بلوچستان: ٹرین ہائی جیک کرنے والی تنظیم بی ایل اے کون ہے؟

ایک تحقیق کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی نے گذشتہ سال مجموعی طور پر 1,600  سے زائد افراد کی جانیں لی ہیں۔

مچھ ریلوے سٹیشن پر 11 مارچ 2025 کو ایک فوجی ٹرین سے رہا کیے ہوئے افراد کو گاڑی سے نیچے اتار رہا ہے (اے ایف پی)
 

علیحدگی پسند باغیوں نے منگل کے روز پاکستان میں ایک ٹرین کو ہائی جیک کر کے اس میں سوار تقریباً 500 مسافروں کو یرغمال بنا لیا۔ اس حیران کن دہشت گرد حملے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی جو بلوچستان کے شورش زدہ جنوب مغربی صوبے میں طویل عرصے سے بغاوت کر رہی ہے۔

سکیورٹی حکام کے مطابق فوج نے رات بھر جاری رہنے والے ایک آپریشن میں کم از کم 155 یرغمالیوں کو بازیاب کرایا اور 27 حملہ آوروں کو قتل کر دیا۔

بی ایل اے نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے 30 فوجیوں کو ہلاک کیا اور ایک ڈرون کو مار گرایا۔

باغیوں نے جعفر ایکسپریس کو نشانہ بنایا، جو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے پشاور جا رہی تھی۔ انہوں نے بلوچستان کے پہاڑی علاقے بولان میں ریلوے ٹریک پر دھماکہ خیز مواد نصب کر کے ٹرین کو رکنے پر مجبور کیا اور اسے مشکاٖف سرنگ میں پھنسا دیا۔

بلوچ لبریشن آرمی کی تاریخ کیا ہے؟

بی ایل اے بلوچستان کی آزادی کا مطالبہ کرنے والے سب سے بڑے مسلح گروہوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان اور امریکہ دونوں نے اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔

بی ایل اے اور دیگر باغی تنظیمیں پاکستان کی وفاقی حکومت پر بلوچستان کے قدرتی وسائل، جیسے تیل اور معدنیات، کے استحصال کا الزام لگاتی ہیں۔ یہ ملک کا سب سے بڑا لیکن کم ترین آبادی والا صوبہ ہے، جس کی سرحدیں افغانستان اور ایران کے ساتھ ملتی ہیں۔

یہ تنظیمیں دعویٰ کرتی ہیں کہ پاکستان نے 1948 میں برطانوی دور حکومت کے دوران بلوچستان پر حکمرانی کرنے والی قلات ریاست کو الحاقی معاہدے پر مجبور کر کے صوبے کو زبردستی ضم کر لیا تھا۔

بی ایل اے کا طویل عرصے سے بلوچستان میں سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ یہ تنظیم اکثر قدرتی وسائل کے منصوبوں پر حملے کرتی ہے، کیونکہ صوبے کے پہاڑی علاقے باغیوں کی پناہ گاہ سمجھے جاتے ہیں۔

طویل عرصے تک بی ایل اے کے حملے نسبتاً محدود پیمانے کے ہوتے تھے، لیکن گذشتہ اگست میں اس نے بڑے پیمانے پر ایک کارروائی کی جس میں تقریباً 70 افراد مارے گئے تھے۔

ان حملوں میں مشاخیل کے علاقے میں 23 مسافر بھی شامل تھے، جن کا تعلق صوبہ پنجاب سے تھا اور انہیں گاڑیوں سے اتار کر قتل کر دیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ سال کراچی ایئرپورٹ کے قریب دو چینی شہریوں کے قتل کی ذمہ داری بھی بی ایل اے نے قبول کی تھی۔ اس کے علاوہ، اس تنظیم نے ایک چینی یونیورسٹی پر خودکش حملہ کرنے کے لیے خواتین بمباروں کو بھیجا، جس کا مقصد بلوچستان میں چینی کمپنیوں کے سونے اور تانبے کی کانوں کے منصوبوں کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔

چین نے بلوچستان میں 50  ارب پاؤنڈ سے زیادہ کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، جو کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ ہے۔

اسلام آباد میں قائم سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے مطابق، بی ایل اے نے گذشتہ سال مجموعی طور پر 1,600 سے زائد افراد کی جانیں لی ہیں۔

بی ایل اے نے ٹرین پر حملہ کیوں کیا؟

بی ایل اے نے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچ سیاسی قیدیوں، کارکنوں اور ان شہریوں کو رہا کیا جائے جو مبینہ طور پر فوجی کارروائیوں کے دوران لاپتہ ہو گئے ہیں۔ ان آپریشنز پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔

ٹرین ہائی جیک کرنے کے بعد، بی ایل اے نے کہا کہ اس نے کئی سکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا ہے جو چھٹی پر گھروں کو جا رہے تھے۔

 بی ایل اے نے اپنے بیان میں کہا، ’عام شہری مسافروں، خاص طور پر خواتین، بچوں، بزرگوں اور بلوچ شہریوں کو بحفاظت رہا کر دیا گیا ہے اور انہیں محفوظ راستہ فراہم کیا گیا ہے۔‘

بی ایل اے نے مزید کہا، ’ہم قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہیں،‘ لیکن خبردار کیا کہ اگر فوجی کارروائی جاری رہی تو یرغمالیوں کو قتل کر دیا جائے گا۔

’اگر ہمارے مطالبات مقررہ مدت میں پورے نہ کیے گئے یا قابض ریاست نے اس دوران کوئی فوجی کارروائی کی تو تمام جنگی قیدیوں کو ہلاک کر دیا جائے گا اور ٹرین کو مکمل طور پر تباہ کر دیا جائے گا۔‘

خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے نامعلوم ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ دی ہے کہ حملہ آوروں نے کچھ یرغمالیوں کے ساتھ بارودی جیکٹس پہنے خودکش بمباروں کو بٹھا رکھا ہے، لیکن قیدیوں کی درست تعداد معلوم نہیں ہو سکی۔

بی ایل اے کا دعویٰ ہے کہ اس نے 214  افراد کو یرغمال بنا رکھا ہے، جبکہ ایک سکیورٹی اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ حملے کے وقت ٹرین میں 425  مسافر سوار تھے۔

منگل کو جاری کردہ بیان میں، بی ایل اے نے تمام غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سختی سے خبردار کیا ہے کہ وہ ’مقبوضہ بلوچستان کے وسائل کے استحصال میں حصہ نہ لیں۔‘

یہ واضح نہیں کہ حملے میں کتنے عسکریت پسند شامل تھے، لیکن پاکستانی حکام اور تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ بی ایل اے کے پاس تقریباً تین ہزار جنگجو ہیں۔

صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’بزدل دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے گا۔‘

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے بھی حملے کی مذمت کرتے ہوئے تمام یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان