بلوچستان بین الاقوامی پراکسی وار کا میدان بن چکا ہے۔ پاکستان نے سرخرو ہونا ہے یا گھائل ہونا ہے، فیصلہ اب یہیں ہو گا۔
اس صوبے میں ایک گوریلا وار جاری ہے۔ ایسی لڑائی کا نفسیاتی اور ابلاغی بیانیہ بہت اہم ہوتا ہے۔ اس کے بغیر گوریلا وار جاری نہیں رہ سکتی۔
اس بیانیے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عام آدمی کو الجھا دیا جائے اور قتل و غارت کے ہنگام میں اسے یہ فیصلہ کرنے میں مشکل ہو کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے۔ وہ مخمصے اور خلطِ مَبحث (غلطی سے یا مغالطے کے لیے موضوع سے ہٹ جانے یا اسے الجھا دینے کے عمل) کا شکار رہے۔
پاکستان نے اگر یہ جنگ جیتنی ہے تو یہ مخمصہ ختم کرنا ہو گا۔ اگر مگر، گو مگو اور چونکہ چنانچہ کا وقت ختم ہو چکا۔ ریاست کو پوری یکسوئی کے ساتھ بروئے کار آتے ہوئے اس دہشت گردی کو اس کے سہولت کار بیانیے سمیت ادھیڑنا ہو گا۔
بلوچستان میں جاری شورش کا بیانیہ کیا ہے؟ بتایا جاتا ہے کہ ہم اپنے وسائل کے باوجود غریب رہ گئے اور وفاق نے ہمیں ہمارا حق نہیں دیا اور ہمارے ساتھ ناروا سلوک کیا۔ اب ہم نے اپنا حق لینا ہے۔
معاشی محرومیاں ایک حقیقت ہیں اور طرزِ حکومت کے مسائل بھی ہیں، تاہم سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ محرومیاں اس شورش اور دہشت گردی کی وجہ نہیں، یہ اس کے لیے ایک بہانہ ہیں۔ یہ ’ریزن‘ (وجوہات) نہیں، یہ ’ایکسکیوز‘ (بہانے) ہیں۔
محرومیوں کا بیانیہ تو بہت بعد میں استوار ہوا، ریاست کے خلاف بغاوت تو قیامِ پاکستان کے وقت سے ہی شروع ہو گئی تھی، جو کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی۔
یہی معاملہ لاپتہ افراد (مسنگ پرسنز) کا ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ معاملہ ہے اور اسے حل ہونا چاہیے لیکن یہ بھی کسی دہشت گردی کا جواز نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ لاپتہ افراد کی وجہ سے شورش اور دہشت گردی پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ شورش اور دہشت گردی ہے، جس نے لاپتہ افراد کے بحران کو جنم دیا۔
پاپولزم کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ حکومت پر تنقید جاری رکھی جائے مگر جہاں معاملہ ریاست کا ہو، وہاں پاپولزم آزار بن جاتا ہے۔ کبھی اس پر بھی تو کوئی بات ہو کہ پولیس اور فوج کے وہ نوجوان جو مسلسسل اس دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ انہیں کون مار رہا ہے؟
وفاق کی ایک اکائی کے طور پر اپنا حق مانگنا جائز عمل ہے، لیکن کچھ عناصر اگر وفاق کے وجود پر ہی حملہ آور ہو جاتے ہیں تو یہ پھر حقوق کا معاملہ نہیں رہتا۔ یہ ریاست کے خلاف جنگ ہے۔
بلوچستان میں گوادر جیسے وفاق کے کسی معاشی منصوبے میں بلوچستان کے جائز حقوق کے حصول کا مطالبہ بالکل بجا ہے لیکن یہ کہنا کہ بلوچستان میں وفاق کو آنے کا کوئی حق ہی نہیں، بالکل غلط بات ہے۔ صوبے میں اور ایک متوازی ریاست میں بہر حال فرق ہوتا ہے۔
وفاق اپنے صوبوں میں معاشی منصوبے بھی لاتا ہے اور ان منصوبوں کے لیے افرادی قوت بھی ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں جاتی ہے۔ صوبائی حقوق کے نام پر کوئی صوبہ اس عمل کو نہیں روک سکتا۔ کراچی میں اگر ترقی ہوئی تو کراچی نے تمام صوبوں کے لوگوں کے لیے اپنا دامن کشادہ رکھا۔
ریاست کے اندر اصلاح احوال کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے اور کبھی یہ بہت شدید بھی ہو جاتی ہے، لیکن دہشت گردی کا کوئی جواز قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔ وفاق کے اندر کسی ایک یونٹ کو کتنے ہی شکوے شکایات ہوں، ان کا حل سیاست، مفاہمت اور مکالمے سے نکل سکتا ہے، دہشت گردی سے نہیں۔
صوبوں کے جائز حقوق کو ہر سطح پر یقینی بنانا چاہیے اور یہ کام اہلِ سیاست ہی کر سکتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے دہشت گردی کو کچلنا ضروری ہے اور یہ کام صرف فوج ہی کر سکتی ہے۔ جس کا جو کام ہے، اسی کو کرنا چاہیے۔ لکل فن رجال یعنی ہر فن کے ماہرین ہوتے ہیں۔ یہ جنگ جیتنے کے لیے اس ترتیب کا درست رہنا بھی بہت ضروری ہے۔
بلوچستان کی سماجی اور سیاسی فالٹ لائنز کو بھرنے کے لیے سیاست دانوں کو آگے آنا ہو گا۔ بلوچستان میں پارلیمانی سیاست اور اس سے جڑے لوگ جتنے معتبر ہوں گے، دہشت گرد اس معاشرے میں اتنے ہی نا معتبر ہوتے جائیں گے۔
بلوچستان اس وقت بین الاقوامی مفادات کا میدانِ جنگ بن چکا ہے۔ سی پیک کے معاملات جیسے جیسے آگے آگے بڑھیں گے، اس جنگ میں شدت آنے کا امکان ہے۔ یہ علاقہ بین الاقوامی تزویراتی اور معاشی لڑائی کا میدان بن چکا ہے۔ یہ جنگ ہمہ جہت ہے۔ اس سے نمٹنے کی حکمت عملی بھی ہمہ جہت ہو گی تو کارگر رہے گی۔
یہ جنگ لڑنے کے لیے یکسوئی بہت ضروری ہے۔ اگر مگر چونکہ چنانچہ کا وقت گزر چکا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