گذشتہ ہفتے واخان راہداری پاکستان کے حوالے کرنے کے حوالے سے افغانستان کے عوام کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔
واخان راہداری بدخشاں کے پامیر پہاڑوں میں واقع ہے اور افغانستان کو شمال مشرق سے چین، تاجکستان اور پاکستان سے ملاتی ہے۔ واخان افغانستان اور قدیم چین میں سنکیانگ یا کاشغر کے درمیان واحد مواصلاتی رابطہ ہے۔
انڈپینڈنٹ فارسی کے مطابق اگرچہ تقریباً ایک صدی قبل سے اس راہداری کے ذریعے افغانستان اور چین کے درمیان کوئی باضابطہ رابطہ نہیں ہے لیکن تجارت میں اس پہاڑی راہداری کی اہمیت کے پیش نظر یہ افغانستان کے پڑوسی ممالک خصوصاً پاکستان اور تاجکستان کے لیے معاشی خوشحالی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
چترال واخان گرڈ بنانے کے پاکستان کے منصوبے پر عمل درآمد کی صورت میں تین ہمسایہ ممالک کے ساتھ تین اہم معاملات ہوں گے۔ پاکستان کا وسطی ایشیا تک کا راستہ کھل جائے گا۔
تاجکستان کو پاکستان کے کھلے پانیوں تک رسائی حاصل ہو جائے گی اور افغانستان وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیان رابطے کے مقام کے طور پر اپنی اہم جغرافیائی حیثیت کھو دے گا۔
گذشتہ ہفتے سوشل میڈیا نیٹ ورک پر متعدد افغان صارفین نے اس راہداری کو پاکستان کے حوالے کرنے پر تشویش کا اظہار کیا اور لکھا کہ طالبان نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں جس کے نتیجے میں یہ راہداری طویل مدت کے لیے پاکستان کے حوالے ہونے جا رہی ہے۔
طالبان اور پاکستان کی حکومت نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کے رشتے دار کریم خرم نے 22 جولائی کو ٹویٹ کیا کہ پاکستان نے حامد کرزئی کے دور حکومت میں کئی بار ان سے سے کہا کہ وہ واخان کوریڈور کو پاکستان اور تاجکستان کے درمیان تجارتی راستہ بننے کے لیے پاکستان کے حوالے کریں لیکن کرزئی نے انکار کر دیا۔
خرم نے لکھا کہ کرزئی کو یقین تھا کہ ایسا کرنے سے افغانستان اپنی سٹریٹجک اہمیت کھو دے گا اور ملک تقسیم ہو جائے گا۔
خرم نے مزید کہا کہ پاکستان نے حالیہ دنوں میں یہ درخواست دوبارہ کی ہے۔ انہوں نے طالبان سے کہا کہ وہ اس مسئلے کے منفی نتائج کو سمجھیں۔
28 جولائی کو طالبان کی وزارت دفاع نے واخان میں پتھر سے بنائے گئے اس ڈھانچے کو تباہ کرنے کی ویڈیو شیئر کی ہے جس کا تعلق پاکستانی فوج کے ساتھ ہے۔
وزارت دفاع نے دعویٰ کیا کہ طالبان کا ایک فوجی یونٹ واخان پہاڑوں میں افغان سرحد پر گیا اور ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔ فوجی یونٹ سرحدی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
طالبان کی وزارت دفاع کے دعوے کے مطابق یہ کارروائی وزیر دفاع ملا محمد یعقوب کے حکم پر کی گئی۔ واخان کوریڈور کو پاکستان کے حوالے کیے جانے کے امکان کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خدشات کے پیش نظر ایسا کیا گیا۔
واخان کوریڈور کے ذریعے افغانستان کی چین کے ساتھ تقریباً 80 کلومیٹر مشترکہ سرحد ہے۔ واخان کوریڈور یہ سرحد 1895 میں اس وقت کی دو بڑی طاقتوں انگلینڈ اور روس کے درمیان بفر زون کے طور پر قائم کی گئی تھی۔ گذشتہ 20 سالوں میں بعض اوقات منشیات کے سمگلروں کے اس پہاڑی سرحد کو عبور کر کے چین جانے کی خبریں آتی تھیں لیکن چینی حکام اور اس وقت کی افغان حکومتوں نے ان اطلاعات کی کبھی تصدیق نہیں کی۔
امریکہ اور افغانستان کی سابقہ حکومتوں نے چین سے متعدد بار واخان کوریڈور اقتصادی مقاصد کے لیے کھولنے کا کہا لیکن چین نے مسلم اکثریتی ریاست سنکیانگ میں بدامنی، افغانستان میں عدم استحکام اور بدخشاں میں اویغوروں کی موجودگی کی وجہ سے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
