انڈین اور پاکستانی فلموں میں اچھائی کی آخر میں برائی پر برتری دکھائی جاتی ہے۔
کبھی پولیس والا چور کو گولی مار دیتا ہے، کبھی غریب آدمی سرمایہ کار کو اس کی بے انصافیوں پر جہنم واصل کر دیتا ہے، کبھی ظلم سہتے سہتے ایک مظلوم، ظالم کو پستول کی ’ٹھاہ‘ سے ہٹا دیتا ہے، تو کبھی ناخلف اولاد، ماں باپ کے ریوالور کے سامنے جان دے دیتے ہیں۔ اس آرٹیکل میں ہم اس موت کی بات کریں گے جو فلموں میں خاندانی رنجشوں کا شاخسانہ ہوتی ہے۔
یہ موت انڈیا اور پاکستان کی فلموں میں ہر دور میں دیکھی گئی ہے، اس میں گولی کے آگے کبھی بھائی ہوتا ہے، کبھی شوہر، کبھی بیٹا، مگر نشانہ لینے والایا والی کو ہی اصل میں تالیاں ملتی ہیں۔
1957 میں محبوب خان کی بالی وڈ فلم ’مدر انڈیا‘ میں ایک ایسے ہی اختتام نے دیکھنے والے کو چونکا دیا، جس نے نہ صرف فلمی صنعت کو متاثر کیا، بلکہ فلموں کی کامیابی کی ضمانت بھی بنا۔
ویلنٹائن ڈے پر ریلیز ہونے والی اس فلم کے آخر میں، رادھا، جس کا کردار ہیروئن کی اننگز کی آخری باری کھیلنے والی نرگس ادا کر رہی تھیں، اپنے ہی ڈاکو بیٹے ’برجو‘ کو گولی مار دیتی ہے، یہ گولی اس وقت چلائی جاتی ہے جب ’برجو‘ شادی کے منڈپ سے ایک دلہن کو اٹھا کر لے جا رہا تھا۔
یہ نرگس کے کیریئر کی آخری بڑی فلم تھی اور اس کے بعد حقیقی زندگی میں ’برجو،‘ یعنی سنیل دت، ان کے ویلنٹائن بن گئے۔ ایک سین فلم بند کراتے ہوئے جس پر سیٹ میں آگ لگنا مقصود تھا، نرگس پھنس گئیں، اور حقیقی زندگی میں پیٹھ پر گولی کھانے والے برجو، یعنی سنیل دت نے نرگس کو بچایا اور بعد میں دونوں نے شادی کر لی۔
’مدر انڈیا‘، محبوب خان ہی کی 1940 کی فلم ’عورت‘ کا ری میک تھی، جہاں رادھا کے روپ میں سردار اختر، اپنے بیٹے برجو، اداکار یعقوب کو ایسی ہی مار دیتی ہے۔ شدتِ غم سے ’ماں‘ خود بھی فلم کے آخری منٹ میں دم توڑ دیتی ہے۔
یہ تو کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں، کہ کیسے ’مدر انڈیا‘ میں ڈبل رول کرتے کرتے، اس صدی کے ہندوستان کے عظیم ترین اداکار دلیپ کمار کو فلم ہی سے باہر کر دیا گیا تھا۔ جن کو نہیں پتہ، وہ یہ جان لیں کہ محبوب خان، دلیپ کمار کو لے کر یہ فلم بنا رہے تھے، دلیپ صاحب، دونوں کرداروں کے لیے سپیشل ’وگ‘ بنوانے لندن گئے اور پیچھے نرگس نے کاسٹ ہی بدلوا دی۔
نرگس کے خیال میں دو دلیپ کمار ان کے کردار کو اٹھنے نہیں دیں گے، اسی لیے، پروڈیوسر کے سامنے ’نرگس یا دلیپ کمار‘ والی سیچویشن ہو گئی۔ دوسری جانب یہ خبریں بھی آئی تھیں کہ دلیپ کمار فلم میں اپنے کردار سے مطمئن نہیں تھے، کیوں کہ سکرپٹ کی مرکزی توجہ کا مرکز ہیروئن تھی، اور محبوب دلیپ کے کردار کو بڑھانا نہیں چاہتے تھے۔ ٹریجیڈی کنگ فلم سے تو الگ ہو گئے لیکن گولی کھانے کا شوق اور ’وگ‘ کا خرچہ انہوں نے ’گنگا جمنا‘ سے پورا کیا۔
انہوں نے ’مدر انڈیا‘ کے مصنف کو لے کر، 1961 میں ’گنگا جمنا‘ بنائی جس میں کلائمیکس، کافی ملتا جلتا تھا۔ بھاگتے ہوئے ڈاکو بھائی ’گنگا‘ کو اس کا پولیس افسر بھائی ’جمنا‘، جب روکنے میں ناکام ہوتا ہے، تو فرض کے ہاتھوں مجبور اس سے ٹریگر دب جاتا ہے۔ اس سین کو شاید نوجوان سلیم خان اور جاوید اختر نے دیکھا تھا اور پسند کیا تھا۔ اور شاید اسے استعمال کرنے کی ٹھانی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
