جعفر ایکسپریس حملے کے بعد باقی ملک کی ٹرینوں کی سکیورٹی صورت حال کیا ہے؟

ڈی آئی جی آپریشنز ریلوے کے مطابق ’جب تک ہمیں سکیورٹی کلیئرنس نہیں ملتی اور ٹریک دوبارہ سے تعمیر نہیں ہوگا، ہم بلوچستان کے علاقے میں ٹرین نہیں چلائیں گے۔‘

11 مارچ 2025 کو بلوچستان کے شہر مچھ میں دور دراز پہاڑی علاقے میں ٹرین پر گھات لگانے والے مسلح عسکریت پسندوں کے خلاف ایک سکیورٹی آپریشن کے بعد پاکستانی فوجی ریلوے سٹیشن پر موجود ہیں (بنارس خان / اے ایف پی)

بلوچستان میں حکام کے مطابق منگل کی دوپہر کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر ضلع بولان کے علاقے میں حملے اور اس سے متعلق کارروائی کے بعد ملک میں چلنے والی ٹرینوں کی سکیورٹی کا کیا حال ہے؟

اس حوالے سے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) آپریشنز پاکستان ریلوے پولیس عبدالرب چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’ہم نے اپنے اہم key پوائنٹس اور ہاٹ سپاٹس کی نشاندہی کی ہے اور وہاں اپنی سکیورٹی میں اضافہ کرنے کے لیے متعلقہ حکام کو لکھ دیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بلوچستان میں ہمارا ٹرین آپریشن بند ہے، باقی ملک میں معمول کے ساتھ جاری ہے۔ بلوچستان میں ہماری دو ٹرینیں جعفر ایکسپریس اور بولان ایکسپریس جاتی تھیں۔ لیکن اب ہم اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ بلوچستان میں ٹرین آپریشن دوبارہ کس طرح شروع کیا جائے کیونکہ ابھی وہاں حالات مخدوش ہیں، وہاں ٹریک بھی متاثر ہوا ہے اور جب تک ہمیں سکیورٹی کلیئرنس نہیں ملتی اور ٹریک دوبارہ سے تعمیر نہیں ہوگا، ہم بلوچستان کے علاقے میں ٹرین نہیں چلائیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے حساس پوائنٹس وہ ہیں جہاں تنصیبات ہیں یا جہاں دہشت گردی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور یہ پوائنٹس ویسے تو ہر جگہ ہیں لیکن ہمیں زیادہ مسئلہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں آتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری سکیورٹی ٹرین کے ساتھ ہوتی ہے اور بلوچستان میں ٹرین کا آپریشن اس وقت بند ہے، البتہ ہمارے باقی ریلوے سٹیشنز کو دوبارہ اپ گریڈ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہاں مختلف گیجٹس ہوں جن میں سامان سکین کرنے کی مشینیں، کیمرے اور دیگر آلات شامل ہوں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے پاس جتنی نفری ہے، اس کے ساتھ ہی ہم انتظامات کر رہے ہیں۔ 'ہمارے نفری کے بھی بہت مسائل ہیں۔ چار ہزار سے بھی کم اہلکار ریلوے پولیس کے پاس ہیں، اب ہم پانچ سو مزید بھرتی کر رہے ہیں۔'

ان کا کہنا تھا: 'بلوچستان کے علاقے کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں قومی سطح پر پورے دل سے سوچنے کی ضرورت ہے۔'

'ہماری چونکہ ڈیوٹی محدود ہوتی ہے جس میں ہمیں ٹرین اور ریلوے سٹیشنز کو محفوظ کرنا ہوتا ہے، تو ہم انہی جگہوں پر رہتے ہوئے اپنے محدود میسر وسائل کو ہی بروئے کار لاتے ہیں۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) ریلوے پولیس کی کافی مدد کرتی ہے اور ان کے بغیر ہم خاص طور پر بلوچستان میں تو چل ہی نہیں سکتے۔ ایف سی کے اہلکار ہمارے ریلوے سٹیشنز کی سکیورٹی کو بھی چیک کرتے ہیں اور ہمارے ساتھ ٹرین میں بھی جاتے ہیں۔

جعفر ایکسپریس کی تاریخ کیا ہے اور اس کا نام کس کے نام پر ہے؟

پاکستان ریلوے کے ایک ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جعفر ایکسپریس سب سے پہلے 16 اپریل 1998 کو چلائی گئی تھی۔ 'اس کا روٹ کوئٹہ سے پشاور ہے جن میں یہ کوئٹہ جنکشن سے ہوتی ہوئے روہڑی جنکشن، بہاولپور جنکشن، خانیوال جنکشن، راولپنڈی جنکشن، لاہور جنکشن، وزیر آباد جنکشن، لالہ موسیٰ جنکشن، اٹک جنکشن، اور نوشہرہ جنکشن تک جاتی ہے اور یہ 35 گھنٹے 10 منٹ میں 1632 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے۔'

انہوں نے بتایا کہ اس ٹرین کا نام معروف بلوچ قائد میر جعفر خان جمالی کے نام پر رکھا گیا، جو قائد اعظم کے بہت قریبی دوستوں میں سے تھے اور انہوں نے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اس ٹرین میں اکانومی کلاس، اے سی سٹینڈرڈ، اے سی بزنس کلاس اور اے سی سلیپر شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس جعفر ایکسپریس کی دو ٹرینیں ہیں جو روزانہ چلتی ہیں۔ اس میں مسافروں کی تعداد تبدیل ہوتی رہتی ہے کیونکہ مسافروں کے کم زیادہ ہونے پر اس میں بوگیوں کو شامل یا نکال لیا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان