کیا پاکستان واقعی واخان پر قبضہ کر سکتا ہے؟

واخان پاکستان کے علاقے چترال سے متصل ایک طویل سرحدی پٹی ہے، جو اب افغانستان کا حصہ ہے۔ اس کے بارے میں لوگوں کو جتنی زیادہ معلومات پچھلے ایک ہفتے میں ملی ہیں، اتنی اس سے قبل حاصل نہیں تھیں۔

10 اکتوبر 2017 کو لی گئی اس تصویر میں ایک افغان وخی خاندان کو شمالی افغانستان میں واخان کوریڈور میں پاکستانی تاجر سے زیورات خریدتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ (اے ایف پی)

واخان راہداری کے بارے میں لوگوں کو جتنی زیادہ معلومات پچھلے ایک ہفتے میں ملی ہیں، اتنی اس سے قبل حاصل نہیں تھیں۔

واخان پاکستان کے علاقے چترال سے متصل ایک طویل سرحدی پٹی ہے، جو اب افغانستان کا حصہ ہے۔ سوشل میڈیا پر جو پوسٹ ٹرینڈ کر رہی ہے اس کے مطابق یہ متحدہ ہندوستان کا حصہ تھی اور برطانیہ نے روس کے براہِ راست ہمسایہ بننے کے خطرے کے پیشِ نظر اسے افغانستان کی عمل داری میں دے دیا تھا، اس لیے پاکستان اگر اس پر قبضہ کر لیتا ہے تو عین جائز ہو گا کیونکہ یہ تاریخی طور پر پاکستان ہی کا حصہ ہے۔

یہ پوسٹ کیوں اچانک سے ٹرینڈ کر رہی ہے اور کیا واقعی ایسا ہے کہ واخان جغرافیائی اور تاریخی طور پر پاکستان کا حصہ ہے؟ واخان راہداری کیا ہے اور اس کی پاکستان، افغانستان، چین اور خطے کے لیے کیا اہمیت ہے؟

اس کا جائزہ لینا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ حقائق اور مفروضوں میں فرق کتنا ہے۔

واخان راہداری کیا ہے؟

افغانستان کے صوبے بدخشاں میں واقع واخان کی تنگ پٹی 350 کلومیٹر طویل اور 16 سے 64 کلومیٹر چوڑی ہے۔ دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلوں میں گھری یہ راہداری اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ چار ملکوں پاکستان، افغانستان، چین اور تاجکستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔

واخان کوریڈور کو شاہراہِ ریشم پر قوموں کے درمیان ایک پُل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ پاکستان کے ساتھ اس کی 300، تاجکستان کے ساتھ 260 اور چین کے ساتھ 74 کلومیٹر سرحد ملتی ہے۔

’گریٹ گیم‘ کے دوران جب روس اور تاجِ برطانیہ کے درمیان تزویراتی کشمکش عروج پر تھی تو واخان کوریڈور کو دونوں ملکوں کے درمیان بفرزون کی حیثیت حاصل تھی۔

اس کے مغربی حصے کو پنج دریا کی وادی کہتے ہیں، جو کم بلندی پر واقع ہے جبکہ دریائے پامیر کے ساتھ اونچائی پر واقع علاقہ اپر واخان کہلاتا ہے۔ قراقرم، ہمالیہ اور کوہ ہندوکش کی بلندو بالا چوٹیوں کے سبب اس علاقے کو ’بامِ دنیا‘ یعنی دنیا کی چھت کہا جاتا ہے۔

واخان کی معیشت جو شاہراہِ ریشم کے ساتھ جڑی ہوئی تھی

واخان کی تاریخ قبل از مسیح تک پھیلی ہوئی ہے۔ جس سلطنت نے عروج پایا واخان اسی کے زیر اثر آ گیا۔ کبھی یہ ساسانیوں کے زیرِ اثر رہا تو کبھی سفید ہنوں، ترک سلاطین، تبتی بادشاہوں، چینی تھنگ بادشاہوں، ایران کے سامانی بادشاہوں اور ترک منگولوں کا جھنڈا بھی یہاں لہرایا جاتا رہا۔

