سکھر کے رونق لعل 40 سال سے صرافہ بازار کے کچرے سے سونے کے ذرات تلاش کرنے کا کام کر رہے ہیں۔
صرافہ بازار میں دکان دار اپنی دکانوں کی صفائی کے دوران دھول، مٹی اور کچرہ باہر پھنک دیتے ہیں جسے وہ ہر روز علی الصبح جمع کرتے ہیں۔
رونق نے بتایا کہ ان کے والد یہی کام کرتے تھے اور اب وہ اپنے گھر کی کفالت کے لیے اس کام کو اپنائے ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس کام کے لیے خاصا پانی درکار ہوتا ہے، جس کے لیے وہ مجبوراً نالیوں کا گندہ پانی نکالتے ہیں اور مٹی کو چھان کر اس میں سے سونے کے چند ملی گرام ذرات جمع کرتے ہیں۔
50 سالہ رونق کے مطابق یہ انتہائی مشکل کام ہے۔ ’پہلے جب سونے کے نرخ کم تھے تو ہمارا روزگار اچھا خاصا تھا کیونکہ جب 50 ہزار روپے تولہ سونا تھا تو دکان دار سو، دو سو ملی گرام سونے کو اہمیت نہیں دیتے تھے اور ہمارے لیے چھوڑ دیتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’مگر جب سے سونے کے نرخ بڑھے ہیں، دکان داروں نے بہت زیادہ احتیاط کرنا شروع کردی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ آج کل بمشکل تین چار سو ملی گرام جمع کر پاتے ہیں، جس کے انہیں پانچ سے چھ سو روپے مل جاتے ہیں۔
رونق کے مطابق انہوں نے اپنے تین بچوں کو اچھی پڑھائی کے لیے نجی سکول میں داخل کروایا تھا لیکن مہنگائی کے سبب وہ ایک سال سے فیس نہیں دے پائے نتیجتاً سکول نے بچوں کو بے دخل کر دیا۔
سکھر صرافہ بازار ایسوسی ایشن کے رہنما جاوید میمن نے بتایا کہ ’سونا مہنگا ہونے کی وجہ سے ان کا کاروبار متاثر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اب مارکیٹ میں زیادہ فینسی اور بنا بنایا کام آ گیا ہے جسے گاہک زیادہ پسند کرتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ دکانوں میں بنوائی یا مرمت کا کام کم ہونے سے ویسٹیج کم ہو چکا ہے، جس کا اثر سونے کے ذرات جمع کرنے والے مزدوروں پر بھی پڑا ہے۔
(ایڈیٹنگ: بلال مظہر)