اگر یہ راہداری پاکستان کے حوالے کر دی گئی تو افغانستان چین کے ساتھ اپنے واحد سرحدی مقام سے محروم ہو جائے گا۔
طالبان کے کان کنی اور تیل کے وزیر مولوی شہاب الدین دلاور نے منگل 26 جولائی کو سرکاری ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ طالبان افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے حوالے کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
کریم خرم کے ٹویٹ کے جواب میں دلاور نے کہا: ‘ایسی درخواست کبھی نہیں کی گئی اور ہم کسی کو افغانستان کی سرزمین پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم کبھی چین جیسے بڑے سٹریٹجک ملک اور سلامتی کونسل کے رکن کو اپنے پڑوس سے نہیں ہٹانا چاہتے۔‘
اگرچہ چینی حکومت نے واخان کوریڈور کو پاکستان کے حوالے کرنے کے معاملے پر تاحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے تاہم چینی فوج نے حالیہ سالوں میں واخان سے متصل پہاڑوں پر افغانستان اور چین کے درمیان سرحد کی حفاظت کے لیے چوکیاں قائم کی ہیں۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے 2018 میں رپورٹ کیا تھا کہ واخان کوریڈور کے قریب چینی فوجیوں کی رہائش کے لیے کم از کم 20 عمارتیں بنائی گئی ہیں۔ چینی فوج ان فوجی مراکز کے ذریعے سرحدی علاقوں کی نگرانی کرتی ہے۔
تاجکستان میں افغانستان کے سابق سفیر عبدالغفور آرزو کا خط جو اگست 2013 میں اس وقت کی افغان حکومت کی وزارت خارجہ کو بھیجا گیا تھا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واخان کوریڈور کے حصول پر بات چیت کافی عرصے سے جاری تھی۔
سابق افغان سفیر نے اپنے خط میں لکھا کہ’چترال واخان راہدای کا قیام اس بات کی علامت ہے کہ (پاکستان) افغانستان کی جغرافیائی و سیاسی حیثیت کو ہڑپ کرنے کی جانب گامزن ہے تا کہ اسے جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کو ملانے والے پل کے طور پر استعمال کر سکے۔‘
افغانستان کے سابق سفیر نے تاجکستان میں پاکستان کے اس وقت کے سفیر امجد حسین سیال کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے چترال وا خان راہداری کے قیام کے لیے تاجکستان کے صدر امام علی رحمان سے تفصیلی بات چیت کی تھی۔
اس طرح تاجکستان کو پاکستانی پانیوں تک رسائی مل جاتی جب کہ پاکستان وسطی ایشیا کے ساتھ منسلک ہو جاتا۔
عبدالغفور آرزو نے لکھا ہے کہ تاجکستان کے صدر چترال واخان کوریڈور کے قیام کے معاملے میں احتیاط سے کام لیں گے لیکن تاجکستان کے بعض سیاسی عناصر اور کارکن ملک کی کھلے پانیوں تک رسائی کے مقصد سے اس مسئلے کو قومی مفادات سے وابستہ سمجھتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے آسٹریا اور ہسپانوی کنسلٹنٹس کی مدد سے چترال واخان کوریڈور کی فزیبلٹی سٹڈیز کی ہیں اور اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ دو کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی لاگت سے 10 کلو میٹر تک کھدائی کر کے ایسی راہداری اور دوسرے راستے بنائے جا سکتے ہیں۔
عبدالغفور آرزو نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ اگرچہ چترال واخان کوریڈور کا قیام پاکستان اور تاجکستان کے لیے اقتصادی نقطہ نظر سے فائدہ مند ہے لیکن اس سے تاجکستان اور چین کے لیے اس حوالے سے خدشات موجود ہیں جو اس منصوبے پر عمل درآمد میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
سنکیانگ میں بدامنی سمیت افغانستان میں جاری عدم استحکام کے حوالے سے خدشات کے باعث چین ابھی تک واخان کوریڈور کو فعال بنانے پر قائل نہیں ہوا۔
واخان راہداری جغرافیائی طور پر شمال میں تاجکستان، جنوب میں پاکستان اور مشرق میں چین سے منسلک ہے۔ اس راہداری کی لمبائی تقریباً 350 کلومیٹر ہے اور اس کی چوڑائی تقریباً 40 کلومیٹر ہے۔