کشان دور (50 ق م تا 250) میں یہاں چین کا اثرو رسوخ تھا کیونکہ اس کی اہم ترین تجارتی شاہراہ ریشم اسی علاقے سے گزر کر وسطی ایشیا اور یورپ کو جاتی تھی۔ شاہراہِ ریشم یہاں سے دو حصوں میں بٹ جاتی تھی، ایک حصہ موجودہ گلگت بلتستان سے اور دوسرا حصہ واخان سے گزرتا تھا۔

جن قافلوں کو افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک میں جانا ہوتا تھا، وہ واخان والا راستہ ہی استعمال کرتے تھے۔ یہاں کے مقامی حکمران چین کے باج گزار تھے جنہیں اس اہم شاہراہ پر امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ داریاں تفویض کی گئی تھیں۔

واخان میں آج بھی کشان دور میں تعمیر کی گئی سراؤں، قلعوں اور بدھ خانقاہوں کے آثار موجود ہیں۔ دسویں صدی عیسوی میں چین کے تھنگ بادشاہوں کے عہد میں شاہراہِ ریشم کی اہمیت کم ہو گئی کیونکہ سمندری راستوں سے تجارت فروغ پا چکی تھی، جس کی وجہ سے واخان کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی۔

گریٹ گیم اور واخان کوریڈور

انیسویں صدی میں جب ایک طرف روسی فوجوں کی پیش قدمی جاری تھی تو دوسری جانب برطانوی نو آبادیاں بڑھتے بڑھتے روس کے دروازے تک پہنچ چکی تھیں۔ یہی دور واخان کے ساتھ ساتھ پامیر اور ہندوکش کی شاہی ریاستوں کی تاریخ کا سب سے ڈرامائی دور کہلاتا ہے۔ افغانستان، چین اور امیرِ بخارا سب واخان پر اپنا حق جتلا رہے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

واخان میں بسنے والے خود کو واخی نسل بتاتے ہیں، جو اپنا سلسلہ نسب سکندر اعظم سے جوڑتے ہیں۔ انیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے یہی واخی اسماعیلی بن چکے تھے۔

1860  میں روسی فوجیں پیش قدمی کرتے کرتے تاشقند، کھوجند، سمرقند کے علاوہ کئی چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر قبضہ کر کے اپنی عمل داری قائم کر چکی تھیں، تاہم 1890 تک روسی فوجیں تاجکستان کے علاقوں واخان، غران، شوگنان، رشان اور درواز میں داخل نہیں ہوئی تھیں، لیکن تاجِ برطانیہ کو خوف تھا کہ روس کسی بھی وقت ایسا کر گزرے گا اور اگر ایسا ہو گیا تو برِصغیر کا پورا شمال نیپال سے کشمیر تک روس کی جھولی میں جا گرے گا۔

برطانیہ ہر قیمت پر روسیوں کو مزید پیش قدمی سے روکنا چاہتا تھا۔ اس نے واخان میں اپنے متعدد جاسوس بھیجے تاکہ کسی بھی روسی سرگرمی کا اسے بر وقت پتہ چل سکے۔ ان جاسوسوں، جن میں مسلمان بھی شامل تھے، برطانیہ کو یہاں کی تاریخ، تہذیب اور سماج سے متعلق بھی معلومات بہم پہنچائیں۔

اس دوران روس اور برطانیہ کے درمیان بیک چینل ڈپلومیسی بھی چلتی رہی، جس کا مقصد روس کو شمال کی جانب مزید کسی بھی ایسی پیش قدمی سے روکنا تھا، جو انڈیا کی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکے۔ بالآخر 1873 میں روس اور برطانیہ کے درمیان ایک معاہدہ ہو گیا جسے ’گرین ول گورچاکوف معاہدہ‘ کہا جاتا ہے۔ گورچاکوف روسی اور گرین ول برطانوی وزیر خارجہ تھے۔

معاہدے میں طے پایا کہ دریائے آمو سے پامیر تک دونوں ممالک اس بفر زون کو قائم رکھیں گے جو افغانستان اور واخان کی صورت موجود ہے۔ واخان کے حکمران میر کہلاتے تھے جو بدخشاں کے ماتحت تھے۔ برطانیہ نے اس زمانے میں واخان کو افغانستان یا چین کا مستقل حصہ بنوانے کے لیے دونوں ممالک کے ساتھ کافی کام کیا جس کا مقصد روس کو یہاں سے فاصلے پر رکھنا تھا۔

