نوشہرہ کے علاقے شیدو میں اپر دیر کے رہائشی پرویز خان اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ درانتی اور بیلچے کی مدد سے دریائے کابل کے کنارے پڑے ملبے میں سونا تلاش کرتے ہیں اور یہ عمل صبح سے شام تک جاری رہتا ہے۔
50 سالہ پرویز خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ پچھلے چھ سال سے اباسین (دریائے کابل) میں سونا تلاش کرنے کا کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’ہم سات ساتھی صبح آٹھ بجے دریا کے کنارے آ جاتے ہیں اور شام چار بجے تک کام کرتے ہیں۔‘
پرویز خان نے بتایا کہ ’سردیوں میں دریا کے پانی کی سطح کم ہو جانے پر ضلع نوشہرہ اور صوابی کے مختلف علاقوں کے تین چار سو لوگ روزانہ دریا کے کنارے سونا تلاش کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’دریا کے کنارے پڑی ریت اور بجری کو مقامی سطح پر تیار کیے گئے قالین کے اوپر پانی سے صاف کرتے ہیں اور صبح سے لے کر شام تک یہ عمل جاری رہتا ہے۔ آخر میں قالین پر ریت اور بجری کی چھان کے بعد سونا دیکھتے ہیں۔‘
پرویز خان کے مطابق ’روزانہ کے حساب سے جو سونا ہمیں ملتا ہے اسے مقامی سنار کے پاس لے جاتے ہیں اور وہ اس کا حساب کر کے ہمیں پیسے دیتے ہیں۔ روزانہ اوسط کے حساب سے 900 یا 950 روپے فی کس ہمیں بچتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’دریا سے ملنے والا سونا پاسہ ہوتا ہے جو خالص اور صاف ہوتا ہے لیکن مقامی زرگر اس کی قیمت بازار والے سونے کے برابر لگاتے ہیں جو ملاوٹی سونا ہوتا ہے۔‘
بقول پرویز خان: ’دریا سے ملنے والے سونے میں چاندی یا کوئی ملاوٹی چیز نہیں ہوتی، یہ ایک نمبر اعلیٰ کوالٹی کا سونا ہوتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’کسی کو یہ نہیں معلوم کہ دریا میں سونا کہاں سے آتا ہے لیکن یہ دریا میں مختلف جگہوں پر ملتا ہے۔‘
پرویز خان کے مطابق: ’دریا کے کنارے سونا تلاش کرنے والے لوگوں کو رتی یا آدھا رتی مل جاتی ہے تو اس سے ان کی دیہاڑی لگ جاتی ہے لیکن یہ نہیں سنا کہ کسی کو تولا یا ماشہ ملا ہو۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