پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو اگر سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ ایک اتار چڑھاؤ سے بھرپور سفر رہا ہے۔ دہائیوں سے یہ دونوں ہمسایہ ممالک پیچیدہ اور اکثر غیر مستحکم تعلقات میں جکڑے ہوئے ہیں۔ کبھی لڑائی جھگڑے تو کبھی مشکل کے ساتھ ہونے والی جنگ بندی۔
یہ کچھ یوں سمجھ لیں جیسے ایک طویل خاندانی جھگڑا ہو، جس میں نسل در نسل شکایتیں وراثت میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔
دونوں ممالک کے اندرونی مسائل، مثال کے طور پر عسکریت پسندی، اقتدار کی جنگ اور ان جیسے کئی دیگر مسائل، اکثر سرحد پار بھی پھیل جاتے ہیں، جس سے نئی کشیدگیاں جنم لیتی ہیں۔
یہ بالکل اس مقولے جیسا ہے کہ ’میرے دشمن کا دشمن میرا دوست‘ مگر یہاں دوست مسلسل بدلتے رہتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سب ہمیشہ غیر یقینی کیفیت میں رہتے ہیں۔
پاکستان پر افغان گروپس کی حمایت کا الزام لگایا گیا جب کہ افغانستان نے مختلف اوقات میں ان جنگجوؤں کو پناہ دی جو پاکستان کے خلاف سرگرم تھے۔
یہ ’تم نے یہ کیا تو میں وہ کروں گا‘ قسم کی سیاسی چالاکی کا کھیل ہے جو ایک انتہائی خطرناک ماحول میں کھیلا جا رہا ہے۔
یہ محض سرحدی جھگڑا نہیں بلکہ یہ گہری جڑیں رکھنے والا مسئلہ ہے جو بداعتمادی اور تاریخی معاملات کے زہریلے امتزاج سے بھرا ہوا ہے۔
سیاسی عدم استحکام، دائمی کھانسی کی طرح دونوں ممالک کے لیے مستقل مصیبت بن چکا ہے۔
قیادت کی بار بار تبدیلیوں نے مضبوط سفارتی تعلقات قائم کرنے کو ریت کے قلعوں جیسا بنا دیا ہے، جو دلکش تو ہوتے ہیں مگر سیاسی ہلچل کی موجوں سے فوراً مٹ جانے والے۔
ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کے الزامات ایسے اڑتے ہیں، جیسے بیڈمنٹن کی شٹل کاکس اور پہلے سے کشیدہ تعلقات کو مزید زہر آلود کر دیتے ہیں۔
سرحدی جھڑپیں، جو اکثر جانی نقصان کا سبب بنتی ہیں، افسوس ناک حد تک معمول بن چکی ہیں اور کشیدگی کو مزید ہوا دے رہی ہیں۔
2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے سے الجھے ہوئے تعلقات میں ایک اور پیچیدگی کا اضافہ ہو گیا۔ پہلے ہی بہت سی شکنوں والے کپڑے میں ایک اور شکن پڑ گئی۔
پاکستان نے ابتدائی طور پر محتاط انداز میں امید کا اظہار کیا۔ اس توقع کے ساتھ کہ شاید استحکام واپس آئے مگر یہ امید ایک عارضی خواب ثابت ہوئی۔
حالیہ مہینوں میں جان لیوا سرحدی جھڑپوں میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا، جس نے کشیدگی کو عروج پر پہنچا دیا۔
اس مسلسل دشمنی کے نتائج تباہ کن ہیں۔ قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں، آبادیوں کو بے گھر ہونا پڑ رہا ہے اور اقتصادی ترقی جمود کا شکار ہے۔
یہ تنازع ایک وسیع تر خطے میں عدم استحکام کی قوت کے طور پر کام کر رہا ہے۔ ایک ایسا ماحول پیدا کر رہا ہے، جو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے فروغ کے لیے سازگار ہے۔
یہ ایک تاریک تصویر ہے جو اس حقیقت کی یاد دلاتی ہے کہ حل طلب تنازعات کا انسانی نقصان کتنا سنگین ہو سکتا ہے۔
ایک دیرپا حل تلاش کرنے کے لیے سوچ میں ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ حقیقی مکالمے میں شامل ہونے کی خواہش اور دیواریں کھڑی کرنے کے بجائے پل تعمیر کرنے کا عزم۔
اس کے متبادل ایک نہ ختم ہونے والا تشدد کا بھیانک چکر ہے۔ ایک ایسا مستقبل جو کوئی نہیں چاہتا۔
پاکستان کے افغانستان میں واخان راہداری پر نظریں جمانے کی سرگوشیاں ہیں؟ سیدھی بات کریں تو یہ کافی بعید از قیاس ہیں۔
یہ خیال پاکستان کی دیرینہ خارجہ پالیسی اور اس کی موجودہ سٹریٹجک ترجیحات کے بالکل برعکس ہے۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے میراتھن میں حصہ لینے والا کوئی شخص اچانک تیراکی کے مقابلے میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لے، بالکل غیر متوقع اور مزاج کے خلاف۔
