہ یورپی یونین سے نکلنے کے معاملے پر دوسری بار ریفرنڈم کروانے پر غور کیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2019 کے عام انتخابات میں لیبر پارٹی کی بری طرح شکست کے بعد کیئر پارٹی کی سربراہی کی دوڑ میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے اپریل 2020 میں اس عہدے کے لیے کامیابی حاصل کی اور جیریمی کوربن کی جگہ پارٹی کے سربراہ بن گئے۔ جیتنے کے بعد اپنی تقریر میں انہوں نے لیبر پارٹی کو ایک نئے دور میں اعتماد اور امید کے ساتھ آگے بڑھانے کا عہد کیا۔

نیوز ڈاٹ سکائی ڈاٹ کام کے مطابق سٹارمر نے لیبر پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں لانا زندگی کا مشن بنا لیا۔ یہ ایسا منصوبہ تھا جسے تعریف اور تنقید دونوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جب وزیر اعظم رشی سونک نے چار جولائی کو انتخابات کا اعلان کیا تو اس پر کیئر نے کہا کہ ’یہی وہ لمحہ ہے جس کی ملک کو ضرورت ہے۔‘

گذشتہ ہفتے انہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ چار سال میں ہم نے لیبر پارٹی کو تبدیل کیا اور اسے ایک بار پھر محنت کش عوام کی خدمت کرنے والی جماعت بنا دیا ہے۔

رائے عامہ کے جائزے اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ قوی امکان ہے کہ وہ عام انتخابات کے بعد وہ برطانیہ کے اگلے وزیر اعظم ہوں گے۔

انہوں نے محتاط نقطۂ نظر اپنا رکھا ہے تاکہ ایسی غلطیوں سے بچا جا سکے جو ان کی کامیابی کے امکانات کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔

کامیابی کے لیے سٹارمر کی حکمت عملی

درحقیقت سٹارمر چھ ہفتوں کی انتخابی مہم سے بہت پہلے سے ہی اس نازک صورت حال میں احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ وہ 18 ماہ سے زیادہ عرصے سے انتخابات میں اپنی پارٹی کی واضح برتری کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ لیبر پارٹی کو بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی اعتدال پسند جماعت بنانے میں مصروف ہیں جس پر لوگ اعتماد کا اظہار کریں۔ اس کے مقابلے میں کنزرویٹو پارٹی تقسیم کا شکار ہے اور بعض معاملات پر انتہائی سخت مؤقف اختیار کرتی ہے۔

سٹارمر نے اپنی قیادت میں، چار سال کی عرصے کے دوران اپنے پیشرو جیریمی کوربن اور ان کے حامیوں کو بااثر عہدوں سے ہٹا دیا اور لیبر پارٹی کے معاشی اور قومی سلامتی کے بارے میں نظریات زیادہ اعتدال پسند بنایا۔

یونیورسٹی آف ناٹنگھم میں سیاسی تاریخ کے سابق پروفیسر سٹیون فیلڈنگ کا کہنا ہے کہ ’جب وہ 2020 میں پہلی بار پارٹی سربراہ بنے تو انہوں نے ان تمام منفی پہلوؤں کو دور کرنے کو اپنا مشن بنایا جنہوں 2019 میں لوگوں کو لیبر پارٹی کو ووٹ دینے سے روکا۔ اس کے نتیجے میں ووٹروں کی تعداد بڑھانے میں کامیاب رہے۔‘

کیئر سٹارمر کی زندگی کے دس دلچسپ پہلو جو ان کے کردار پر روشنی ڈالتے ہیں

  1. مزدور خاندان سے تعلق: سٹارمر ایک مزدور طبقے کے گھرانے میں پلے بڑھے۔ ان کے والد ایک ٹول میکر تھے اور والدہ ایک نرس تھیں۔ وہ اپنے خاندان میں پہلے شخص تھے جو یونیورسٹی گئے۔ یہ ان کی محنت اور عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
  2. انسانی حقوق کے لیے جدوجہد: سٹارمر نے اپنے قانونی کیریئر کا ایک بڑا حصہ انسانی حقوق کے مقدموں پر کام کرتے ہوئے گزارا۔ انہوں نے موت کی سزا کے خلاف کیس لڑے اور ویسٹ انڈیز کے ممالک میں اس کے خاتمے کے لیے کام کیا۔
  3. مفت قانونی مشورہ: وکیل کے طور پر سٹارمر غریب لوگوں کو مفت قانونی مشورہ دیتے رہتے ہیں۔
  4. والدہ کی بیماری کا سیاست پر اثر: سٹارمر نے اپنی والدہ کی طویل عرصے تک دیکھ بھال کی، جو سٹلز سنڈروم (Still’s Syndrome) سے متاثر تھیں۔ ان کی والدہ کی شدید بیماری کے باعث ان کے اعضا کاٹنے پڑ گئے تھے مگر انہوں نے سختی سے پرائیویٹ علاج کروانے سے انکار کیا۔ سٹارمر کی سیاست پر اس کا گہرا اثر ہوا اور انہوں نے کہا ہے کہ وہ بھی کبھی پرائیویٹ علاج نہیں کروائیں گے، نہ ہی بچوں کو پرائیویٹ تعلیم دلوائیں گے۔
  5. کرونا کی وبا کے دوران رضاکارانہ کام: کووڈ 19 کی وبا کے دوران سٹارمر نے اپنے مقامی فوڈ بینک میں رضاکارانہ طور پر کام کیا۔
  6. فٹ بال کے مداح: سٹارمر کو ایک سادہ زندگی گزارنے والے شخص کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ اکثر اپنے آبائی علاقے میں فٹ بال کھیلتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں۔ وہ آرسنل فٹ بال کلب کے بڑے مداح ہیں اور اکثر اس کے میچ دیکھنے جاتے ہیں۔
  7. موسیقی کا شوق: سٹارمر کو گٹار بجانے کا شوق ہے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ اپنے خالی وقت میں گٹار بجانا سیکھ رہے ہیں۔
  8. ماحولیاتی تحفظ: سٹارمر نے ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد کو اپنی سیاسی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ انہوں نے عہد کیا ہے کہ اگر وہ وزیر اعظم بنے تو برطانیہ کو سبز توانائی کا مرکز بنائیں گے۔
  9. سوشلسٹ خیالات کے حامل: سٹارمر نے نوعمری کے زمانے میں ایسٹ سرے ینگ سوشلسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ کالج میں انہوں نے ’سوشلسٹ متبادل‘ کے نام سے ایک پمفلٹ اخبار قائم کرنے میں مدد کی، جس کا مقصد معیشت کو سوشلسٹ اصولوں پر استوار کرنا تھا۔ بائیں بازو کی لیبر پارٹی کے گرینڈ ٹونی بین کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ لیبر کو ’مظلوموں کی متحدہ جماعت‘ بننا چاہیے۔
  10. بریکزٹ کے مخالف: سٹارمر نے بریکزٹ (برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی) کی مخالفت کی تھی اور وہ اس کے حق میں ہونے والے ریفرینڈم کے بعد ایک اور ریفرنڈم کروانا چاہتے تھے۔ مگر اب ان کے خیالات بدل گئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ آنے والی نسلوں کا کام ہے کہ وہ یورپ کے ساتھ کیسے تعلقات رکھنا چاہتی ہیں۔
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