14 سال بعد فلموں میں بہت کچھ بدل گیا تھا۔ 70 کی دہائی کے وسط تک انڈین فلموں کے کلچر میں گینگسٹرز، منشیات، شادی سے پہلے ساتھ رہنا اور کلب جیسی چیزیں شامل ہو گئی تھیں۔ سلیم، جاوید کی جوڑی کا اس تبدیلی میں بڑا ہاتھ تھا۔ سب بدل گیا تھا لیکن چھوٹے بھائی اور گولی کا رشتہ ویسا ہی رہا۔
1975 میں یش چوپڑا کی فلم ’دیوار‘ میں روی کا کردار کرنے والے ششی کپور، وجے کا کردار ادا کرنے والے امیتابھ بچن پر وارننگ دینے کے بعد ’گولی‘ چلا دیتے ہیں۔ لیکن موت، اس بھائی کو مندر میں آتی ہے، جس نے فلم کو امر کر دیا تھا۔ فلم ’دیوار‘ سے ابھرنے والے لیکھک، سلیم جاوید کی جوڑی نے اپنی ہی ایک اور فلم میں امیتابھ بچن کے ساتھ یہی سلوک دہرایا۔
فرق صرف اتنا تھا کہ اس بار گولی ایک فرض شناس باپ نے چلائی۔ باپ کا کردار ادا کر رہے تھے دلیپ کمار اور فلم تھی 1982 میں ریلیز ہونے والی شکتی۔ ایک پولیس آفیسر نے ’وجے‘ کو روکنے کی کوشش کی مگر بات نہ ماننے پر آنسو بھری آنکھوں سے فائر کر دیا۔
اس دور میں پاکستان میں وی سی آر آ چکا تھا، اور انڈیا سے فلمیں بھی۔ چنانچہ پاکستان کی کئی فلموں میں بھی اس خاص سیچویشن کو دہرایا گیا۔ سب سے پہلے 1976 میں ریلیز ہونے والی فلم ’جیو اور جینے دو‘ میں ایسا ہی سین فلمایا گیا۔
اداکارہ و فلم ساز شمیم آرا کی فلم میں ’دیوار‘ شعلے سے بھی کافی مناظر ’ادھار‘ لیے گئے تھے۔ بڑھتی عمر کی وجہ سے یہ شمیم آرا کی ’مدر پاکستان‘ بنانے کی کوشش تھی۔ آخری سین میں وہ اپنے بیٹے رحمان کو ایک دلہن کو اغوا کرتے ہوئے روکتی ہیں، یہاں ان کے بیٹے کا کردار جنگجو ہیرو ’غلام محی الدین‘ ادا کر رہے تھے، جنہیں ’برجو‘ والی موت نصیب ہوتی ہے۔
’شکتی‘ کے پاکستان پہنچتے وقت، پی ٹی وی میں ’اندھیرا اجالا‘ ڈراما شروع ہو چکا تھا۔ اس میں اداکار عرفان کھوسٹ اور جمیل فخری، کرم داد اور جعفر حسین کے کردار میں بالترتیب پسند کیے جاتے تھے۔ جب عرفان کھوسٹ نے اپنے کردار کو بڑے پردے کے لئے ’ڈائریکٹ حوالدار‘ کے روپ میں پیش کیا، تو کلائمیکس میں ’رک جاؤ نہیں تو میں گولی مار دوں گا،‘ سے بہتر کوئی چیز نہ سوجھی۔
یہاں پہ جعفر حسین نے گولی اپنے بیٹے عظمت پر چلائی، جس کا کردار دلیپ کمار سے شدید متاثر فردوس جمال ادا کر رہے تھے۔ بالی وڈ اداکار ایک ہی انڈین گولی کھا کر مارے گئے، جبکہ ایک پاکستانی فردوس جمال نے باپ سے تین گولیاں کھا کر بھی جواب میں جیکٹ کی زِپ کھولی، ایک بم نکال کر سیدھا باپ کی جانب پھینکا، جسے فرض شناس پولیس افسر نے نہ صرف کیچ کیا، بلکہ مرتے ہوئے بیٹے کی جانب واپس پھینک کر اس کی موت یقینی بنائی۔
اس سے قبل ناقابلِ تسخیر سلطان راہی بھی فلم شاہین میں ’ماں کی گولی‘ کا نشانہ بنے تھے، تاہم ممتا نے انہیں موت سے دور رکھا۔ اور دیبا، جو سلطان راہی کی بیٹی اور ہیروئن بھی بن چکی ہیں، بحیثیت ماں اپنا فرض نہ نبھا سکیں۔
’مدر انڈیا‘ کی آخری مثال، عامر خان اور کاجول کی 2006 کی فلم ’فنا‘ میں ملتی ہے، جب ریحان نام کے ایک دہشت گرد شوہر کو روکتے ہوئے، زونی، یعنی کاجول سے گولی چل جاتی ہے۔ کنال کوہلی کی بنائی گئی اس فلم میں بھی گولی کھانے والا ایک پٹھان تھا۔
اچھائی کی برائی پر جیت کا یہ سالوں پرانا طریقہ اب کم ہو گیا ہے، کیونکہ فلموں میں اب بندوق کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہو گیا ہے۔