سب سے پہلے تو پاکستان کی خارجہ پالیسی کسی بھی طور پر زبردستی سرحدیں بدلنے کے خلاف ہے۔ یہ کوئی خفیہ بات نہیں۔ یہ اس کے داخلی اور بین الاقوامی مؤقف کا ایک بنیادی اصول ہے۔
پاکستان کے کسی علاقے کو فوجی طاقت سے ہتھیانے کا تصور اس بنیادی اصول سے براہ راست متصادم ہے۔ یہ ان کے منصوبوں میں شامل ہی نہیں۔
دوسری جانب پاکستان اور چین کے درہ خنجراب پر بنیادی ڈھانچے کے بڑے اور مشترکہ منصوبوں پر نظر ڈالیں۔ یہ صرف چند سڑکیں بنانے کی بات نہیں۔ یہ ایک بڑی سرمایہ کاری ہے، جس کا مقصد درہ خنجراب کو سال بھر کے لیے مکمل طور پر فعال بنانا اور وسطی ایشیا کے لیے بڑی گزرگاہ کھولنا ہے۔
اگر پاکستان واخان کوریڈور چاہتا تو وہ اس کی بجائے درہ خنجراب پر سرمایہ کیوں کرتا؟ یہ سرمایہ کاری خود اس کی ترجیحات کو واضح طور پر بیان کرتی ہے۔
یہ ایک صاف اشارہ ہے کہ وسطی ایشیا تک پہنچنے کے لیے پاکستان کا منتخب راستہ درہ خنجراب ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ واخان راہداری کو حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھا جائے۔ یہاں نہایت سخت اور مشکل ماحول ہے۔ دور دراز، پہاڑی علاقہ اور رسائی انتہائی دشوار۔
وہاں بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرنا دیوقامت چیلنج ہو گا، جس کے لیے وقت اور وسائل کی بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔
دوسری جانب درہ خنجراب پہلے ہی رسائی کے لیے دستیاب ہے اور جاری ترقیاتی کاموں سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ جب ایک ہموار راستہ موجود ہو تو کوئی مشکل راستہ کیوں چنا جائے؟
قصہ مختصر: یہ دعویٰ کہ پاکستان واخان کوریڈور چاہتا ہے، کسی حقیقی بنیاد سے محروم ہے۔
یہ اس کی طے شدہ پالیسیوں، اس کی سٹریٹجک سرمایہ کاریوں اور اس خطے کی عملی حقیقتوں کے خلاف ہے۔
تاہم پاکستان اور افغانستان کا تعلق سادہ نہیں۔ افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی موجودگی ایک گہرا سایہ ڈالتی ہے جو پاکستان میں دہشت گردی اور عدم استحکام کو ہوا دیتی ہے۔
خاص طور پر امن وامان پر اس کے اثرات۔
تعاون کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہوئے پاکستان کا طریقہ کار سفارتی رہا ہے لیکن افغان حکومت کا ردعمل اکثر قبائلی نظریات کے زیر اثر لگتا ہے۔ اگر نرم الفاظ میں کہیں تو رابطے اور باہمی افہام وتفہیم کا فقدان ہے۔
افغان حکومت کبھی کبھی پاکستان کے ساتھ تعمیری مکالمے کی بجائے اندرونی مقبولیت کو ترجیح دیتی نظر آتی ہے اور کبھی اشتعال انگیز بیانات جاری کرتی ہے۔
یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جو طویل مدتی تعاون کی بجائے قلیل مدتی فوائد کو ترجیح دیتی ہے۔
بالآخر، دونوں ممالک ان مسائل کو حل کر کے بے پناہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ افغانستان کو صحت اور تعلیم جیسے شعبوں میں مدد کی ضرورت ہے، جب کہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں تجارت کی بحالی کی خواہش ہے۔
باہمی تعاون کا طریقہ کار نہ صرف سلامتی اور استحکام کو بہتر بنائے گا بلکہ اقتصادی ترقی کو بھی فروغ دے گا اور دونوں ممالک کے عام شہریوں کی زندگیوں میں بہتری لائے گا۔
یہ ایک ایسی صورت حال ہے، جس میں دونوں کا فائدہ ہے اگر وہ صرف خلا کو پاٹنے کا راستہ تلاش کر سکیں۔
(نوٹ: انجینیئر احسان اللہ خان عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات ہیں اور ان کے ساتھ [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔)
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