جب واخان کا چترال کے ساتھ الحاق ہوتے ہوتے رہ گیا

 1926 میں ایک موقع ایسا بھی آیا جب یہاں کا مقامی حکمران میر علی مردان شاہ واخان کا الحاق چترال کے ساتھ کرنا چاہتا تھا لیکن برطانیہ نے اسے ایسا کرنے نہیں دیا کیونکہ چترال کا والی تاجِ برطانیہ کے ماتحت تھا اور روس اس صورت میں واخان پر چڑھ دوڑتا۔

پھر ایک اور رکاوٹ برطانیہ اور روس کے درمیان مارچ 1895 کا وہ معاہدہ بھی تھا، جس کے تحت دونوں ممالک پامیر باؤنڈری کمیشن کی وجہ سے پابند تھے کہ وہ اپنا دائرہ عمل یہاں تک نہیں بڑھائیں گے اور واخان کی حیثیت بفر زون کی برقرار رہے گی۔

اسی معاہدے کی رو سے واخان کی پٹی کو افغانستان کے امیر عبد الرحمٰن کی نگرانی میں دے دیا گیا۔

واخان دوبارہ سے کیوں اہم ہو گیا ہے؟

10,300  مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے واخان کوریڈور میں 20 ہزار واخی اور پامیری آباد ہیں، مگر ان کی قسمت نے 1838 میں روس چین گریٹ گیم، 1949 میں انقلابِ چین، 1980 میں افغانستان میں روسی مداخلت اور 2001 میں امریکہ کی افغانستان میں آمد کے باوجود کوئی پلٹا نہیں کھایا۔

پاکستان کے لیے وسطی ایشیا اور چین کے لیے افغانستان میں رسائی کے لیے واخان سب سے مختصر راستہ ہے۔ طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد افغانستان میں چین کی سرمایہ کاری میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں ایک تخمینے کے مطابق 10 کھرب ڈالر کی معدنیات موجود ہیں جن میں سونا، چاندی، تانبا، لوہا، ایلومینیم، لیتھیم، پارا، زنک اور دیگر کم یاب دھاتیں شامل ہیں۔

طالبان حکومت نے پچھلے سال صرف معدنیات کے شعبے میں چین کو 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش کی ہے۔ اس تمام منظر نامے میں واخان کوریڈور ایک بار پھر سے اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ افغانستان اور چین کے درمیان واخان کو چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کا حصہ بنانے پر بھی بات ہو رہی ہے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو واخان کے ذریعے پاکستان چین کے ساتھ بذریعہ چترال ایک متبادل روٹ سے بھی منسلک ہو جائے گا۔

مشہور درۂ بروغل پاکستان کو واخان سے ملاتا ہے۔ واخان میں چین کے معاشی مفادات سے پاکستان کے ان سکیورٹی خدشات میں بھی کمی ہو سکتی ہے جو اسے انڈیا کی جانب سے تاجکستان میں ایک دفاعی ایئر پورٹ بنانے سے لاحق ہیں۔

یہ ایئر پورٹ تاجکستان کے اس علاقے میں انڈیا نے 2007 میں بنایا تھا جو واخان کے ساتھ لگتا ہے۔ اگرچہ افغانستان کا صوبہ بدخشاں ایک پرامن علاقہ ہے جو طالبان کے عہد میں طالبان مخالف قوتوں کے قبضے میں تھا تاہم یہاں پر ماضی میں حرکت المجاہدین، دولت اسلامیہ، جند اللہ، تحریک طالبان پاکستان اور اسلامک موومنٹ آف ترکستان جیسے عسکری گروہوں کی موجودگی دیکھی گئی ہے۔

باجوڑ سے متصل افغان سرحد سے ٹی ٹی پی مسلسل در اندازی کر رہی ہے۔ شاہراہِ ریشم کے ساتھ چینی منصوبوں پر بڑھتے ہوئے حملوں نے بھی پاکستان کا پارہ چڑھا دیا ہے۔ ان حالات میں واخان میں شدت پسند گروہوں کی موجودگی سے پاکستان اور چین دونوں کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