افغانستان کے صوبے بدخشاں سے چین کی سرحد تک 50 کلومیٹر طویل نئی تجارتی سڑک کا افتتاح کر دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں تقریباً ایک صدی بعد اس راستے پر نقل وحرکت ممکن ہوگئی ہے۔
اس منصوبے کو، جس کی بنیاد 17 ستمبر کو رکھی گئی، طالبان حکومت کا پہلا ’بڑا کارنامہ‘ سمجھا جا رہا ہے جبکہ چین کے لیے بھی یہ ایک ’بہت بڑی کامیابی‘ قرار دی جا رہی ہے۔
افغان منسٹری آف پبلک ورکس کے مطابق اس سڑک کی تعمیر پر 369 ملین افغانی کی لاگت آئی۔
افغان حکام کے مطابق اس منصوبے کے نتیجے میں افغانستان کو بذریعہ سڑک چین تک پہنچنے کے لیے ایک نزدیکی اور متبادل راستہ مل جائے گا جبکہ تجارتی، اقتصادی اور سیاحتی فوائد بھی حاصل ہو سکیں گے۔
واخان، پاکستان اور تاجکستان کے درمیان ایک تنگ پٹی ہے، جو پاکستان کو دیگر وسطی ایشیائی ممالک سے الگ کرتی ہے۔
ضلع واخان افغان صوبہ بدخشاں میں ہے، جس کی سرحد چار ممالک چین، پاکستان، افغانستان اور تاجکستان سے ملی ہوئی ہے۔
واخان راہداری ہزاروں سال سے آمدورفت کی شاہراہ رہی ہے۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ یہ قدیم سلک روڈ تھا، جو انڈیا سے چین تک جاتا تھا۔ اسی راستے سے مارکوپولو نے بھی سفر کیا تھا جبکہ بدھ ازم کا پھیلاؤ بھی اسی راستے سے ہوا۔
برطانوی راج کے دور میں 1893 کے معاہدے کے بعد (جس کی حد بندی 1895 میں ہوئی) کے نتیجے میں ڈیورنڈ لائن کھینچی گئی اور ضلع واخان سوویت یونین اور برطانیہ کے زیر تسلط علاقے کے درمیان بفر زون بن گیا۔
اس تقسیم کے نتیجے میں واخان شاہراہ نقل وحرکت کے لیے بند ہوگئی۔
چین کو اس راستے کی اہمیت کا اندازہ ہے، تاہم امن و امان کی خواب صورت حال، شدت پسند تنظیموں اور بعد ازاں امریکی تسلط نے اس خواہش کو کبھی پورا نہ ہونے دیا۔
اب اس شاہراہ کو دوبارہ کھولے جانے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو نے تجزیہ کاروں سے بات کی، تاکہ یہ جانا جاسکے کہ اس منصوبے کے افتتاح سے دونوں ملکوں میں تجارت کے شعبے میں کتنی پیش رفت ہوسکتی ہے اور پاکستان کے اس پر کیا اثرات ہوسکتے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) ایاز خان نے اس حوالے سے کہا کہ ’واخان سڑک سے پاکستان کو تشویش نہیں ہونی چاہیے بلکہ اسلام آباد کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’پاکستان کے ضلع چترال میں بروغل پاس وہ جگہ ہے، جہاں سے باآسانی واخان تک پہنچا جاسکتا ہے۔ یہاں سے پاکستان کا تاجکستان اور دوسرے وسطی ایشیائی ممالک سے رابطہ برقرار رہے گا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’واخان تجارتی راستے کے کھلنے سے سی پیک پر دارومدار کم ہوسکتا ہے۔‘
بریگیڈیئر (ر) ایاز خان نے مزید کہا کہ ’اہم بات یہ بھی ہے کہ جو معاملہ ایک صدی میں ممکن نہ ہوسکا، اس کو طالبان حکومت نے ممکن بنایا۔‘
انہوں نے کہا: ’طالبان اپنی اقتصادی صورت حال بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بالآخر واخان پر تجارت کا فیصلہ ہوا۔ طالبان نے چین کے خدشات دور کیے اور حالات کو ان کے لیے سازگار بنایا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واخان راہداری کی اہمیت سے چین اور افغانستان بخوبی واقف رہے ہیں۔ دونوں، خاص طور پر چین چاہتا تھا کہ افغانستان تک کسی محفوظ راستے سے باآسانی رسائی حاصل ہو۔
تاہم افغانستان میں بدلتی حکومتوں، غیر مستحکم حالات اور امن و امان کی صورت حال نے نہ تو افغانستان کی کسی حکومت کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا اور نہ ہی ان وجوہات کی بنا پر چین نے اسے اہمیت دی۔
اگرچہ چین افغانستان تک تاجکستان اور پاکستان سے ہو کر بھی پہنچ سکتا ہے، تاہم یہ راستے طویل ترین اور دشوار گزار ہونے سمیت مالی لحاظ سے کافی مہنگے بھی پڑتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ راستے چین کے لیے زیادہ ودمند نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ زیادہ محفوظ بھی نہیں سمجھے گئے۔
یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ چین نے تاجکستان تک بہت پہلے ہی سڑک بنائی تھی۔ تاجکستان تک پہنچ کر وہاں سے ریلوے لائن بچھا کر اسے تہران اور دیگر ملحقہ ممالک تک پہنچایا گیا لیکن تاریخ دان پروفیسر لطف الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چین کی جانب سے یہ منصوبہ ایک متبادل راستہ اختیار کرنے کے لیے تھا۔
بقول پروفیسر لطف الرحمٰن: ’اس میں مسئلہ یہ تھا کہ یہ راستہ طویل ترین ہونے کی وجہ سے زیادہ وقت طلب ہے، یعنی زیادہ وقت لیتا ہے جبکہ واخان زمینی راستہ ہونے سمیت قریب ترین بھی ہے۔‘
پاکستان، افغانستان اور چینی میڈیا کے مطابق، طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد چین نے نہ صرف پہلی مرتبہ افغانستان کے لیے سفیر مقرر کیا ہے، بلکہ ان کے ساتھ معدنیات کا معاہدہ تازہ کرکے ضلع واخان سے چینی سرحد تک سڑک بنانے کے منصوبے کا آغاز بھی کر دیا ہے، جو چین کی ترجیحات اور آئندہ کی پالیسی ظاہر کرتا ہے۔
دوسری جانب چین کو، جو ایک طویل مدت سے پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھتے ہوئے یہاں سرمایہ کاری کرتا رہا ہے، اب ایک محفوظ اور مستحکم راستہ مل گیا ہے۔
مختلف ملکی و غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق چین کی افغانستان کی جانب پیش قدمی کی وجہ، پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور کرونا وبا کے نتیجے میں دنیا اور چین کی گرتی ہوئی معیشت ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ایریا سٹڈی سینٹر کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر سرفراز خان کے مطابق صرف گرتی ہوئی معیشت ہی چین کے لیے باعث تشویش نہیں ہے بلکہ بیجنگ امریکہ کے ساتھ جاری رقابت اور دشمنی کو مدنظر رکھتے ہوئے جغرافیائی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں پروفیسر سرفراز خان نے کہا: ’آئی ایم ایف کے قرضے اور امریکہ کی شاطرانہ پالیسی دیکھتے ہوئے پاکستان کسی بھی وقت امریکہ کے دباؤ میں آسکتا ہے۔ آنے والی حکومت کی ترجیح چین کی بجائے امریکہ ہوسکتا ہے۔ ایسے میں چین کو سی پیک کو بچانے اور اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے متبادل راستہ چاہیے تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ چین سمجھتا ہے کہ امریکہ کے دباؤ میں آکر پاکستان میں سی پیک تک پہنچنے پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔
’لیکن نئی واخان سڑک سے چین براہ راست ایران میں چابہار پہنچ کر گوادر پہنچ سکے گا۔‘
اس طرح یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ اگر چین افغانستان کے راستے باآسانی چابہار بندرگاہ تک پہنچ سکے گا تو اس کے لیے گوادر بندرگاہ پہنچنے کی کوئی ضرور باقی نہیں رہتی اور یہی تشویش ناک بھی ہے۔
پروفیسر سرفراز کے مطابق واخان سڑک سے چین کو بے پناہ فائدہ ہوگا۔ چین کو تانبے، لیتھیم، کوئلہ اور دیگر معدنیات تک دوبارہ رسائی مل گئی ہے اور متبادل راستہ بھی۔
انہوں نے کہا: ’افغانستان کا اس سڑک کے سبب پاکستان پر انحصار کم ہوجائے گا، جو پاکستان پسند نہیں کرے گا۔ دوسری جانب چین بھی پاکستان کی بجائے مال براہ راست افغانستان پہنچائے گا، جس سے پاکستان کا مالی نقصان ہوگا۔‘
پروفیسر سرفراز خان کے مطابق پاکستان چین کو ہمیشہ ’قریبی دوست‘ کہتا رہا ہے، لیکن اس دوستی کا تمام فائدہ چین کو ہوا ہے۔
’پاکستان کی چین کو برآمدات نہ ہونے کے برابر رہیں جبکہ پاکستان چین سے ہر سال اربوں کا سامان درآمد کرتا ہے۔ اب جو رہا سہا فائدہ تھا، وہ بھی ہاتھ سے گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ اگرچہ افغانستان کا پاکستان پر انحصار پوری طرح ختم نہیں ہوسکے گا، لیکن تجارتی طور پر مضبوط ہونے کے لیے اسے ایک اور راستہ مل گیا ہے۔
بقول پروفیسر سرفراز خان: ’پاکستان ماضی میں طالبان کا حامی رہا ہے۔ طالبان کے اب بھی پاکستان میں گھر اور قریبی رشتہ دار ہیں۔ عوام کا بھی یہی حال ہے اور علاج معالجے اور بیرون ملک جانے کے لیے بھی پاکستان کا قریب ترین راستہ انہیں میسر ہے۔‘