پاکستان اور افغانستان کے درمیان مشترکہ سرحد پر حملے اور جوابی حملے کے ایک راونڈ کے بعد قدرے سکون ہے لیکن سوشل میڈیا پر گھمسان کی جنگ اب بھی جاری ہے۔ ایسے میں کیا یہ کشیدگی کسی بڑی جنگ کی بنیاد بنے گی یا نہیں؟
پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدگی نے دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں سرحدی جھڑپوں اور حملوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، جس سے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
افغان طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے کیے گئے حملوں کے جواب میں انہوں نے سرحدی چوکیوں کو نشانہ بنایا ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرحد پر دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے۔
تاہم اگر سوشل میڈیا کا پچھلے چند روز سے جائزہ لیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے افغانستان پاکستان کے بڑے علاقے پر قابض ہو گیا ہے۔ اس بارے میں افغانوں کی جانب سے خواہشات پر مبنی نقشے تک شیئر کیے جا رہے ہے۔
دوسری جانب طالبان سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے ایسی ویڈیوز پوسٹ کی ہیں جن میں سرحدی علاقوں میں افغان فوجیوں کی نقل و حرکت کو دکھایا گیا ہے۔ ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سوویت دور کے کئی ٹینک، جو افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کی باقیات ہیں، گاڑیوں پر لاد کر سرحد کی طرف لے جائے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کے کی بورڈ ورایئرز افغانستان کو شمال میں چین سے ملانے والی واخان کی پٹی پر قابض ہونے کی افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ آن گراونڈ ایسا کچھ نہیں ہے۔ پاکستان کی جانب سے اس بارے میں سرکاری یا سکیورٹی ذرائع مکمل خاموش ہیں۔ لیکن چند فوج نواز سوشل میڈیا اکاونٹس ان افواہوں کو پھیلانے میں مصروف ہیں۔
یہ شاید اس تاثر کو دور کرنے کی جوابی کوشش بھی ہوسکتی ہے کہ پاکستانی طالبان نے پاکستانی سکیورٹی فورسز کی جانب سے باجوڑ میں خالی کی گئی ایک چوکی پر قبضہ کیا ہے۔ سکیورٹی ذرائع نے بعد میں یہ وضاحت بھی دی کہ یہ علاقہ انہوں نے پہلے ہی خالی کر دیا تھا۔
ویسے پاکستان افغانستان کے ساتھ سرحد کے کچھ گز سے لے کر چند کلومیٹرز تک اندر جانے اور واپس آنے کا کھیل کافی عرصے سے کھیل رہا ہے۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں۔
طالبان کے وزیر دفاع محمد یعقوب کا بیان بھی انہیں افواہوں کے درمیان سامنے آیا کہ واخان افغانستان کا سر ہے اور اسے کوئی جدا نہیں کرسکتا۔
واخان افغانستان کے شمال مشرق میں واقع ایک درہ ہے جو تاجکستان، چین اور پاکستان کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔ یہ علاقہ اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے اہم ہے۔
ساتھ میں افغان طالبان کے عبوری وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کی گذشتہ دنوں کابل میں چین کے سفیر سے ملاقات میں واخان زیر غور آیا لیکن پاکستان کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان نے مشرقی افغانستان میں پکتیکا اور خوست پر حملہ ایک ایسے وقت کیا جب دوبارہ تعینات کیے گئے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے صادق خان کابل کے دورے پر تھے۔ یہ غالباً پاکستان کی جانب سے ’کیرٹ اینڈ سٹک‘ پالیسی کا پہلی مرتبہ اجتماعی استعمال تھا؟
دوسری جانب اطلاعات ہیں پاکستان کی خواہش پر افغان طالبان نے گذشتہ دنوں ٹی ٹی پی سے جڑے چند سو افراد کو مشرقی افغانستان سے مرکزی صوبے غزنی منتقل کیا ہے۔ اس سے بھی پاکستان کا غصہ قدرے کم ہونا چاہیے اور اسے توقع ہونی چاہیے کہ ان کے سرحد سے دور ہونے سے شاید کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں میں کمی آئے گی۔
اگرچہ موجودہ حالات میں جنگ کا خطرہ کم ہے، لیکن دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
ٹی ٹی پی، پاکستان کے دشمن اور سوشل میڈیا کے کی واریئرز تاہم دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی وقت مزید تلخی پیدا کر سکتے ہیں۔ دراصل دونوں ممالک کی حکومتیں جنگ برداشت نہیں کر سکتیں۔ نہ افغانستان کی معاشی حالت اور بین الاقوامی طور پر تسلیم کیے جانے کی خواہش اور نہ پاکستان کی حالت ایسی ہے۔
دونوں کو اس کا اندازہ ہے لیکن دونوں اپنے اپنے عوام کے سامنے بے بس بھی دکھنا نہیں چاہتے۔ سو کچھ نہ کچھ کر گزرتے ہیں۔
آپ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کوئی حل نکالا جا سکتا ہے؟